الإمام الصادق علیه السلام : لو أدرکته لخدمته أیّام حیاتی.
حضرت عبدالمطلب علیه السلام

حضرت عبدالمطلب علیه السلام

********************************************

10 ربيع الاوّل؛ پيغمبر اكرم صلی الله علیه وآله وسلم کی آٹھ سال کی عمر میں آپ کے جد جناب عبد المطلب کی وفات (۴۵ قبل‌ ہجرت)

********************************************

حضرت علی علیہ السلام کے جدّ عبد المطلب اور معاویہ کے جد حرب ابن امیہ نے دور جاہلیت میں فضل بن عدی کے پاس ایک دوسرے کی شکایت کی۔ قاضی نے عبد المطلب کے حق میں فیصلہ کیا اور معاویہ  کے جد سے کہا:

أبوك معاهر وأبوه عفّ

وذاد الفيل عن بلد الحرام

تیرا باپ فاسق ہے اور ان کے والد پاکدامن ہیں اور انہوں نے ہی ہاتھیوں کے لشکر کو مسجد الحرام سے بھگایا تھا۔

بیشک ہر بیٹا اور پوتا اپنے آباء و اجداد سے ارث میں کچھ خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ عیسائی مؤلف جارج جرداق كتاب «امام على ‏عليه السلام» کی چوتھی جلد میں لکھتے ہیں:امویوں میں امیہ کی خصوصیات سب سے زیادہ ابو سفیان کے بیٹے معاویہ میں پائی جاتی ہیں۔ اس کی پہلی واضح صفت یہ تھی کہ اس میں انسانیت اور اسلام کی بو بھی نہیں پائی جاتی تھی۔ اسلام سے اس کی بیگانگی کی دلیل اسی کی زبان سے دریافت کر سکتے ہیں۔

ابوالدرداء کہتے ہیں:میں نے اسے سونے اور چاندی کے برتنوں میں پانی پیتے ہوئے دیکھا تو اس سے کہا: میں نے رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

ان دو میں پانی پینے والے کی پپیٹ میں جہنم کی آگ بھڑکے گی۔

معاويه نے کہا:لیکن مجھے اس عمل میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی!

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مقابلہ میں عثمان نے بھی ایسی ہی ایک بات کہی تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب ابوزر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

ما أظلّت الخضراء ولا أقلّت الغبراء من ذي لهجة أصدق من أبى ذر.

آسمان نے کسی ایسے شخص پر سایہ نہیں کیا اور زمین نے کسی ایسے شخص کو اپنے دوش پر سوار نہیں کیا جو ابوذر سے زیادہ صادق اور سچا ہو۔

جب کہ عثمان نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے برخلاف جناب ابوذر کے بارے میں کہا: اس کذّاب کے بارے میں مشورہ کریں کہ کیا اسے تازیانے مارے جائیں، یا قید میں ڈال دیا جائے یا اسے بھانسی دے دی جائے۔

اگر کوئی بنی امیہ کی تاريخ کا مطالعه كرے تو اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان سب میں سر سے پاؤں تک آپس میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن معاملات، لوگوں کو دھوکا وفریب دینے کے طریقۂ کار کے لحاظ سے ان میں فرق ہے، البتہ عمر بن‏ عبدالعزيز کو اس سے استثناء كر دینا چاہئے۔

بطور مثال: معاويه نے رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے فرزند امام حسن ‏عليه السلام کو شهيد كیا، اور اس کے بیٹے ‏يزيد، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزند امام حسين‏ عليه السلام کو شہید کیا؛ يعنى اس باپ بیٹے نے دو ریحانۃ النبی اور جوانان جنت کے دو سرداروں کو قتل کیا البتہ ایک کو زہر دے کر مخفیانہ طور پر قتل کیا گیا اور دوسرے کو آشکار طور پر تلوار سے قتل کیا. ہر دور اور ہر زمانے میں خونخوار درندے ایسے ہی ہیں یعنی سب ظالم اور خونخوار ہیں، خباثت اور پلید سرشت کے لحاظ سے سب یکساں ہیں لیکن ظلم و ستم کرنے کے طریقہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

معاویہ کے پست، ناپسندیدہ اور مکروہ کردار سے انسانیت نے بھی بیزاری کا اظہار کیا اور اس نے بھی بارہا معاویہ کی ناانصافیوں اور اس کے ظلم و ستم کی گواہی دی ہے۔

مغيرة بن شعبه نے کہا ہے:میں معاویہ کے ساتھ تنہا بیٹھا ہوا تھا تو میں نے اس سے کہا اب تمہاری عمر گزر چکی ہے اور تم بوڑھے ہو چکے ہو پس کتنا اچھا ہو کہ اگر تم اپنی باقی زندگی کے دوران عدل و انصار اور نیکی و احسان سے کام لو تا کہ تم بھی یادگار بن جاؤ اور تمہیں بھی اس کا اجر ملے!

