حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
اہلبیت علیھم السلام کی اپنے دوستوںسے محبت

 اہلبیت علیھم السلام کی اپنے دوستوںسے محبت

ہم اپنے دلوں میں محبت اہلبیت علیھم السلام رکھتے ہیں اور یہی محبت ان ہستیوں کے قلوب میں بھی ہوتی ہے کیونکہ جو لوگ خاندان نبوت علیھم السلام کے محب ہیں وہ ان بزرگوار ہستیوں کے محبوب بھی ہیں۔

حبیش بن معتمر کہتے ہیں: میں امیر المؤمنین حضرت علیعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا:

''اَلسَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰاتُةُ،کَیْفَ أَمْسَیْتَ؟

قٰالَ:أَمْسَیْتُ مُحِبّاً لِمُحِبِّیْنٰا وَ مُبْغِضاً لِمُبْغِضِیْنٰا....''([1])

اے امیر المؤمنین علیہ  السلام آپ پر سلام ہو اورآپ پر خدا کی رحمت و برکات ہوں،آپ نے کیسے صبح کی؟

آپ نے فرمایا:میں نے اس حال میں رات گزاری کہ میں اپنے محبوں کا محب  اور اپنے دشمنوں کا دشمن تھا۔

جب اہلبیت علیھم السلام کے دل میں کسی انسان کے لئے محبت پیدا ہو جائے تو وہ خدا کا بھی محبوب   بن جاتا ہے اور اس کے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوجاتی ہے  اور جب خدا سے اس کی محبت اس قدر شدید ہو جائے کہ اس کے دل میں مخلوق کے لئے کوئی جگہ نہ رہ جائے تو اس کی باطنی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ اولیاء خدا سے آشنا ہو جاتا ہے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:شب معراج میںخدا نے پیغمبر اکرم ۖ سے فرمایا:

''مَنْ عَمِلَ بِرِضٰاَ اُلْزِمُہُ ثَلاٰثَ خِصٰالٍ :اُعَرِّفَہُ شُکْراً لاٰ یُخٰالِطُہُ الْجَہْلَ،وَ ذِکْراً لاٰ یُخٰالِطُہُ النِّسْیٰانُ،وَمَحَبَّةً لاٰ یُؤْثِرُ عَلٰی مَحَبَّتِْ مَحَبَّةَ الْمَخْلُوْقِیْنَ،فَاِذٰا أَحَبَّنِْ أَحْبَبْتُہُ ،وَ أَفْتَحُ عَیْنَ قَلْبِہِ اِلٰی جَلاٰلِیْ وَلاٰ اُخْف عَلَیْہِ خٰاصَّةَ خَلْقِْ....''([2])

جو کوئی میری رضا کے لئے عمل کرے تو میں اس میں  تین خصلتیں  پیدا کر دیتاہوں:

١۔اسے شکر کی حالت رکھنے سے آشنا کرتا ہوں تا کہ جہالت جس کے ساتھ نہ ہو۔

٢۔اور ایسا ذکر کہ جس کے ساتھ نسیان نہ  ہو۔

٣۔اپنی ایسی محبت کہ جس پر مخلوقین کی محبت اثر اندازنہ ہو۔

پس جب بھی مجھ سے محبت کرے میں بھی اس سے محبت کروں گا اور اس کے دل کی آنکھیں اپنے جلال کی طرف کھول دوں گا اور اپنی مخلوق کے خواص اس پوشیدہ نہیں رکھوں گا۔

اس بناء پر خدا کی محبت کی شانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اولیائے خداا ور خلق خدا سے آشنا ہو جاتا ہے اور نہیں دیکھ سکتا ہے۔

بعض لوگ خواب یا بیداری میں حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی زیارت کا شوق رکھتے ہیں  یہ ان کی شدید محبت کی وجہ سے ہے کیونکہ محبت انسان میں محبوب سے ملاقات کے اشتیاق کوبڑھا دیتی ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام مرنا نہیں چاہتے تھے خدا نے حضرت عزرائیل سے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہو:

''ھَلْ رَأَیْتَ حَبِیْباً یُکْرِہُ  لِقٰاءَ حَبِیْبِہِ؟اِنَّ الْحَبِیْبَ یُحِبُّ لِقٰاءَ حَبِیْبِہِ''([3])

کیا تم  نے کسی محب کو دیکھا ہے جسے اپنے محوب کوو دیکھنے سے کراہت ہو؟بیشک محب اپنے محبوب سے ملاقات کو پسند کرتاہے۔

ان میں سے بعض ایسے تھے جو اہلبیت عصمت علیھم السلام کے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے لیکن ان کے شہر سے دور تھے لیکن ان کے دل اہلبیت علیھم السلام کی یاد اور ان کے دیدار کے عشق سے لبریز تھے جیسا کہ حضرت اویس قرنی  کے دل و جان میں  پیغمبر اکرم ۖ کے دیدار کا شوق تھا اور وہ اپنے خیال میں آنحضرت ۖ کے تابناک انوار کو تصور کرتے تھے۔

اب جب کہ خاندان عصمت و طہارت کی آخری کڑی حضرت یقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف باقی ہیں اور پردۂ غیبت میں زندگی بسر کر رہے ہیں  آپ کے محب اور جانثار وں کی آرزو صرف آپ  کا دیدار ہے ۔یہ آرزو  اور امید آنحضرت  سے اس محبت کی بناء پر ہی ہے جو ان کے دلوں میں آنحضرت کے لئے موجزن ہے کیونکہ خداوند کریم کے فرمان کے مطابق''اِنَّ الْحَبِیْبَ یُحِبُّ لِقٰائَ حَبِیْبِہِ''ہر محب اپنے محبوب کا دیدار کرنا چاہتاہے۔

گرچہ یوسف بہ کلافی نفرشند بہ ما

پس ھمین فخر کہ ما ھم ز خریدارانیم

 


[1]۔ بحار الانوار:ج٢٧ص٥، مجالس شیخ مفید:١٩٧

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۲۸

[3]۔ بحار الانوار:ج٦ص۱۲۷،امالی شیخ صدوق:١١٨

 

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 2092
    آج کے وزٹر : 64492
    کل کے وزٹر : 165136
    تمام وزٹر کی تعداد : 141089025
    تمام وزٹر کی تعداد : 97413429