हमारा लोगो अपनी वेबसाइट या वेबलॉग में रखने के लिए निम्न लिखित कोड कापी करें और अपनी वेबसाइट या वेबलॉग में रखें
(1) منصور دوانیقی کی زبان سے امیرالمؤمنین حضرت علی علیه السلام کی فضیلت کے بارے میں حدیث اور اس کا یہ اقرار کرنا کہ وہ اہل جہنم ہے

(1)

منصور دوانیقی کی زبان سے امیرالمؤمنین حضرت علی علیه السلام کی فضیلت

 کے بارے میں حدیث اور اس کا یہ اقرار کرنا کہ وہ اہل جہنم ہے

مدينة المعاجز میں ابن بابويه سے اور سليمان بن اعمش كوفى سے روايت كی گئی ہے کہ انہوں نے کہا : ایک رات سحر کے وقت منصور دوانقى نے مجھے بلانے کے لئے کسی کو بھیجا ۔ میں حیران ہوا کہ آخر رات کے اس پہر منصور کو مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے ؟ میں نے سوچا کہ یقیناً وہ مجھ سے علی بن ابی طالب علیہما السلام کے فضائل میں سے کسی فضیلت کے بارے میں سوال کرے گا۔ اور جیسے ہی میں کوئی فضیلت بیان کروں گا تو وہ مجھے قتل کر دے گا ۔ لہذا میں نے وصیت کی ، گسل کیا ، کفن پہنا اور ھنوط کرنے کے بعد اپنے گھر سے باہر نکالا ۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ عمرو بن عبيد بھی وہاں موجود ہے ۔ پس اس نے مجھے بلایا اور اپنے پہلو میں بٹھا دیا یہاں تک کہ اس کے زانوں سے میرا زانو متصل تھا ۔ جب اس نے مجھ سے حنوط کی کوشبو سونگھی تو کہا : تم نے حنوط کیوں کیا ہے ؟ سچ بتاؤ ورنہ میں تمہیں قتل کر دوں گا ۔

میں نے اس سے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جب تم نے رات کے اس وقت مجھے بلانے کے لئے کسی کو بھیجا تو میں بہت حیران ہوا اور میں نے خود سے کہا کہ امیر نے مجھے بلایا ہے اور وہ مجھ سے علی علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں سوال کرے گا اور جب میں اس کے لئے فضائل بیان کروں گا تو وہ مجھے قتل کر دے گا ، اس لئے میں نے وصیت کی ، کفن پہنا اور حنوط کر کے یہاں آیا ہوں ۔ میں نے جیسے ہی یہ بات کی ، وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور پھر بیٹھنے کے بعد کہا : «لا حول ولا قوة إلاّ باللَّه».

پھر اس نے کہا: اے سليمان ! میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم علی علیہ السلام کے فضائل  کے بارے میں کتنی احادیث روایت کر سکتے ہو ؟ میں نے کہا : اے امیر المؤمنین !! بہت کم احادیث ۔

اس نے پوچھا : کتنی احادیث ؟ میں نے کہا : دس ہزار سے زیادہ احادیث ۔

اس نے کہا : اے سلیمان ! علی (علیہ السلام ) کے فضائل کے بارے میں تمہیں ایک ایسی حدیث بتاؤں کہ جسے سن کر تم ہر دوسری حدیث کو بھول جاؤ ْ

میں نے کہا : اے امیر المؤمنین !! وہ حدیث بیان کریں !