معاويه نے مغيره کے جواب میں کہا:یہ چیز مجھ سے بعيد ہے۔ میرے کس عمل کو نیکی سے یاد کیاجائے گا؟! ابوبكر خليفه بنا اور اس نے عادلانہ طور پر حكومت كی!لیکن جب وہ مر گیا تو اس کا نام بھی مٹ گیا. عمر نے بھی دس سال حکومت کی، اس نے بھی بہت کوشش کی اور وہ دل سوز تھا!! لیکن جب وہ قتل ہوا تو اس کا اجر بھی چلا گیا اور یہ ابی کبشہ( یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مؤمنین کے دلوں میں اپنی یاد اس طرح سے چھوڑی کہ دن میں پانچ مرتبہ اذان میں شهادتين یعنی «اشهد أن لا إله إلاّ اللَّه، وأنّ محمّداً رسول اللَّه»کا نعرہ فضاؤں میں گھونجتا ہے، پس پھر میرا کون سا عمل باقی رہے گا اور مجھے کیسے یاد کیا جائے گا۔

معاویہ سے انسانیت کی بیزاری کی دلیل اس کا اپنا قول ہے۔ اس نے امام حسن علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے شہد میں زہر ہلاہل ملایا اور کہا: شہد میں خدا کا ایک لشکر ہے!

نیز اس کا دوسرا قول یہ ہے کہ جب اس نے بُسر بن اَرْطاة کو حکم دیا کہ ایک مسلح لشکر تیار کرو اور مدینہ کے لوگوں کو بے سروسامان کر دو اور ان کا مال تاراج کر دو۔

اسی طرح اس نے سفیان بن عوف سے کہا کہ جب تم عراق پہنچو تو جو کوئی بھی تمہارے حکم کے سامنے سر نہ جھکائے اسے قتل کر دو اور جس گاؤں دیہات سے گزر ہو اسے نیست و نابود کر دو....

اس کے حلم و بردباری کے یہ عالم تھا کہ اس نے کبھی بھی کسی تنگدست اور فقیر کی دستگیری اور مدد نہیں کی اس سلسلہ میں ان سے اپنے جلادوں اور شیطانی لشکر کو جو تاکید کی تھی اس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے تخت و تاج کے سلسلہ میں دھمکی دینے والوں کے بہت زیادہ حلیم تھا جیا کہ جاریہ بن قدامہ کا واقعہ:

ایک دن جاریہ معاویہ کے پاس گیا تو معاویہ نے اس سے کہا: ت، علی علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے تھے اور تم نے اپنے پیروکاروں کے ساتم مل کر عرب کے قبائل کا خون بہایا؟

جاريه نے کہا:على ‏عليه السلام کی برائی نہ کرو۔ ہم جب سے علی علیہ السلام کے دوست بنے ہیں ھب سے ہم نے کبھی بھی ان کے لئے بغض و کینہ نہیں رکھا اور ان کا ساتھ دینے میں کبھی خیانت نہیں کی.

معاويه نے کہا:وای ہو تم پر! تمہارے خاندان پر یہ گراں ہے کہ انہوں نے تمہارا نام جاریہ رکھا۔

جاريه نے کہا: لیکن تمہارے خاندان کے لئے یہ آسان تھا کہ جب انہوں نے تمہارا نام «معاويه» رکھا(معاويه يعنى  گرم کتیا).

معاويه نے گالی دی: اے بے مادر!

جاريه نے کہا: میری ماں نے مجھے جنم دیا ہے۔ معاویہ جس تلوار سے ہم نے صفین میں تمہارے اور تمہارے لشکر کا مقابلہ کیا تھا، وہ اب بھی ہمارے ہاتھوں میں ہے۔

معاويه نے کہا:کيا تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟

جاريه نے کہا: تم ہم پر طاقت کے زور پر حاکم بنے ہو نہ کہ ہماری رضائیت سے لیکن تمہارے ساتھ ہمارے عہد وپیمان ہیں؛ اگر تم ان پر وفا کرو گے تو ہم بھی اپنے عہد کو وفا کریں گے اور اگر ان کی خلاف ورزی کرو گے تو تمہیں ہمارے مردوں کے طاقتور بازؤں اور تیز زبان کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر تم نے ہمارے خلاف چھوٹی سی خیانت بھی کی تو بھی ایسا ہی ہو گا۔

معاويه نے کہا: خداوند ہزگز تمہارے جیسے افراد کی تعداد میں اضافہ نہ کرے.

