حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
کتمان راز

کتمان راز

خدا کے حقیقی بندے ،خود ساختہ اور مہذب افراد اپنے اخلاص اور اصلاح نفس کی وجہ سے اپنے رفتار و کردار اور دوسری شائستگی میں خلقت کائنات کے اسرار سے آشنائی حاصل کرکے نظام خلقت کے کچھ انجانے رموز سے آگاہ ہوتے ہیں۔

اہلبیت علیھم السلام کے زمانۂ حضور میں ایسے اسرار ان ہستیوں کے ذریعے رحمانی الہامت کے توسط سے سکھائے گئے ۔یہ بزرگ ہستیاںاپنے اصحاب اور قریبی افراد کوایسے مسائل کی تعلیم دیتے اور انہیں اس کی حفاظت کا حکم دیتے۔

پیغمبر اکرمۖ نے ایک مفصل روایت کے ضمن میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا:

 ''یٰا جٰابِرُ اُکْتُمْ مٰا تَسْمَعُ فَاِنَّہُ مِنْ سَرٰائِرِ اللّٰہِ''([1])

  اے جابر!تم جو کچھ سنتے ہو اسے چھپاؤ کیونکہ وہ اسرار خدا میں سے ہیں۔

 اس بنیاد پر جابر اور دوسری بزرگ شخصیات کہ جنہیں اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے اسرار و معارف تعلیم فرمائے ،وہ اسرار کو مخفی رکھنے کی کوشش کرتے۔ایسے مسائل کی حفاظت ان کیلئے بہت مشکل تھی جس کے لئے انہوں نے بڑی زحمتیں برداشت کیں۔اسی وجہ سے اس موضوع کے بارے میں حضرت امام جعفر

صادق علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے:

''کِتْمٰانُ سِرِّنٰا جِھٰاد فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ''([2])

ایک دوسری روایت میں آپ فرماتے ہیں:

 ''مَنْ کَتَمَ الصَّعْبَ مِنْ حَدِیْثِنٰا جَعَلَہُ اللّٰہُ نُوْراً بَیْنَ عَیْنِہِ وَ رَزَقَہُ اللّٰہُ الْعِزَّةَ فِی  النّٰاسِ''([3])

 جو کوئی ہماری سخت گفتار کو مخفی رکھے خدا وند اسے دو آنکھوں کے درمیاں نور کی طرح قرار دے گا اور لوگوں میں اسے عزت و احترام عطا کرے گا۔

 راز کو چھپانے کے لئے ہر موضوع کو غور و فکر کے بعد بیان کیا جائے اورغور و فکرکے بغیر افکار کو زبان پر نہ لایا جائے ۔اگر انسان سوچے اور سوچنے کے بعد بولے تو اسے اپنی باتوں پر  پشیمانی نہیں ہو گی۔کیونکہ تفکر اور تأمل سے کچھ راز مخفی رہ جائیں تو وہ مخفی ہی رہ جاتے ہیں۔کیونکہ سوچنے سے انسان کے لئے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سب باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔

 حضرت امیر المؤمنین  علیہ السلام فرماتے ہیں:

           ''لاٰ تَقُلْ مٰا لاٰ تَعْلَمْ  بَلْ لاٰ تَقُلْ کُلَّ مٰا تَعْلَمُ''([4])

           جو بات نہیں جانتے وہ نہ کہو بلکہ  ہر جاننے والی بات بھی نہ کہو۔

           کیونکہ کسی بھی چیز کو جاننا اسے بیان کرنے کی دلیل نہیں ہے۔کیونکہ بہت ایسی چیزیں ہیں جنہیں جانتے تو ہیں لیکن وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔اس بناء پر ایسی باتوں کو بیان کرنے میں اپنی اور دوسروں کی عمر ضائع کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔انسان کی کچھ معلومات مفید ہوتی ہیں لیکن لوگوں کا ظرف انہیں ہضم نہیں کر سکتا ۔ایسے مطالب بیان کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے کیونکہ ایسے مطالب کے بیان سے دوسروں کے اظہار یا انکارکے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

           اسی لئے کائنات کے سب سے پہلے مظلوم  امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

           ''لاٰ تَقُلْ کُلَّ مٰا تَعْلَمُ''

           تم جو کچھ جانتے ہو وہ سب بیان نہ کرو۔

           آپ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

           ''مَنْ کَتَمَ سِرِّہِ کٰانَتِ الْخِیَرَةُ بِیَدِہِ''([5])

           جو کوئی اپنے راز چھپائے ،اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔

           کیونکہ جب بھی وہ اصلاح دیکھے تو اسے دوسروں کے سامنے بیان کر سکتاہے ؛لیکن اگر اس نے اپنا راز فاش کر دیا تو اسے اس کا نقصان ہو گا اس کے بعد وہ اپنے فاش راز کو نہیں چھپا سکتا۔

           بلکہ کبھی کبھار اپنے راز کو فاش کرنے کے علاوہ اپنے روحانی حالات بھی کھو دیتا ہے کیونکہ بعض افراد کو زحمتیں برداشت کرکے کچھ معنوی نتائج حاصل ہوتے ہیں لیکن اِدھر اُدھر کی باتیں کہنے سے وہ اپنی معنوی حالت کھو بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے غرور تکبر اور تمام منفی روحانی بیماریوںمیں مبتلا ہو جاتاہے اور اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایسے امور سے بچنے کا  بہترین ذریعہ اپنی زبان کی حفاظت کرناہے۔

تا  نشانسی گھر  بارِ  خویش                طرح مکن گوھر اسرار خویش

لب مگشا گر چہ در و نوش ھاست        کز پس دیوار بسی گوش ھاست



[1]۔ بحار الانوار :ج۳۵ص۱۰۳

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۵ص۷۰

[3]۔ بحار الانوار :ج۲۵ص۳۸۱،اختصاص:٣٢١

[4]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۲۲

[5]۔ نہج  البلاغہ کلمات قصار:١٦٢

 

 

    ملاحظہ کریں : 2038
    آج کے وزٹر : 88043
    کل کے وزٹر : 293667
    تمام وزٹر کی تعداد : 146287405
    تمام وزٹر کی تعداد : 100501657