Imam sadIiq: IF I Percieve his time I will serve him in all of my life days
معاويه بخيل تھا

معاویہ  کی غاصبانہ حکومت کے بارے میں کچھ مطلب

*****************************************

10ربیع الاوّل؛ معاویہ کی غاصبانه حکومت کا آغاز( سنہ ۴۱ ہجری)

*****************************************

معاويه بخيل تھا

   ابن ابى الحديد لکھتے ہیں:یہ کہ مورّخين کہتے ہیں: معاويه مال بخشش دینے کے لحاظ سے ‏سخى لیکن خوراك میں بخيل تھا، یہ صحيح نہیں ہے بلكه معاويه مال کی بخشش میں بھی اور کھانا اور خوراک دینے کے لحاظ سے بھی بخیل تھا.

وہ صرف اپنی ریاست و حکومت اور اپنی سربراہی کے لئے ہی خرچ کرتا تھا۔ ہم اس بارے میں معاویہ کا صرف ایک ہی واقعہ بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں (جسے ابن ابی الحدید نے ہم خیال ابوجعفر اسکافی سے نقل کیا ہے) تا کہ یہ معلوم سکے کہ معاویہ بخشش دینے والا اور سخی نہیں تھا بلکہ بیت المال سے وہ صرف اسی لئے مال بخشتا اور عطا کرتا تھا تا کہ بنی امیہ اور ابوسفیان کے بیٹے حکومت پر قابض رہیں۔

اس کے علاوہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے خاندان کے خلاف اس کے دل میں پیدائشی بغض و کینہ باعث بنا کہ وہ اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے ہر کام انجام دے۔

ابوجعفر اسكافى کہتے ہیں: معاويه نے سمرة بن جندب کے لئے ایک لاکھ درہم بھیجے تا کہ وہ یہ روایت کرے کہ ان دو آیتوں کا شأن نزول علی بن ابیطالب علیہما السلام کے بارے میں ہے: پہلی آیت: « نسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی باتیں زندگانی دنیا میں بھلی لگتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر خدا کو گواہ بناتے ہیں حالانکہ وہ بدترین دشمن ہیں ،اور جب آپ کے پاس سے منہ پھیرتے ہیں تو زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کھیتیوں اور نسلوں کو برباد کرتے ہیں جب کہ خدا فساد کو پسند نہیں کرتا ہے».

نیز اس نے یہ کہا کہ یہ آیت: « اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں » امام علی علیہ السلام کے قاتل ابن ملجم کے بارے میں نازل ہوئی ہے.

سمره نے وہ درہم قبول نہ کیے تو معاویہ نے دو لاکھ درہم بھیج دیئے، جب قبول نہ کئے تو تین لاکھ درہم بھیج اور جب جب پھر بھی اس نے قبول نہ کئے تو چار لاکھ درہم بھیجے۔سمرة بن جندب نے معاویہ کے حکم کے مطابق عمل کیا اور اس نے امام‏ علی عليه السلام اور ابن ملجم کے بارے میں روایات گھڑیں.(6)

امیر المؤمنین امام علی ‏عليه السلام کے خطبہ کے دوسرے حصہ میں وارد ہوا ہے کہ:وہ (معاويه) تم سے کہتا ہے کہ مجھے دشنام دو ، برا بھلا کہو اور مجھ سے بیزاری کا اظہار کرو۔ تم لوگ اپنی جان کی حفاظت کے لئے مجھے دشنام دے سکتے ہو لیکن ہرگز مجھ سے بیزاری اختیار نہ کرنا.

سنہ ۴۱ ہجری میں معاویہ کو خلافت ملی اور وہ وہ ہمیشہ منبر سے امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام اور آپ کے بعض اصحاب جیسے مالک اشتر کو برا بھلا کہتا تھا۔ نیز اس نے تمام اسلامی ریاستوں میں یہ اعلان کروایا تھا کہ جمعہ و جماعت کے خطبوں میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو برا بھلا کہا جائے.

ابوعثمان جاحظ سے ابن ابى الحديد کی روایت ہے کہ معاويه نماز جمعہ کے خطبہ کے آخر میں کہتا تھا: پروردگارا! بیشک ابوتراب نے تیرے دین میں الحاد کہا اور لوگوں کی تیری راہ سے روکا؛ بار الٰہیا! اسے...!

معاویہ نے تمام اسلامی حکومتوں کو ان الفاظ میں اس چیز کا حکم دیا تھا اور عمربن عبدالعزيز کی حکموت پر منبروں سے یہی کلمات بیان کئے جاتے تھے.

جاحظ نے کہا ہے:بنی امیہ میں سے کچھ لوگوں نے معاویہ سے کہا:اے امیر! تم جو چاہتے تھے اس تک پہنچ گئے۔ اب یہ مناسب ہے کہ آپ اس شخص ( علی علیہ السلام) کو دشنام دینے سے دستبردار ہو جائیں(یعنی انہیں برا بھلا نہ کہیں)۔

معاویہ نے کہا: نہیں؛ خدا کی قسم! میں اس کام سے دستبردار نہیں ہوں گایہاں تک کہ انہیں دشنام دینے سے بچوں کی پرورش ہو اور جوان بوڑھے ہو جائیں تا کہ کوئی بھی ان کی کسی فضیلت کو نقل نہ کرے.

