حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
51) جنگ نہروان میں ذوالثدیہ کے قتل کے بارے میں پیغمبر اکرمۖ پیشنگوئی

جنگ نہروان میں ذوالثدیہ

کے قتل کے بارے میں پیغمبر اکرمۖ پیشنگوئی

     ابراہیم بن دیزیل نے کتاب''صفین'' میں اعمش کے قول سے اور اس نے زید بن وہب سے نقل کیاہے:جب علی علیہ السلام نے خوراج کے پاؤں نیزوں کے ذریعہ اکھاڑ دیئے تو فرمایا: ذوالثدیہ کا جسم تلاش کرو اور انہوں نے اسے تلاش کرنے کی بہت کوشش کی ، وہ انہیں ایک نچلی اور ناہموار زمین پر دوسرے مردوں کے نیچے ملا۔اسے حضرت علی علیہ السلام کے پاس لایا گیا اور اس کے سینہ پر بلی کی مونچھوں کی طرح بال نکلے ہوئے تھے ۔ آنحضرت نے تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی خوشی سے آپ کے ساتھ مل کر تکبیر کہی۔

     اسی طرح انہوں نے مسلم ضبی سے اور نہوں  نے حبّة عرنی سے نقل کیاہے کہ انہوں  نے کہا:

     ذوالثدیہ ایک سیاہ اور بدبوناک شخص تھا ۔اس کے ہاتھ عورتوں کے پستان کی طرح تھے ۔جب اسے کھینچتے تھے تو بلندی کی وجہ سے اس کے دوسرے ہاتھ تک پہنچ جاتے تھے اور جب اسے چھوڑتے تھے تو اکٹھے ہو کر عورت کے پستان کی طرح بن جاتے تھے۔اس پر بلّی کی مونچھوں کی طرح بال نکلے ہوئے تھے۔جب اس کا جسم ملا تو اس کا ہاتھ کٹا ہوا تھااور اور اس کے ہاتھ کو نیزہ پر بلند کیا گیا۔علی علیہ السلام نے بلند آواز سے کہا:

     خدا نے سچ کہا ہے اور اس کے رسول ۖ نے صحیح ابلاغ کیا ہے۔

     عصر کے بعد تک آپ اور آپ کے ساتھی یہی کلمہ کہہ رہے تھے کہ جب تک سورج غروب ہو گیا یا غروب  ہونے کے نزدیک تھا۔

     ابن دیزیل نے بھی اسی طرح روایت کی ہے کہ جب ذوالثدیہ کے جسم کو تلاش کرنے میں علی علیہ السلام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو فرمایا:رسول خداۖ کی سواری لے آؤ۔

     سواری لائی گئی اور آپ اس پر سوار ہوئے لوگ آپ کے پیچھے چل پڑے۔آپ مقتولین کو دیکھ رہے تھے اور فرماتے تھے:منہ کے بل پڑے ہوئے مقتولین کو سیدھا کرو اور آپ ایک ایک کر کے مقتولین کا جائزہ لے رہے تھے یہاں تک کہ اس کا جسم ملا تو علی علیہ السلام سجدۂ شکر بجا لائے۔

     بہت سے گروہ نے روایت کی ہے کہ جب علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرمۖ کی سواری طلب کی تا کہ اس پر سوار ہوں تو فرمایا: یہ سواری لاؤ تا کہ یہ رہنما ہو اور آخر کا وہ سواری منہ کے بل پڑے ایک جنازے کے پاس کھڑی ہو گئی اور پھر ذوالثدیہ کے جسم کو مردوں کے نیچے سے باہر نکال لیا گیا۔

     عوام بن حوشب نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا یزید بن رویم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:علی علیہ السلام نے جنگ نہروان کے دن فرمایا:

     آج ہم ہزار چار ہزارخوارج کو قتل کریں گے کہ جن میں سے ایک ذوالثدیہ ہو گا۔

     جب خوارج یہ جنگ ہار گئے تو علی علیہ السلام نے اس کے جسم کو تلاش کرنے کا ارادہ کیا۔میں بھی آنحضرت کے پیچھے چل پڑا اور علی علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ ان کے لئے چار ہزار تیر تراشے جائیں۔پھر وہ رسول خداۖ کی سواری پر سوار ہوئے اور مجھ سے فرمایا:مقتولین میں سے ہر ایک پر ایک تیر رکھو۔

     میں اس دوران حضرت علی علیہ السلام کے آگے آگے چل رہا تھا اور وہ میرے پیچھے آ رہے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے چل رہے تھے۔میں ہر مقتول پر ایک تیر رکھتا تھا یہاں تک کہ میرے پاس ایک تیر ہی باقی بچا ۔میں نے آنحضرت کی طرف دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے آپ کا چہرہ افسردہ و اداس ہو۔

     آپ نے فرمایا:خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں بولتا اور مجھ سے جھوٹ نہیں کہا گیا۔

اچانک میں نے ایک نچلی جگہ سے پانی بہنے کی آواز سنی ۔

     فرمایا:یہاں تلاش کرو۔

     میں نے جستجو کی تو دیکھا کہ ایک مقتول پانی میں گرا پڑا ہے۔میں نے اس کا ایک پاؤں پکڑ کر کھینچا اور کہا کہ یہ کسی انسان کا پاؤں ہے۔حضرت علی علیہ السلام بھی جلدی سے اپنی سواری سے نیچے اترے اور دوسرے پاؤں کو ڈھونڈنا شروع کیا اور مل کر اسے باہر نکالا اور جب اسے زمین پر رکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ذوالثدیہ کا پاؤں ہے۔

     حضرت علی علیہ السلام نے بہت بلند آوز سے تکبیر کہی اور پھر سجدۂ شکر بجا لائے اورپھر سب لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔

     بہت سے محدثین نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرمۖ نے ایک دن اپنے اصحاب سے فرمایا:

     بیشک تم میں سے ایک قرآن کی تأویل کے لئے جنگ کرے گا کہ جس طرح میں تنزیل قرآن کے لئے جنگ کی۔

     ابوبکر نے کہا:اے رسول خداۖ ؛کیا وہ شخص میں ہوں۔

     فرمایا:نہیں۔

     عمر نے کہا: کیا میں وہ شخص ہوں؟

     آنحضرت نے فرمایا: نہیں، بلکہ وہ ہے کہ جو اپنے جوتے کو پیوند لگا رہا ہے۔

     پھر علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا۔([2]،[1])

     یہ روایت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے جنگوں کے حق پر ہونے اور آنحضرت سے جنگ کرنے والوں کی گمراہی کی تائید کرتی ہے۔ چاہے وہ ناکثین ہوں، قاسطین ہوں یا پھرمارقین ہوں۔

 


[1] ۔ اس حدیث اور اس میں ذکر ہونے والے منابع کے بارے میں مزید تفصیلات کے لئے کتاب "فضائل الخمسة من الصحاح الستّة'':ج۲ص۳۵۴-٣٤٩ تیسری چاپ بیروت ١٣٧٣ ہجری  قمری کی طرف رجوع فرمائیں۔

[2]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۱ص۳۸۹

 

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 2085
    آج کے وزٹر : 114304
    کل کے وزٹر : 226086
    تمام وزٹر کی تعداد : 147345078
    تمام وزٹر کی تعداد : 101030815