امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
امام زمانہ ‏عجّل الله تعالی فرجه الشریف کی نظر میں اولاد مسلم علیہ السلام کی عظمت

امام زمانہ ‏عجّل الله تعالی فرجه الشریف

کی نظر میں اولاد مسلم علیہ السلام کی عظمت


***********************************************

۲۳ذی الحجه؛ اولاد حضرت مسلم بن عقيل عليهم السلام کی شہادت

***********************************************

 

صالح و ثقہ عبد حاج صادق تبريزى، نجل زكىّ مرحوم حاج محمّد على بن حاج اللَّه ‏وردى تبريزى نجفى المسكن والمدفن رحمهم اللَّه جميعاً نے کہا: میں سنه تیرہ سو چھ ہجری میں پہلی مرتبہ کربلا معلیٰ  کی زیارت سے مشرف ہوا اور جب میں مسیب میں داخل ہوا تو میں نے غسل کیا اور جناب مسلم کے دو شہزادوں نوّر اللَّه مرقدهما کی زیارت سے شرفیاب ہونے کا ارادہ کیا۔کیونکہ راہ پرخطر تھی لہذا میں نے کچھ مال اجارہ پر لیا

جناب آقا ميرزا احمد میرے ساتھ تھے جو پہلے وزير تھے اور پھر انہوں نے وزارت کے امور قبول کرنے سے معذرت کر لی۔ ان کے دو بھائی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ہم ان دو بزرگ شہزادوں کے روضۂ مطہر کے قریب گئے چونکہ ہمیں زیادہ سفر کی عادت نہیں تھی اس لئے میرے پاؤں سوج چکے تھے۔ میں نے پیدل چلنا شروع کیا اور اپنے ساتھیوں سے بیس قدم آگئے چلا گیا کہ اور حرم مطہر کے قریب نہر کے پاس پہنچ گیا۔اس نہر سے ایک سید باہر آئے  گویا وہ ان دو شہزادوں کی زیارت کر کے آئے ہوں اور انہوں نے قیمتی اور نفیس لباس زیب تن کیا تھا۔

میں نے سوچا کہ شاید وہ عراق سے ہیں اور ان کے پیچھے زوّار  ہیں جس کی وجہ سے وہ اس پرخطر راہ میں بھی اتنے اطمینان سے جا رہے ہیں ورنہ کوئی اس لباس کے ساتھ وہاں سے گزرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا،ہم نے اپنے کپڑے اتارے ہوئے تھے اور صرف ایک قبا پہنے جا رہے تھے۔

نیز نے یہ سوچا کہ وہ سادات میں سے ہیں اور سہم سادات یا سہم امام علیہ السلام لینے کے زائرین کے ساتھ جا رہے ہیں  اور انہوں نے یہ قیمتی لباس زیب تن کیا ہے تا کہ ان کی تعظیم کریں اور ان کی شان کے مطابق ان سے پیش آئیں۔ حتی انہوں نے ایسی قیمتی سبر شال سر پر رکھی ہوئی کہ جیسے ابھی انہوں نے کسی تاجر کی دکان سے خریدی ہو ۔ اور میں نے صڑف اس وجہ سے انہیں سلام نہ کیا کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں ان سے ڈر گیا ہوں۔

جب وہ نہر سے چار قدم دور ہوئے تو انہوں نے مسیب کی طرف رخ کیا اور ہماری طرف متوجہ ہوئے اور عادت کے برخلاف بلند آواز سے کہا: اے اہل تبریز! اے ناظم التّجار! تم یہ نہ سوچنا کہ دونوں  شہزادے بچے ہیں۔ بیشک خدا کے نزدیک ان کا بہت بلند مقام و مرتبہ ہے. پس ان کی برکت سے اور ان کے طفیل و وسیلہ سے خداوند کریم سے جو مانگنا چاہو مانگو!

میں نے ان کے کلام پر زیادہ غور نہ کیا کیونکہ میں پہلے ہی سے ان دونوں شہزادوں کی عظمت اور ان کے مقام کی معرفت رکھتا تھا  لہذا ان کی بات میرے لئے تحصیل حاصل تھی۔ میں نہر میں داخل ہوا نہری کی گہرائی کی وجہ سے دوسری طرف کوئی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جب میں نہر سے باہر نکلا تو میں نے وہاں کسی کو نہ پایا،میں حیران ہوا کہ اتنے خوفناک راستے میں کوئی بلا خوف و خطر تنہا کیسے جا سکتا ہے۔ میں یہ دیکھنے کے لئے واپس پلٹا کہ آخر وہ سید کون ہیں؟ میں نے وہاں کسی کو نہ دیکھا اور میں نے اپنے ساتھیوں(جو مجھ سے بیس قدم کی دوری پر تھے) سے پوچھا :ابھی جس سید کی مجھ سے ملاقات ہوئی ،وہ کہاں گئے ہیں؟

انہوں: آپ کس سید کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟ ہم نے کوئی سید نہیں دیکھا۔

پس میں قبّهٔ مباركه میں داخل ہوا اور میں نے خود میں ایک انقلابی حالت دیکھی کہ اس سے پہلے مجھ پر کبھی ایسی حالت طاری نہیں ہوئی تھی۔ وہ سید درمیانے قدر کے تھے اور ان کی آنکھیں سیاہ تھیں جیسے انہوں نے سرمہ لگایا ہو حالانکہ انہوں نے سرمہ نہیں لگایا تھا.(813)


 


813) العبقرى الحسان: 532/2.


 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات:ص 1526


 

بازدید : 555
بازديد امروز : 66438
بازديد ديروز : 301136
بازديد کل : 147851392
بازديد کل : 101284085