ہاں!اگرچہ جاریہ جیسے افراد کے سامنے معاویہ صابر تھا لیکن عبید اللہ بن عباس کے بچے، حجر بن عدی کے ساتھی اور ان دیہاتوں میں رہنے والے افرد کے ساتھ معاویہ کبھی صبر و کرم سےپیش نہیں آتا تھا!

 

 

معاویہ کے حلم کا دوسرا نمونہ! یہ  ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جوانان جنت کے سردار حضرت امام حسن بن علی علیہما السلام کی شہادت کی خبر سن کر وہ سجدۂ شکر بجا لایا!!

عبد اللہ بن عباس تک اس واقعہ کی خبر پہنچی؛ جب کہ وہ ان دنوں شام میں زندگی گزار رہے تھے، وہ معاویہ کے پاس آئے اور اس سے کہا: مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تم نے (امام) حسن (علیہ السلام) کی شہادت پر خوشی منائی ہے۔ جان لو کہ نہ تو ان کا پاک جسم تمہاری قبر میں آئے گا اور نہ ہی ان کی جلد موت سے تمہاری زندگی میں اضافہ ہو گا ۔ وہ وفات پا گئے لیکن وہ تم سے بہتر تھے اور ہم ان کی موت کی مصببت میں سوگوار ہیں اور ہم اس سے بھی بڑی مصیبت یعنی ان کے جد رسول خدا کی موت پر بھی سوگوار ہوئے ہیں۔ البتہ خدا اس غم اور مصیبت کی تلافی کرے گا اور ان کے بعد سب سے صالح جانشین معین کرے گا۔

ابن عباس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے رونا شروع کر دیا اور اس کے پیچھے محفل میں موجود لوگوں نے بھی بلند آوا سے گریہ کیا۔

معاويه نے کہا: میں نے سنا ہے کہ ان کے پسماندگان میں ایک کم سن بچہ ہے۔

ابن عبّاس نے کہا: ہم سب بچے تھے اور پھر بڑے ہو گئے۔

معاويه نے پوچھا: حسن بن على کتنے سال کے تھے؟

ابن عبّاس نے جواب میں کہا: امام حسن‏ عليه السلام کی شان اس سے کہیں بلند ہے کہ کوئی ان کی ولادت کے دن کو نہ جانتا ہو. (ان کی مراد یہ تھی كه امام کی ولادت اس سال ہوئی جب معاویہ اور اس کا بھائی باپ جنگ احد اور مدینہ میں کفر و شرک کے گروہوں کے بغاوت کے ساتھ شریک تھے، یعنی سب امام کی ولادت سے بخوبی آگاہ تھے.)

معاويه نے کہا: اے ابن عبّاس! آج کے بعد تم اپنی قوم پر حکمرانی کرو.

ابن عبّاس نے ان سے کہا: امام حسين‏ عليه السلام کے ہوتے ہوئے ہرگز ایسا نہیں کر سکتا.

معاويه نے کہا: میں نے تم سے کوئی ایسی چیز نہیں پوچھی مگر یہ کہ تمہیں حاضر جواب پایا.

معاويه نے امام حسن‏ عليه السلام کے قتل کے بعد خدا کے سامنے سجدۂ شکر ادا کیا. کیونکہ وہ مکاری سے اپنی ناپاک عزائم میں کامیاب ہو چکا تھا اور اس کے بیٹے یزید نے  امام حسين‏ عليه السلام کو شہد کیا اور آپ کے سر اقدس کو تشت میں رکھ کر ایک ایسی چھڑی سے آپ کے مبارک ہونٹوں پر مارتا تھا کہ جس پر «لا إله إلاّ اللَّه و محمّد رسول اللَّه» نقش ہوا تھا! اور اسی دوران اس نے اذان کی آواز سنی تو وہ کھڑا ہوا اور اس نے نماز جماعت پڑھائی! انہوں نے کل ایسے کیا اور وہ ہز زمانے میں ایسا ہی کریں گے.(178)


178) امامت على ‏عليه السلام در آينه عقل و قرآن: 154.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

زيارة : 921
اليوم : 0
الامس : 281574
مجموع الکل للزائرین : 150089865
مجموع الکل للزائرین : 105375450