حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
روایت کے اہم نکات

روایت کے اہم نکات

اس روایت میں دقت طلب اورقابل توجہ نکات موجود ہیں کہ جو آئندہ کی درخشاں اور علم و دانش سے سرشار دنیا کی حکایت کرتے ہیں۔اب ان میں سے اہم نکات پر غور کریں:

١۔امام صادق علیہ السلام کا اس حدیث میں یہ فرمانا کہ ''فبثھا فی الناس''  یہ ایک انتہائی اہم مطلب کی دلیل ہے اور وہ معاشرے کے تمام افراد میں علم کے عام ہونے اور علم کی وسعت سے عبارت ہے۔اس کی دلیل کلمہ ''الناس'' میں موجود الف و لام ہے۔

اس بناء پر اس زمانے میں تمام لوگ علم کے بلند مقام تک پہنچ جائیں گے ۔علم و دانش معاشرے کے بعض مخصوص افراد سے مختص نہیں ہوگا۔اس زمانے

میں دنیا کے تمام لوگ علم کی نعمت سے مستفیض ہوں گے ۔

٢۔ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے قیام سے پہلے معاشرے  کے تمام افراد میں علم و دانش عام نہیں ہوگا ۔ بلکہ یہ چند مخصوص افراد سے مختص ہوگا، اور وہ بھی تمام علوم  سے آشنا نہیں ہوں گے۔ بلکہ بعض علوم سے آشنائی رکھتے ہوں گے۔

٣۔ تکامل  کے زمانے میں علم، آج کے زمانے میں علم و دانش کی طرح نہیں ہے ۔ کیونکہ اس زمانے میں علم و دانش کا دامن بہت وسیع ہوگا اور اس زمانے میں معاشرے کے افراد علم ودانش کی تمام انواع واقسام سے آگاہ ہوں گے۔

کلمہ ''العلم'' میں'' الف و لام ''سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے علم کی تمام انواع  و اقسام مراد ہیں۔یعنی جو بھی علم شمار ہو،ان سب کا مجموعہ( ماضی،حال اور قیام سے پہلے اور ظہور کے بعد تک) ستائیس حروف ہیں ۔

پیغمبروں کے زمانے سے زمانۂ غیبت کے اختتام تک علم و دانش جتنی بھی ترقی کرلے وہ دو حروف سے زیادہ تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ لیکن عصرِ ظہور میں ان کے ساتھ علم کے دوسرے پچیس حروف بھی ضمیمہ ہوں گے۔ پھر لوگ تکامل کی منزل پرپہنچ جائیں  گے ۔([1])

پیغمبروں کے زمانے سے امام صاددق  علیہ السلام کے زمانے تک اور پھر امام عصر علیہ السلام کے قیام کے زمانے سے پہلے تک جو کچھ بھی ہوگا، وہ علم کے دو حروف ہیں۔

پیغمبروں کے زمانے سے امام صادق  علیہ السلام کے زمانے تک ہونے والی تمام علمی پیشرفت اور امام صادق  علیہ السلام کے وجود سے نکلنے والے علوم کے چشمے اور اس کے علاوہ دیگر علوم کہ جو انہوں نے جابر ا ور اپنے دوسرے خاص اصحاب کو تعلیم فرمائے اور اس کے علاوہ امام زمانہ  کے قیام سے پہلے تک ہونے والی تمام علمی ترقی کے باوجود سب دوحروف سے زیادہ نہیں جانتے۔یہ نکتہ اس وقت حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ جب امام صادق  علیہ السلام  کے وجود سے ظاہر ہونے والے علوم کے  سمندر سے دانشور ابھی تک تعجب میں مبتلا ہیں۔لیکن اس کے باوجود وہ فقط دو حرف ہیں۔

٤۔ اس وقت لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ علم کیا ہے؟اور دانشور کون ہے؟کیونکہ اس زمانے میں علم و دانش کا سرچشمہ وحی ہوگی کہ جو حضرت بقیة اللہ الاعظم(عج) کی عنایات سے لوگوں کو تعلیم دی جائے گی۔

اس زمانے میں لوگوں کے درمیان حقیقی و واقعی علم رائج ہوگا نہ کہ وہ علوم کہ جن کی بنیاد فرض اور تھیوری پر قائم ہوتی ہے۔

٥۔اس زمانے میں جھوٹے علم کی کوئی خبر نہیں ہوگی اور دانشوروں کی فریب کاریوں سے معاشرے گمراہ نہیں ہوں گے۔اس زمانے میں علم و دانش لوگوں کی راہنمائی کا ذریعہ ہوگا اور پھر کوئی ''ارشمیدس'' کی طرح ایک ہزار چھ سو سال تک لوگوں کو گمراہ نہیں کرسکے گا۔

اس زمانے میں استعمار کی طرف ضعیف ممالک کے لئے بنائی گئی گمراہ کن اور وقت برباد کرنے والی کتابوں کا وجود نہیں ہوگا اور نہ ہی ڈالر کی طاقت سے لئے گئے نمبر اور سفارش کے زور سے حاصل کی گئی اسناد  اور جعلی ڈگریوں کی کوئی اہمیت ہو گی۔

اس زمانے کے سب لوگ دانشور ہوں گے ۔ تمام دانشورحقیقی علم اور ترقی یافتہ کلچر کے مالک ہوں گے۔جعلی ڈگریوں کے ذریعہ ان کاشمار دانشوروں میں نہیں ہوگا۔

٦۔ تمام علوم مکمل ہو کر لوگوں میں منتشر ہوجائیں گے ۔یعنی لوگوں کے درمیان علم کا ہر شعبہ اپنی اوج میں رائج ہوگا اور لوگ اس سے مستفید ہورہے ہوں گے۔

جس طرح ظہور کے درخشاں ،پُر نور اور بابرکت زمانے میں لوگ اقتصادی ، زراعتی اور امن و امان کے لحاظ سے ترقی یافتہ ہوں گے اسی طرح لوگ علم و دانش سے بھی مکمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔ ان میںکسی طرح کا علمی فقد ان نہیں ہوگا۔

 


[1] ۔ اگر ہم ظاہر روایت پر عمل کریں تو علمی ترقی کی حد یہاںتک ہوگی ۔ لیکن اگر روایت کی توجیہ کریں تو عصرِ غیبت کے اختتام تک علم کا مجموعہ ظہور  کے زمانے میں علمی ترقی کے ساتھ قابلِ مقائسہ نہیں ہے ۔

 

 

    ملاحظہ کریں : 7338
    آج کے وزٹر : 71534
    کل کے وزٹر : 94259
    تمام وزٹر کی تعداد : 132594404
    تمام وزٹر کی تعداد : 91904979