امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
۱۸ ـ امام حسین علیہ السلام کا «عقر» سے خدا کی پناہ میں آنا

۱۸ ـ  امام حسین علیہ السلام کا «عقر» سے خدا کی پناہ میں آنا

حر بن یزید نے امام حسین علیہ السلام کو ایسی جگہ رکھنے پر مجبور کیا کہ جہاں نہ تو پانی تھا اور نہ ہی کوئی دیہات[1] ۔ حر سے کہا گیا : ہمیں اس قریہ میں رکنے دو جسے غاضریّہ [2] کہتے ہیں ، یا اس اس دوسرے قریہ میں رکنے دو کہ جسے شفیّه [3]کہتے ہیں ۔ حرّ نے کہا : نہیں ! خدا کی قسم ! میں ایسا کام نہیں کر سکتا  کیونکہ اس شخص کو مجھ پر جاسوس کے طور پر رکھا گیا ہے ۔

زهیر بن قین نے امام حسین علیہ السلام سے عرض کیا : اے فرزند رسول خدا ! ان کے ساتھ اس وقت جنگ کرنا زیادہ آسان ہے ، اس سے پہلے کہ ان کے ساتھ اور سپاہی مل جائیں ۔  مجھے میری جان کی قسم ! ان کے بعد ایک لشکر آئے گا اور ہم میں ان کے ساتھ جنگ کرنے کی طاقت نہیں ہو گی ۔

امام حسین علیہ السلام نے زہیر سے فرمایا :  میں وہ نہیں ہوں ؛ جو جنگ میں پہل کرے ۔

زهیر بن قین نے عرض کیا :ہمیں اس قریہ کی طف لے جائیں تا کہ ہم وہاں پڑاؤ ڈالیں  کیونکہ وہ  فرات کے کنارے محکم اور مضبوط جگہ ہے ۔ پس اگر انہوں نے ہمیں روکا تو ہم ان کے ساتھ جنگ کریں گے ؛ کیونکہ اس سے پہلے کہ ان کے ساتھ کوئی لشکر ملحق ہو جائے ، اس وقت ہمارے لئے ان کے ساتھ جنگ کرنا آسان ہے ۔

امام حسین نے ان سے فرمایا : یہ کون سا قریہ ہے ؟

عرض کیا : یہ ’’عقر‘‘[4] ہے ۔

امام حسین علیہ السلام نے  فرمایا :

» أَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَقْرِ«۔

خدایا ! بیشک میں عَقْر  سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔  

پھر آپ  نے اس جگہ پڑاؤ دالا ، اور وہ دو محرم سن اکسٹھ ہجری ، پنج شنبه (جمعرات ) کا دن تھا ۔ [5]

 


[1] ۔ اس جملہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کربلا صرف ایک قریہ کا نام نہیں تھا بلکہ ایک مجتمع اور علاقہ کا نام تھا کہ جو وہی بابل کے قریہ جات تھے ۔ جیسا کہ سید هبة الدین شهرستانی قدّس سرّه کی کتاب ’’دلائل و مسائل‘‘ میں بھی وارد ہوا ہے ۔ سبط ابن جوزی نے کہا ہے : پھر امام حسین علیه السلام نے فرمایا : اس سر زمین کا کیا نام ہے ؟ کہا گیا : کربلا ۔ اور اسے نینوا بھی کہا جاتا ہے ، اور یہ اس میں ایک قریہ ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے گریہ کیا اور فرمایا : کرب و بلا یعنی غم و اندوہ اور بلا ۔ پھر آپ نے فرمایا :امّ سلمه نے مجھے خبر دی ہے اور کہا ہے : جبرئیل؛ رسول خدا صلّی الله علیه و آله و سلم کے پاس آئے ، جب آپ میرے پاس تھے ۔ رسول خدا صلّی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا : میرے بیٹے کو چھوڑ دو ۔ میں نے آپ کو چھوڑ دیا ۔ رسول خدا صلّی الله علیه و آله و سلم نے آپ کو اٹھایا کر اپنی آغوش میں بٹھا لیا ۔ جبرئیل نے عرض کیا : کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں! عرض کیا: جلدہی آپ کی امت اسے قتل کر دے گی . اگر آپ چاہئیں تو میں آپ کو اس سرزمین کی خاک دکھاؤ جہاں یہ قتل ہوں گے؟ فرمایا : ہاں ! پس جبرئیل نے اپنے پر زمین کربلا پر پھیلا دیئے اور رسول خدا صلّی الله علیه و آله و سلم کو وہ خاک دکھائی.پھر امام حسین علیہ السلام نے اس زمین کو سونگھ کر فرمایا : خدا کی قسم ! یہ وہی زمین ہے جس کے بارے میں جبرئیل نے رسول خدا صلّی الله علیه و آله و سلم کو خبر دی تھی اور یہ وہی زمین ہے جہاں میں قتل ہوں گا.