اس نے کہا : جان لو میں کہ اپنی زندگی کے اوائل میں علی بن ابی طالب ( علیہما السلام ) کا مداح تھا اور ان کی مداحی کرنے کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر جاتا تھا اور اس کی وجہ سے لوگ مجھے طعام دیتے اور میرا احترام و اکرام کرتے تھے ۔ پھر میں شام کے ایک شہر میں داخل ہوا ، جب کہ میرے پاس ایک پرانی عباء تھے اور اس کے علاوہ کوئی اور لباس نہیں تھا ۔ جب میں وہاں داخل ہوا تو میں نے اذان کی آواز سنی ، اور اس وقت میں بھوکا بھی تھا ۔ میں نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں گیا ۔ جب امام جماعت کے نماز کا سلام پڑھا تو میں نے دیکھا دو بچے مسجد میں داخل ہوئے ۔ امام جماعت نے انہیں دیکھ کر کہا : مرحبا : تم دونوں پر ، اور مرحبا  ان پر کہ جن کے نام پر میں نے تمہارے نام رکھے ۔ میرے ساتھ ایک جوان کھڑا ہوا تھا ، میں نے اس سے پوچھا کہ یہ شیخ کون ہے اور یہ دونوں بچے کون ہیں ؟ اس نے بتایا : یہ شیخ ان دونوں بچوں کا جد ہے اور اس شہر میں اس شیخ کے سوا کوئی شخص علی ( علیہ السلام ) کو دوست نہیں رکھتا اسی لئے اس نے اپنے بیٹوں کے نام حسن اور حسین رکھے ہیں ۔

اس کا بیان ہے کہ : یہ سن کر میں خوش ہو گیا اور میں نے اس شیخ کے پاس جا کر کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے لئے ایک ایسی حدیث بیان کروں کہ آپ کی آنکھیں روشن ہو جائیں ؟

شیخ نے کہا : اگر تم میری آنکھوں کو روشن کرو گے تو میں تمہاری آںکھوں کو روشن کر دوں گا ۔

میں نے کہا:یہ میرے باپ نے اپنے باپ اور انہوں نے اپنے دادا سے سنی کہ اننہوں نے کہا : ایک دن ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھے ہوے تھے کہ اچانک جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا داخل ہوئیں جب کہ آپ گریہ کر رہیں تھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : میری جان فاطمہ ! کس وجہ سے گریہ کر رہیں ہیں ؟ عرض کیا : بابا ! میرے حسنین کافی دیر سے گھر سے باہر گئے ہیں اور ابھی تج واپس نہیں آئے ، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں گئے ہیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : میری بیٹی رو نہیں ، جس خدا نے انہیں خلق کیا ہے وہ تم سے زیادہ ان پر مہربان ہے ۔ پس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دست مبارک بلند کئے اور عرض کیا : خدایا ! اگر حسنین ِ فاطمہ دریا یا بیابان میں ہیں تو ان کی حفاظت فرما ۔ جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا : يا رسول اللَّه ! خدا نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے : پریشان اور محزون نہ ہوں ، بیشک آپ کے حسنین دنیا و آخرت میں فاضل ہیں اور ان کے والد گرامی ان سے افضل ہیں ۔ جان لیں کہ وہ بنی نجار کے نخلستان میں سو رہے ہیں اور دو فرشتے ان پر موکل ہیں ۔ رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم مسرور اور خوشحال ہو گئے اور پھر صحابہ کے ساتھ بنی نجار کے نخلستان کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جب آپ وہاں پہنچے تو آُ نے دیکھا کہ حسنین ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈال کر سو رہے ہیں اور فرشتہ ان پر موکل ہے کہ جس نے اپنا ایک پر ان کے نیچے بچھایا ہوا ہے اور دوسرا پر ان کے اوپر رکھا ہے ۔ رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم وہاں بیٹھ گئے ، انہیں پیار کیا اور چوما ، یہاں تک کہ وہ خواب سے بیدار ہو گئے ۔ پس رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے امام حسن علیہ السلام کو اپنے کندھوں پر بٹھایا اور اور جبرئيل نے امام حسين‏ عليه السلام کو ، اور پھر وہ نخلستان سے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے ۔

راستے میں ابو بکر نے عرض کیا : يا رسول اللَّه ! دونوں میں سے ایک مجھے پکڑا دیں ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : اے ابو بکر ! دو کتنے اچھے سوار ہیں اور دو کیسی اچھی سواریاں ہیں ، اور ان کے والد گرامی ان سے افضل ہیں ۔ پھر رسول  خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لائے اور بلال سے فرمایا کہ لوگوں کو نداء دو کہ مسجد میں جمع ہو جائیں ۔ بلال نے لوگوں کو نداء دی اور سب لوگ مسجد میں جمع ہو گئے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھرے ہوئے اور فرمایا : معاشر الناس ! کیا تمہیں جد اور جدہ کے لحاظ سے بہترین شخص کے بارے میں بتاؤں ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں یا رسول اللَّه ۔ آنحضرت نے فرمایا: حسن و حسين ۔ بیشک ان کے والد علی ہیں کہ جنہیں کدا اور رسول بھی دوست رکھتے ہیں اور ان کی والدہ فاطمہ بنت پیغمبر ہیں ۔

