امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
اپنے ظلم اور جنایات کو چھپانے کے تاریخی واقعات

اپنے ظلم اور جنایات کو چھپانے کے تاریخی واقعات

***********************************

12محرم الحرام:اسیران کربلا کا كوفه پہنچنا (۶۱ ہجری)

***********************************

یہاں بطور نمونہ کچھ مطالب ذکر کرنا مناسب ہے۔ عاشورا کے غمناک واقعہ کے بعد امام حسین علیہ السلام کے اہلبیت کو اسیر بنا کر ابن زیاد کے دربار میں لے جایا گیا تو ابن زیاد، حضرت زہنت علیہا السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام کے درمیان گفتگو اور الفاظ کا رد و بدل ہوا۔جو قابل غور ہے:

   اس نے امام زين العابدين‏ عليه السلام کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟

   کہا: یہ علىّ بن الحسين‏ عليهما السلام ہیں.

   اس نے کہا: کیا علىّ بن الحسين ‏عليهما السلام کو خدا نے قتل نہیں کیا؟!

   امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:میرا ایک بھائی تھا کہ جس نام بھی علىّ بن الحسين تھا جسے تمہارے لشکر کے سپاہیوں نے قتل کر دیا ہے.

   ابن زياد نے کہا: بلكه خدا نے اسے قتل کیا ہے.

   امام سجاد علیہ السلام نے اس آيه کی تلاوت فرمائی:

«اَللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حينَ مَوْتِها».(1295)

خداوند ہی انسانوں کو ان کی موت کے وقت موت دیتاہے۔

ابن زياد نے غصہ میں آکر کہا:مجھے جواب دینے اور مجھے ردّ کرنے کی تمہاری جرأت کیسے ہوئی.اسے قتل کر دیا جائے. البتّه پھر کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ جن کی وجہ سے اس حکم پر عمل درآمد نہ ہو سکا.(1296)

اسی بحث کی طرح یزید کے دربار میں بھی بحث ہوئی۔ یزید نے امام سجاد علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا: خدا کی حمد و شکر کہ اس نے تیرے باپ  کو قتل کیا۔

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: اس پر خدا کی لعنت ہو جس نے میرے بابا کو قتل کیا۔

جب یزید نے یہ سنا تو اس نے آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا البتہ اس حکم پر بھی عمل نہ ہوا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے حکم دیا کہ امام کو اس کے پاس لے جایا جائے اور آپ کی گردن میں زنجیر اتارنے لگا اور اس کے ضمن میں اس نے یہ آیت پڑھی:

«وَما أَصابَكُمْ مِن  مُصيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْديكُمْ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ».(1297)

اور تم تک جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے اور وہ بہت سی باتوں کو معاف بھی کردیتاہے

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:

جیسا تم سوچ رہے ہو ایسا نہیں ہے۔ یہ آیت ہمارے بارے میں نہیں ہے بلکہ جو ہمارے بارے میں ہے وہ یہ ہے؟

«ما أَصَابَ مِن مُصِيَبةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فى أَنفُسِكُمْ إِلّا فى كِتابٍ‏ مِنْ قَبْلِ أَن نَبْرَأَهَا ... × لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِمااتاكُمْ».(1298)

زمین میں کوئی بھی مصیبت وارد ہوتی ہے یا تمہارے نفس پر نازل ہوتی ہے تو نفس کے پیدا ہونے کے پہلے سے وہ کتاب الہی میں مقدر ہوچکی ہے ... ×یہ تقدیر اس لئے ہے کہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر غرور نہ کرو۔

پھر حضرت امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: ہم وہ ہیں کہ جن کے یہ فضائل ہیں۔۔۔.(1299)

کیا ابن زیاد اور یزید اس کے علاوہ کچھ اور کہنا چاہتے تھے امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے ساتھ جو کچھ ہوا ،وہ خدا نے کیا نہ حاکم نے؟ اور حاکم صرف خدا کے ارادہ کو متحقق کرنے اور ثابت کرنے کا وسیلہ ہیں۔ یعنی ابن زیاد، یزید اور اس کے لشکر نے امام حسین علیہ السلام کو شہید نہیں کیا بلکہ خدا نے انہیں قتل کیا ہے لیکن خدا نے کیوں انہیں قتل کیا؟ یہ ان کے اپنے اقدامات کا نتیجہ تھا اور وہ یہ چاہتے تھے کہ ان سب سے حاکم کا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ممکمل طور پر بری الذمہ ہے اور اس کی ذمہ داری خدا پر عائد ہوتی ہے۔

