امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
قضاوت کے بارے میں بحث

قضاوت کے بارے میں بحث

کفار و منافقین کے لشکر کی شکست اور دنیا کے ستمگروں کی نابودی سے پوری کائنات میں حکومت عدل ِ الٰہی مستحکم ہوگی۔ظالموں اور ستمگروں کے نامہ اعمال کی چھان بین کی جائے گی اور اگر کوئی روئے زمین پر کسی پہ ظلم کرے تو اسے برطرف کرکے اس کا جبران کیا جائے گا۔

کیونکہ پوری دنیا میں ظلم و ستم کو ختم کرنے کا مقصد صرف اپنی رعایا پر ظلم و ستم کرنے والے بادشاہوں اور حکمرانوں کو نابود کرنا نہیں ہے۔بلکہ سب ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔چاہے انہوں نے کسی ایک ہی فرد پر ظلم کیوں نہ کیا ہو۔اس وقت تمام مظلومین،ظالموں کے شرسے نجات پائیں گے۔یہ صحیح ہے کہ دوسروں پر ظلم کرنے والے بہت سے ظالم ،خود کو ظالم نہیں سمجھتے اور وہ انجام دیئے  گئے ظلم و ستم کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔یہ ظالموں اور مظلوموں کے درمیان اختلاف کا باعث ہوگا۔کیونکہ ظالم اپنے تمام افعال کو عدل کا  لبادہ پہنائیں گے اور مظلوم انہیں ظلم قرار دیں گے۔ہر کوئی خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم شمار کرے گا۔

ایسے موارد میں دونوں میں سے کسی کو بھی انجام دیئے گئے امور میںاختلاف  و اعتراض نہیں ہوگا۔ان کے اختلاف کی وجہ  یہ ہوگی کہ کیا وہ کام ظالمانہ تھا یا نہیں تھا!بعض موارد میں ظالم اپنے ظلم کا انکار کریں گے ۔وہ یہ قبول نہیں کریں گے کہ انہوں نے ایسا کام انجام  دیا ہے ۔یہ دو افرا د  یا دو گروہوں کے  درمیان اختلاف کے  دو نمونے ہیں۔

ایسے موارد میں قضاوت کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ علم و یقین سے ظالم و مظلوم کو ایک دوسرے سے تشخیص دے سکیں اور ظالم سے مظلوم کا حق لیا جائے۔یہ بھی واضح ہے کہ بہت سے موارد میں طرفین میں سے کوئی بھی ایسا شاہد و گواہ نہیں لاسکے گا کہ جس کی شہادت قابل قبول ہو۔

اس صورت میں فقہی مسائل کی رو سے یمین و قسم کا دامن تھاما جائے گا۔لیکن ممکن ہے کہ منکر جھوٹی قسم کھاکر دوسرے کے حق کو پامال کرے اور ظالمانہ طریقے سے اس کا حق غصب کرے۔اسی طرح ممکن ہے کہ جھوٹی گواہی کے ذریعہ بھی صاحبِ حق کے حق کو  پامال کیا جائے۔

 

    بازدید : 7278
    بازديد امروز : 69825
    بازديد ديروز : 116876
    بازديد کل : 134194905
    بازديد کل : 92828522