ايها الناس ! کیا تمہیں چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے بہترین شخص نے بارے میں خبر دوں ؟ عرض کیا : جی ہاں يا رسول اللَّه ۔ فرمایا : حسن اور حسين ۔ بیشک ان کے چچا جعفر طیار ہیں کہ ملائکہ کے ساتھ بہشت میں پرواز کرتے ہیں اور ان کی پھوپھی ام ہانى بنت ابو طالب ہیں ۔

ايها الناس ! کیا تمہیں ماموں اور خالہ کے لحاظ سے بہترین شخص کے بارے میں خبر دو ؟ عرض کیا :جی ہاں ! يا رسول اللَّه ۔ فرمایا : حسن اور حسين ۔ بیشک ان کے ماموں قاسم بن پيغمبر ہیں اور ان کی خالہ زينب بنت پيغمبر ہیں۔ پس آپ نے سر اٹھا اور عرض کیا : خدایا ! تو جانتا ہے کہ حسن و حسین ، اور جد و جدہ ، اور میرے ماں باپ ، اور ان کے چچا اور پھوپھی اور ماموإ اور خالہ بہشت میں ہیں ۔ خدایا ! تو جانتا ہے کہ جو انہیں دوست رکھے وہ بہشت مییں ہے اور جو انہیں دشمن رکھے وہ آتش ( جہنم ) میں ہے ۔

منصور کہتا ہے : جب میں یہ یہ حدیث اس شیخ سے بیان کی تو اس نے کہا : اے جوان ! تم کس شہر سے تعلق رکھتے ہو ؟ میں نے کہا : کوفہ سے ۔ اس نے کہا : کیا تم عبد ہو یا آزاد ؟ میں نے کہا : میں آزاد ہو ۔ اس نے کہا : تم یہ حدیث جانتے ہو اور تم نے یہ پرانی عباء پہنی ہوئی ہے ! پس اس شیخ نے مجھے ایک عباء اور ایک سواری دی ، جب کہ اس سواری کی قیمت سو دینار تھی ۔ اور ہھر اس نے کہا : اے جوان ! خدا کی قسم ! تم نے میری آنکھیں روشن کر دیں اور اب میں تمہاری آنکھیں بھی روشن کر دوں گا اور تمہیں ایک ایسے جوان کے پاس بھیجوں گا کہ وہ بھی تمہاری آنکھیں روشن کر دے گا ۔ میں نے کہا : مجھے اس کے پاس بھیج دیں ۔ اس نے کہا : جان لو کہ میرے دو بھائی ہیں کہ جن میں سے ایک امام جماعت ہے اور دوسرا مؤذن ہے ۔ اور جو امام ہے وہ اپنی پیدائش سے ہی علی کو دوست رکھتا ہے ۔ میں نے کہا کہ مجھے اس کے پاس بھیج دو ۔ پس وہ مجھے لے کر اس کے گھر میں گیا ۔ دروازے پر دستک دی اور جب وہ گھر سے باہر آیا تو میری عباء اور سواری کو دیکھ کر پہچان گیا اور اس نے کہا : خدا کی قسم ! یہ عباء اور سواری میرے بھائی کے ہیں کہ جو اس نے تمہیں اس لئے دیئے ہیں کہ تم خدا و رسول کو دوست رکھتے ہو ۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم میرے لئے علی بن ابی طالب علیہما السلام کے فضائل کے بارے میں کوئی حدیث نقل کرو ۔