اس بناء پر حاکم کو مطلق اختیار و قدرت مل جاتی کیوں کہ اس  کے تمام اعمال و اقدامات خدا کے ارداہ کی تجلی ہیں لہذا وہ قابل تغییر نہیں ہے اور ان پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بنی امیہ کی آئیڈیالوجی کی تفسیر ہے؛ کیونکہ نہ وہ اصل دین کا انکار کرنے پر مجبور تھے اور نہ ہی اس کا عدم انکار ان کے ہاتھ پاؤں باندھ سکتا تھا۔ وہ صرف طاقت و قدرت ،ہر کام کرنے کی آزادی اور نا محدود اختیار چاہتے ہیں۔ یہ سب اس تفسیر سے حاصل ہوتا ہے۔

بنی امیہ اصولی طور پر اسی فکر کی بنیاد پر زندگی گزارتے اور حکومت و تبلیغ کرتے تھے۔ ان کی  خلافت کا زمانہ ایسے واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ جب معاویہ مرا تو یزید نے مدینہ کے حاکم کو یوں لکھا: معاویہ خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا اور خدا نے اسے عزت و شرف بخشا اور اسے اپنا جانشین قرار دیا اور لوگوں کے امور اس کے سپرد کر دیئے اور اسے قدرت و منصب اور سیاست دی.(1300)

اسی طرح جب معاویہ پر کسی نے اس کے بیٹے یزید کی ولی عہدی پر اعتراض کیا تو اس نے جواب میں یوں کہا: یہ خدا کی ملک و سلطنت ہے ، اور خدا جسے چاہے عطا کرتا ہے۔ یزید کی ولی عہدی کو خدا نے مقدّر و معین کیا ہے اور یہ تقدیرات الٰہی میں سے ہے۔ تم لوگوں کو اس میں چون و چرا نہیں کرنی چاہئے اور کسی کو اس میں کوئی اختیار نہیں ہے.(1301)

اس کے ولی عہد بھی ایسی ہی باتیں کرتے اور انہی افکار کی تبلیغ کرتے تھے۔ ایک دن ابن زیاد نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اے لوگو! اب ہم تمہارے رؤسا ہیں اور ہم ہی تم سے بلاؤں اور مصیبتوں کو دور کرتے ہیں۔ اور ہم خدا کی دی ہوئی قدرت و طاقت سے حکومت کرتے ہیں اور اسے نے ہمارے اختیار میں جو کچھ دیا ہے اس میں سے تمہیں عطا کرتے ہیں۔ تم لوگوں پر ہماری اطاعت کرنا لازم ہے اور ہم جو چاہتے ہیں تمہیں اس پر عمل کرنا چاہئے اور ہم تم سے انصاف سے پیش آئیں گے۔ پس تم لوگوں کو ہماری اطاعت کوشش کرنی چاہئے  اور اس اطاعت اور تعاون سے تم ہمارے عدل کے مستحق بننے کی کوشش کرو.(1302)

یزید بن عبد الملک کی اپنے دو بیٹوں کو ولی عہدی کے لئے کی گئی مفصل وصیت میں بھی ایسے طرز تفکر کو ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ جس میں اس نے قرآن اور احادیث سے فراوان عناصر کو ضمیمہ کیا ہے۔(1303).(1304)


1295) سوره زمر، آيه 42.

1296) یہ تفصیلی واقعہ مقتل الحسين‏ عليه السلام  عبدالرزاق مقرّم، ص 422 و 423 اور منتهى الآمال، چاپ سنگى(قدیم)، ج 1ص 362 میں ملاحظہ فرمائیں.

1297) سوره شورى، آيه 30.

1298) سوره حديد، آيه 22 و 23.

1299) تفصیلی واقعہ مقتل الحسين: 452 اور منتهى الآمال: 357/1 میں ملاحظہ فرمائیں.

1300) الإمامة والسياسة: 203/1.

1301) ایضاً: 191/1.

1302) تاريخ طبرى: 220/5.

1303) الاُمويّون والخلافة: 28 - 26.

1304) زمينه‏ هاى تفكّر سياسى در قلمرو تشيّع و تسنّن: 215.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

بازدید : 932
بازديد امروز : 193548
بازديد ديروز : 160547
بازديد کل : 145309623
بازديد کل : 100011703