ابن سعد نے کتاب ’’طبقات‘‘ میں واقدی سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ نیز ابن سعد نے شعبی سے نقل کیا ہے کہ ان کا بیان ہے : جب حضرت علی علیه السلام کا صفین کے راستے میں کربلا سے گزر ہوا اور آپ نینوا (فرات کے کنارے ایک قریہ) کے پاس کھڑے ہوئے اور پوچھا کہ اس سرزمین کا کیا نام ہے ؟ کہا گیا : کربلا۔ امام علی علیہ السلام نےگریہ کیا اور زمین کو اپنے آنسو سے تر کر دیا ۔ پھر آپ نے فرمایا : میں رسول خدا صلّی الله علیه و آله و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ رو رہے تھے. میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے رونے کا کیا سبب ہے ؟ فرمایا : ابھی جبرئیل میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ میرا بیٹا حسین شط فرات کے کنارے اس سرزمین پر قتل ہو گا جسے کربلا کہا جائے گا ۔ اسے جبرئیل نے ایک مٹھی خاک اٹھا کر مجھے سونگھائی ، جس کی وجہ سے میں اپنی آںکھوں کو رونے سے نہیں روک سکا .حسن بن کثیر اور عبد خیر نے روایت کیا ہے اور کہا ہے : جب علی علیہ السلام کربلا پہنچے تو آپ وہاں کھڑے ہو گئے ، گریہ کیا اور فرمایا : میرے باپ ان جوانوں پر قربان ہوں جو یہاں قتل ہوں گے ، یہاں ان کی سواریوں کے بیٹھے کی جگہ ہے ، یہ ان کے پڑاؤ ڈالنے کی جگہ ہے ، یہ ان کے مردوں کے خاک پر گرنے کی جگہ ہے. اور پھر آپ نے بہت زیادہ گریہ کیا (ص۲۵۰ ط نجف)۔ اور ابن مزاحم نے اسے چار طرح سے روایت کیا ہے (صفین: ص۱۴۰ ـ ۱۴۲ ط هارون).

[2] ۔ غاضریه : یہ بنی اسد میں سے غاضره کی طرف منسوب  ہے اور اب یہ جناب عون علیہ السلام کی قبر کے اطراف کی زمین ہے ۔ اب یہ کربلا سے ایک فرسخ کی دوری پر ہے اور اس میں ایک قلعہ کے آثار ہیں جسے آج قلعهٔ بنی اسد کے نام سے پہچانا چاتا ہے.

[3] ۔ شفیّہ : یہ کربلا کے نزدیک بنی اسد کے کنویں ہیں.

[4] ۔ وہاں بابل  کے قریوں میں سے منازل «نَبوخَذ نُصَّر» ہے جو تصحیف ہو گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ کربلا ہے.

[5] ۔ وقعة الطّف (ابي مخنف): ۱۷۸.

 

    بازدید : 1219
    بازديد امروز : 133032
    بازديد ديروز : 167544
    بازديد کل : 143877039
    بازديد کل : 99294629