مجھے میرے باپ اور انہیں ان کے باپ اور انہیں ان کے داد نے خبر دی ہے کہ ایک دن ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھے ہوے تھے کہ اچانک جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا داخل ہوئیں جب کہ آپ گریہ کر رہیں تھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : میری جان فاطمہ ! کس وجہ سے گریہ کر رہیں ہیں ؟ عرض کیا : بابا جان !  قریش کی عورتیں میری سرزنش کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ تمہارے باپ نے تمہارے شادی ایک فقیر شخص سے کر دی ہے اور اس کے پاس مال دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و  وسلم نے فرمایا : فاطمہ جان ! گریہ نہ کرو ، خدا کی قسم ! میں نے علی سے تمہاری شادی نہیں کی بلکہ خدا نے عرش پر  علی سے تمہارا ازدواج کیا ہے اور جبرئیل و میکائیل اس کے شاہد ہیں ۔ جان لو کہ خدا نے زمین پر تمام مخلوق میں صرف دو افراد کو اختیار کیا کہ جن میں سے ایک تمہارے والد اور دوسرا تمہارا شوہر ہیں ۔ تمہارے والد کو رسالت اور تمہارے شوہر کو وصی بنا کر مبعوث کیا ۔

فاطمہ جان ! جان لو کہ علی لوگوں میں سب سے زیادہ شجاع ہیں اور حلم کے لحاظ سے سب سے زیادہ بزرگ اور سخاوت کے اعتبار سے تمام لوگوں سے زیادہ سخی ہیں اور علم کے لحاظ سے سب سے زیادہ اعلم ہیں ۔ اور وہ سب لوگوں سے پہلے مسلمان ہوئے اور ان کے حسن و حسین جیسے دو فرزند ہیں کہ جو جوانان جنت کے سردار ہیں اور جن کا توریت میں اسم شبر و شبیر ہیں اور وہ خدا کے نزدیک محترم و مکرم ہیں ۔ فاطمہ جان گریہ نہ گرو ۔ کل قیامت کے دن تمہارے والد اور شوہر بہشتی حلہ میں سے دو حلہ پہنیں گے اور لوای حمد میرے ہاتھ میں ہے اور اس کے بعد وہ علی کو دوں گا ، اور اس کی کرمات خدا کے نزدیک ہے ۔

میری جان فاطمہ ؛ گریہ مت کرو ، کل جب قیامت کا دن ہو گا تو منادی نداء دے گا کہ اے محمد ! تمہارے جد ابراہیم خلیل کیا خوب جد ہیں ، تمہارے بھائی علی بن ابی طالب کیا خوب بھائی ہے ۔ پس علی مجھے دو بہشتی کلید دیں گے اور ہمارے شیعہ ہی کامیاب ہوں گے اور بہشت میں داخل ہوں گے ۔

منصور کا بیان ہے کہ : جب میں نے یہ حدیث بیان کی تو اس شیخ نے کہا : اے جوان ! تم کس شہر سے تعلق رکھتے ہیں ؟ میں نے کہا : میں کوفہ سے ہوں ؟ اس نے کہا : عبد ہو یا غلام ؟ میں نے کہا : میں آزاد ہو ں ۔ پس اس نے مجھے تیس لباس اور دس ہزار درہم دیئے اور کہا : اے جوان ! تم نے میری آنکھیں روشن کی ہیں لیکن میری تم سے ایک حاجت ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارا ایک بھائی ہے کہ جو مؤذن ہے اور وہ علی کا دشمن  ہے ، میں یہ چاہتا ہوں کہ کل تم اس سے ملنے کے لئے مسجد آل فلاں میں آؤ ۔ میں نے کہا کہ انشاء اللہ میں کل آؤں گا ۔ اگلے دن میں اسی مسجد میں گیا کہ جہاں اس شیخ نے آںے کے لئے کہا تھا َ جیسے ہی وہ شخص رکوع کے لئے جھکا تو اس کے سر سے عمامہ گر گیا ۔ میں نے دیکھا کہ اس کا سر خنزیر کے سر کی مانند ہے ۔ جب تک امام جماعت نے نماز کا سلام نہ پڑھا میں نے اسے کچھ نہ کہا اور نماز کے بعد میں نے اسے کہا : وای ہو تم پر تمہارا سر ایسا کیوں ہے ۔ وہ گریہ کرنے لگا اور اس نے کہا ، آؤ میرے ساتھ گھر چلو تا کہ میں تمہا اس کا واقعہ بتاؤں ۔