اس بناء پر معاویہ صرف اپنے باپ ابوسفیان کی وصیت پر ہی عمل نہیں کر رہا تھا بلکہ اس کے دل میں امام علی علیہ السلام کے خلاف دیرینہ بغض و کینہ تھا کیونکہ امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے معاویہ کے بھائی، ماموں، نانا کو جنگ بدر میں قتل کیا تھا۔ عمر بن عبد العزیز کی حکومت تک امام علی علیہ السلام کو برا بھلا کہنے کا سلسلہ جاری رہا اور جب عمر بن عبد العزیز کو حکومت ملی تو اس نے تمام اسلامی ممالک میں حکم دیا اور اسے ممنوع قرار دے دیا۔ عمر بن عبد العزیز کو سنہ ۹۹ ہجری میں خلافت ملی۔

خود عمر بن عبدالعزيز نے کہا: جب میں بچہ تھا تو میں عتبة بن مسعود کے بیٹوں میں سے ایک کے پاس قرآن پڑھتا تھا۔ ایک دن میرے استاد میرے قریب سے گذرے جب کہ میں اپنے ہم سن بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور کھیل کود میں ہی علی علیہ السلام کو برا بھلا کہہ رہے تھے.

میں نے یہ محسوس کیا کہ انہیں یہ بات پسند نہیں آئی، وہ مسجد میں چلے گئے اور میں بھی بچوں کو چھوڑ کر مسجد میں چلا گیا تا کہ استاد کے پاس اپنا سبق پڑھوں۔ جونہی انہوں نے مجھے دیکھا تو وہ نماز کے لے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اپنی نماز کا بہت طول دیا۔ مجھے یہ احساس ہو کہ وہ مجھ سے روگرداں ہو گئے ہیں۔ جب انہوں نے نماز تمام کی تو انہوں نے بدخلقی اور سخت  انداز میں میری طرف رخ کیا.

میں نے کہا: استاد آج آپ کو کیا ہو گیا ہے؟

کہا: میرے بیٹے! آج تم على ‏عليه السلام کو دشنام دے رہے تھے؟

میں نے کہا: جی ہاں!

انہوں نے کہا: تمہیں یہ کب پتہ چلا کہ خدا اہل بدر سے راضی ہونے کے بعد خدا پھر ان پر عضبناک ہوا ہو ؟

میں: استاد کیا على‏ عليه السلام نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی؟!

کہا: واى ہو تم پر! لیکن کیا پوری جنگ بدر انہیں کے وجود پر قائم و استوار نہیں تھی۔

میں نے کہا: پھر میں یہ عمل نہیں دہراؤں گا۔

انہوں نے کہا:خدا را! ہرگز یہ عمل انجام نہ دینا۔

میں نے کہا:میں اطاعت کروں گا اور اس  کے بعد کبھی بھی على‏ عليه السلام کو برا بھلا نہیں کہا.

دوسرا یہ کہ میرا باپ مدینہ کا حاکم تھا ، میں نے دیکھا کہ جمعہ کے دن جب وہ جمعہ کا خطبہ دیتا تو خطبہ کے تمام مطالب مکمل فصاحت سے بیان کرتا لیکن خطبہ کے آخر میں جونہی علی علیہ السلام پر دشنام اور سبّ و شتم کرنا چاہتا تو اسے فصیح زبان میں نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس کی زبان پر لکنت اور لغزش طاری ہو جاتی تھی کہ صرف خدا ہی اس کا میزان جانتا ہے۔

میں اپنے باپ کے منبر کے نیچے بیٹھا اس بات پر تعجب کرتا تھا اور پھر ایک دن میں نے اپنے باپ سے کہا: بابا جان! آپ سب لوگوں سے زیادہ فصیح اور خطیب ہیں۔ آخر ماجرا کیا ہے کہ نماز جمعہ میں پہلے آپ مکمل فصاحت سے خطبہ دیتے ہیں لیکن اس شخص پر سبّ و شتم کرتے وقت آپ کی زبان پر لکنت طاری ہو جاتی ہے؟

کہا: میرے بیٹے!تم جن لوگوں کو اپنے باپ کے منبر کے سامنے بیٹھے ہوئے دیکھتے ہو اگر وہ اس شخص ( علی علیہ السلام کے فضائل کو اسی طرح جانتے کہ جیسے تیرا باپ جانتا ہے تو ان میں سے کوئی ایک شخص بھی ہماری اطاعت و پیروی نہ کرتا۔ میرے باپ کی یہ بات میرے سینہ میں محفوظ ہو گئی۔

میرے باپ کی یہ بات اور نیز میرے استاد کی بات مجھ پر اثرانداز ہوئی اور میں نے خدا سے عہد کیا کہ مجھے خلافت میں کوئی حصہ ملا تو میں حتمی طور پر اس حکم کو بدل دوں گا اور جب خدا نے مجھے خلافت دے کر مجھ پر احسان کیا اور میں خلیفہ بن گیا تو میں نے خطبوں سے سبّ و شتم علی علیہ السلام کو نکال دیا اور اس کے بدلے میں اس آیت کی تلاوت کا حکم دیا: بیشک اللہ عدل ,احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری ,ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرلو۔ (7).­(8)


6) جلوه تاريخ در شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 240/2.

7) سوره نحل، آيه 90.

8) پيش‏گوئى ‏هاى اميرالمؤمنين‏ عليه السلام: 151.

 

 منبع: معاویه ج ... ص ...

 

Visit : 864
Today’s viewers : 0
Yesterday’s viewers : 277825
Total viewers : 150082366
Total viewers : 105352947