حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
بزرگوں کی رازداری

بزرگوں کی رازداری

اہلبیت اطہار علیھم ا لسلام کی نورانی زندگی اور نشست و برخواست کی روش پر مختصر نگاہ کرنے سے یہ معلوم ہو جاتاہے کہ وہ اپنی مجلس میں شرفیاب ہونے والے لوگوں  اور ان کی دلنشین گفتارر اور روح پرور اقوال سے استفاہ کرنے والوں پر خاص عنایت فرماتے اور وہ فرد یا افراد کو اپنا صاحب اسرار سمجھتے اور ان کے لئے خلقت کائنات کے اسرار و رموزسے پردہ اٹھاتے ۔خلقت کے اسرار و رموز(جن سے دوسرے ناواقف تھے)سے پردہ اٹھانے سے ان کے دل منور ہو جاتے ۔لیکن وہ اپنے اسرار نااہل لوگوں سے چھپاتے اور انہیں ان لوگوں کے سامنے بیان نہ کرتے جن میں انہیں ہضم کرنے کی صلاحیت و لیاقت نہ ہوتی ۔ہمارے بزرگ بھی اپنے اسرار کی حفاظت کی کوشش کرتے ۔اب ہم  نمونے کے طور پر ایک  واقعہ بیان کرتے ہیں:

مرحوم شیخ بہائی نے سنا کہ ایک حلیم پکانے والا شخص بعض گیاہی چیزوںمیں تصرف کی قدرت رکھتا ہے اور غیر معمولی روحانی تونائیوں کا مالک ہے ۔  آپ اس سے ملاقات کے خواہاں تھے ؛لہذا آپ اس کے پاس گئے اور اس سے اصرار کیا کہ وہ عالم ِ وجود کے اسرار میں سے انہیں کوئی چیز سکھائے!

حلیم پکانے والے شخص نے منع کیا اور کہا:یہ اسرار آپ سے بالا ہیں!

مرحوم شیخ بہائی نے اس کی بات ردّکرتے ہوئے کہا:میں ان اسرار کو سیکھنے کے لئے تار ہوں ۔ حلیم پکانے والے نے جب یہ دیکھا  کہ شیخ بہائی اس کی بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور خود کو  اسرار قبول کرنے کے لئے تیار سمجھتے ہیں۔لہذا اس نے شیخ بہائی کو یہ دکھانے کے لئے کہ ان میں بعض اسرار کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ،اس لئے انہوں نے عملی طور پر ایک کام کو انجام دینا شروع کیا۔ایک دن وہ حلیم پکانے میں مشغول تھا اور شیخ بہائی بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تا کہ شاید  اس سے کوئی اسرار سیکھ لیں ۔اچانک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی ۔وہ  حلیم پکانے والا شخص اور شیخ بہائی دونوں باہر گئے ،دیکھا تو دروازے کے پیچھے کھڑا ایک شخص کہہ رہا ہے:اس شہر کا سلطان فوت ہو گیا ہے اور اب تمہں اس سلطنت کے شاہ کے طور پر منتخب کرنا چاہتے ہیں ۔حلیم پکانے والا شخص اور شیخ بہائی دونوں  دربار کی طرف چلے گئے۔

اس نے شیخ بہائی سے کہا:تمہیں چاہئے کہ تم بادشاہ بن جاؤ اور میں تمہارا وزیر۔وہ انکارکرتے رہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور بالآخر شیخ بہائی شہر کے بادشاہ بن گئے اور وہ حلیم پکانے والا ان کا وزیر۔کچھ مدت گزرگئی تو شیخ نے کوئی کام انجام دینا چاہا جو ان کے  لائق نہیں تھا!اچانک حلیم پکانے والے نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا:میںنے نہیں کہا تھا کہ تم میں قابلیت نہیں ہے؟!جب شیخ نے دیکھا تو وہ حلیم کی دیگ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ وہی وقت تھا جب وہ وہاں سے گئے اور دیگ ابل رہی تھی۔([1])

فرض کریں کہ اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہے تو یہ عالم کشف میں ایک طرح کی قدرت نمائی تھی جو ہماری اس دنیامیں خارجی واقعیت نہیں رکھتا۔لیکن مرحوم شیخ بہائی کو یہ منوانے کے لئے کہ وہ کچھ اسرار کو کشف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، یہ ایک مؤثرنمائش تھی۔

مرحوم شیخ بہائی امور غریبہ میں اس فن کے استاد تھے لیکن ہر ہاتھ سے اوپر بھی ایک ہاتھ ہے''وَفَوْقَ کُلِّ ذِْ عِلْمٍ عَلِیْم''([2])

ایک دن مرحوم شیخ بہائی اورمرحوم فیض کاشانی  اور بہت سے دوسرے علماء کے استاد اور علماء شیعہ میں سے ایک بزرگ شخصیت ''سید ماجد بحرانی''ایک نشت میں  حاضر ہوئے۔شیخ بہائی کے ہاتھ میں خاک شفاء کی تسبیح تھی جس پر وہ کوئی ورد پڑھ رہے تھے  کہاس تسبیح سے پانی جاری ہو گیا!

 انہوں نے سید سے پوچھا:کیا اس پانی سے وضو کرنا جائز ہے یا نہیں؟

سید نے جواب دیا: جائز نہیں ہے۔کیونکہ یہ پانی خیالی ہے نہ کہ آسمان سے نازل ہونے والا  یا زمین سے نکلنے والا حقیقی پانی ۔مرحوم شیخ کو ان کا یہ جواب بہت پسند آیا۔([3])

 


[1] ۔ تذکرة العلماء تنکابنی:١٧٣

[2]۔ سورۂ یوسف،آیت:٧٦

[3]۔ فوائد الرضویہ محدث قمی:٣٧٠

 

 

    ملاحظہ کریں : 2095
    آج کے وزٹر : 75006
    کل کے وزٹر : 165136
    تمام وزٹر کی تعداد : 141110047
    تمام وزٹر کی تعداد : 97423943