میں اٹھا اور اس کے ساتھ اس کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔ جب ہم اس کے گھر پہنچے تو اس نے کہا : اے شخص ! جان لو کہ میں مؤذن تھا اور ہر صبح اذان و اقامت کے درمیان ہزار مرتبہ علی پر لعن اور سب و شتم کرتا تھا ۔  ایک جمعہ کے دن میں نے ان پر چار ہزار مرتبہ لعن کی اور جب میں گھر سے باہر گیا تو میں اس دوکان میں جا کر سو گیا اور میں نے عالم خواب میں دیکھا کہ گویا میں بہشت میں ہو اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، علی علیہ السلام کے ساتھ کمال مسرت سے کھڑے ہیں ، جب کہ حضرت امام حسن علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دائیں جانب اور حسین علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں جانب کھڑے ہیں  اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک میں ایک کاسہ ہے کہ جو آنحضرت نے امام حسن علیہ السلام کو دیا اور فرمایا : پیو۔ آپ نے پیا اور پھر آنحضرت نے فرمایا  : یہاں موجود اس جماعت کو دے دو اور سب لوگ اس کاسہ سے سیراب ہوئے ۔ اسی دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر مجھ پر پڑی اور میری جان حسن ، اس شخص کو بھی دے دو ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے عرض کیا : اے جد بزرگوار کیا آپ مجھے ایک ایسے شخص کو سیراب کرنے کا حکم دے رہے ہیں کہ جو ہر دن اذان  و اقامت کے درمیان ہزار مرتبہ ہمارے بابا پر لعن کرےا ہے اور آج اس نے چار ہزار مرتبہ لعن کی ہے ۔ میں نے دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس آئے اور فرمایا : خدا تم پر لعنت کرے ، تم کیوں علی علیہ السلام پر لعنت کرتے ہیں حالانکہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ۔ پھر آپ  نے میرے چہرے پر تھوک پھینکی اور مجھے اپنے مبارک پاؤں سے مارا اور فرمایا : اٹھو ! خدا تم پر اپنی نعمت کو بدل دے ۔ جب میں بیدار ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرا سر اور چہرہ خنزیر کی طرح ہو چکا تھا ۔

سليمان اعمش کا بیان ہے کہ منصور نے مجھ سے کہا : کیا تم یہ حدیث جانتے تھے ؟ میں نے کہا : نہیں

منصور نے کہا : اے سلیمان ! علی کی دوست ایمان ہے اور علی سے بغض اور دشمنی نفاق ہے ۔ خدا کی قسم ! مؤمن کے سوا کوئی علی کو دوست نہیں رکھ سکتا اور منافق کے سوا کوئی علی سے دشمنی نہیں رکھ سکتا ۔

 میں نے منصور سے کہا : اے امیر المؤمنین !! اگر میں امان میں ہوں تو ایک بات کہوں ؟

اس نے کہا : ہاں تم امان میں ہو ۔ میں نے کہا : آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہیں کہ جس نے حسن علیہ السلام کو قتل کیا ؟ اس نے کہا : ان کا قاتل آتش ( جہنم ) میں ہے ۔ میں نے کہا : اسی طرح کیا جو شخص اولاد پیغمبر کو قتل کرے وہ جہنم اور آتش ( جہنم ) میں ہے ؟ یعنی تم بھھی اولاد پیغمبر کو قتل کر رہے ہو تو کیا تم بھھی آتش ( جہنم ) میں ہو ؟

منصور نے کہا : ہاں ! تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن «الملك عقيم» یعنی سیاست اور بادشاہی عقیم ہے ۔ اٹھو اور یہاں سے باہر نکل جاؤں اور تم جس سے چاہو یہ حدیث بیان کرو کہ جو تم نے مجھ سے سنی ہے ۔

ترك حق كرده است آن مرد لئيم

كه يقول القوم الملك عقيم (500)


500) ثمرات الحياة: 797/2.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

यात्रा : 1076
आज के साइट प्रयोगकर्ता : 68191
कल के साइट प्रयोगकर्ता : 296909
कुल ख़ोज : 149021768
कुल ख़ोज : 102668108