امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
گناہ کے بارے میں فکر کرنے کا اثر

گناہ کے بارے میں فکر کرنے کا اثر

انسان میں ہر اچھی و بری ، نیک و بد صفت کے خلق ہونے کی آمادگی مو جود ہوتی ہے ۔ اچھے اور برے کے بارے میں سو چ و فکر سے ان کی فعلیت و انجام دہی میں تبدیلی آ جاتی ہے ۔ پھر یہ امکان کے مرحلہ سے نکل کر واقعیت کا جامہ پہن لیتی ہے ۔ یہ ایک عام اور کلی حقیقت ہے کہ جو صرف اچھے اور پسندیدہ کاموں کے ساتھ مختص نہیں ہے ، یعنی جس طرح انسان اچھائیوں کے بارے میں سوچنے سے ان ہی کی طرف مائل ہو تا ہے ۔ اور انہیں انجام دیتا ہے اسی طرح حیوانی لذتوں اورگناہوں کے بارے میں سوچنا بھی انسان کو ان ہی کی طرف لے جاتا ہے اور پھر انسان ان کا مرتکب ہو تا ہے ۔

حضرت امیر المومنین  (ع) فرماتے ہیں :

''من کثر فکرہ فی المعاصی ، دعتہ الیہا ''([1])

جو کوئی گناہوں کے بارے میں زیادہ فکر کر ے تو وہ ان کی طرف آجاتا ہے ۔

اسی طرح دوسرے فرمان میں ارشاد ہے :

''من کثر فی اللذات ، غلبت علیہ ''([2])

جو کو ئی لذتوں کے بارے میں زیادہ سوچے تو یہ اس پر غالب آجاتی ہیں ۔

اس بناء پر انسان کی سوچ و فکر اس کےمستقبل کو تبدیل کرسکتی ہے اور اس کی زندگی میں عظیم تبدیلیاں اور تحو لات ایجاد کر سکتی ہے اسی وجہ سے خاندان عصمت و طہارت کے دلنشین کلمات وفرمودات میں تفکر و تعقل کی  اہمیت کو بیان فرما یا گیاہے اور انہوں نے اپنے محبوں اور پیرو کاروں کو اس کی اہمیت کے با رے میں امر فر مایا ہے۔

 کیو نکہ اچھا عمل و کردار ، اہم اور باارزش مو ضوعات میں فکر اور سوچ و بیچار کا نتیجہ ہے ۔

 


[1]۔ شرح غرر الحکم:ج٥ ص ٣٢١

[2] ۔ شرح غرر الحکم:٥٢٢

 

    بازدید : 7551
    بازديد امروز : 57526
    بازديد ديروز : 84782
    بازديد کل : 134527553
    بازديد کل : 93020058