امام صادق عليه السلام : جيڪڏهن مان هن کي ڏسان ته (امام مهدي عليه السلام) ان جي پوري زندگي خدمت ڪيان هان.
(۱) عبدالله محض کے بارے میں ایک بات

(۱)

عبدالله محض کے بارے میں ایک بات

   عبّاسيوں نے ابتداء میں ہی كوفه اور خراسان کا اپنی دعوت کے مرکز کے طور پر انتخاب کیا کہ جن میں قديم الأیام سے ہی شیعوں کا اثر و رسوخ تھا ۔ ایرانی مسلمان دوسروں کی بنسبت تشیّع کو قبول کرنے کے لئے زیادہ تیار تھے اور وہ خلافت کو قدیم سلطنت کا مظہر سمجھتے تھے  اور انہوں نے علویوں کی تائید میں قیام کیا ۔ کیونکہ وہ ان کے حق کو الٰہی اور موروثی سمجھتے تھے ۔ اس کے علاوہ ایران کے لوگ بہت قدیم تاریخ کے حامل ہیں اور انہوں نے قدیم دور میں بھی بعض عرب ممالک پر اپنی حکومت قائم کی اور آل محمد علیہم السلام کی دعوت کے وسیلہ سے امویوں کی جابرانہ و ظالمانہ تسلط سے رہائی کے لئے اپنی قدیم قدرت و طاقت کی تجدید سے ایک شمع روشن کی ۔ اور یہ بات مسلم تھی کہ جدید عباسی حکومت کی  تشکیل کے لئے ان کا نفوذ اور اثر و رسوخ سنگین ہو جاتا اور خلافت کے عنوان کے علاوہ ہر طاقت و قدرت حاصل کر کستے تھے  اور امویوں اور عباسیوں کے درمیان جو کش مکش تھی وہ درحقیقت ایرانیوں اور عربوں کے درمیان پائی جانے والی کش مکش تھی اور آہستہ آہستہ خلافت بغداد سے عربوں کا اثر ورسوخ کم ہوتا گیا ۔ مأمون اور امین کا  فتنہ بھی حقیقت میں ایم تصادم تھا کہ جو علویوں اور عباسیوں اور اسی طرح عربوں اور ایرانیوں کے درمیان طاقت و قدرت کے حصول کے لئے پیش آیا اور اس دور میں مأمون کی کامیابی ( کہ جو اسے حراسان میں حاصل ہوئی ) بھی ایرانیوں کی کامیابی تھی اور اس کے بعد بغداد سے عربوں کی قدرت و طاقت ک ااس طرح سے صفایا ہوا کہ پھر کبھی انہیں وہ قدرت و طاقت حاصل نہ ہو سکی ۔ عباسیوں کی ایرانیوں سے ایک دلبستگی اور جانبداری کے نتیجہ میں بغداد کی حکومت ، ساسانیوں کی حکومت کی مانند ہو گئی ۔

   پالمر نے كتاب «هارون الرشيد» میں کہا ہے : عبّاسيان کی قدرت اور ان کی حکومت کا مستقر ہونا ایرانیوں کے مرہون منت تھا کہ جس کی وجہ سے یہ ایک طبیعی امر تھا ان پر ایرانی افکار حاکم تھے ۔ ایرانی نژاد وزراء حکومت کے اہم عہدوں پر فائز تھے  اور خلافت ساسانی سلطنت کی صورت میں چل رہی تھی۔

   عبّاسيون نے اپنے خاص محافظ خراسان سے لئے ، کیونکہ ان لا خراسانیوں پر مکمل اعتماد تھا اور انہوں نے اپنی حکومت میں مساوات کی سنت کے بجائے ساسانی استبداد کی پیروی کی اور رعایا پر مسلط ہو گئے ۔ ایرانیوں کی قدیم رسومات کا دربار خلافت میں بھی رائج ہو گئیں ، خلیفہ اپنی رعایا کی دسترس سے دور تھا اور اس کام کے لئے اس نے وزراء ، حاجب اور دبیر رکھے ہوئے تھے ۔ گویا یہ اسلام سے قبل سابقہ زمانے میں روم میں ایرانی سلطنت کی رسومات کی عکاسی کر رہے تھے کیونکہ اس زمانے میں بھی روم کی عظیم سلطنت میں اہم عہدوں پر درباریوں کی ایک جماعت فائز تھی اور تاریخ سنت کے حوالہ سے اس زمانے میں سب سے فاسد لوگوں کا انتخاب کیا جاتا تھا ۔

   عباسیوں کی ایرانیوں سے دلبستگی طبیعی و فطری ام تھا کیونکہ انہوں نے انہی کی مدد سے اپنی حکومت قائم کی تھی اور ان کے ذریعہ امویوں کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا ۔ ایرانیوں سے ان کی رغبت اور امویوں سے ان کی شدید دشمنی کا اندازہ ان خطبوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو داؤد بن على اور ابو جعفر منصور نے دیئے تھے اور جن کا متن آج بھی تاریخ کے صفحات میں یادگار کے طور پر محفوظ اور درج ہے کہ اسے ایرانیوں کے افتخارات میں سے قرار دیا گیا ہے اور عباسی حکومت کے قیام میں ان کی کوششوں کو سراہا گیا ہے اور امویوں کا نام برائی کے طور پر لیا گیا ہے اور وہ اپنے ہدایا و جوائز کے ذریعہ ایرانیوں اور بالخصوص خراسانیوں کو خوش رکھتے تھے ۔

   منجملہ داود بن على کا یہ قول ہے کہ جس میں اس نے کہا ہے : اے اہل کوفہ ! خدا کی قسم ! جب تک خدا نے خراسان کے شیعوں کو نہیں بھیجا تھا ، تب تک ہم مظلوم تھے اور خدا نے ان کے وسیلہ سے ہمارے حق کو احیاء کر دیا  اور ہماری حجت کو قوت بخشی اور ہماری حکومت قائم کی ۔

   اور ابو جعفر كا قول ہے کہ اس نے کہا: اے خراسان کے لوگو ! تم ہمارے اہل دعوت ، شیعہ اور ہمارے دوست ہو ۔

   اور اسی نے مہدی کو خراسانیوں کے بارے میں تاکید کی اور کہا : خراسان کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو ؛ کیونکہ وہ تمہارے دوست اور پیروکار ہیں ۔ اور انہوں نے تمہاری حکومت کے لئے جان اور مال خرچ کیا ہے اور کسی بھی صورت میں ان کے دلوں سے تمہاری محبت زائل نہیں ہونی چاہئے ۔ ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے بدکاروں سے درگذر کرو اور انہوں نے جو خدمات انجام دی ہیں ، ان کے بدلے انہیں پاداش دو اور اگر کوئی مر جائے تو اس کے بیوی اور بچوں کا خیال رکھو ۔

   اسی طرح ابو جعفر منصور نے عبد اللہ بن حسن علوی کی خراسانی میں گرفتاری کے بعد جو خطبہ دیا اس سے بھی ایرانیوں سے عباسیوں کے دلی لگاؤ اور امویوں اور اسی طرح علویوں سے ان کے کینہ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اے خراسانیو ! تم ہمارے دوست ہو ؛ اگر تم نے کسی اور کی بیعت کی ہوتی تو وہ ہم سے بہتر نہ ہوتے ! ہم نے علی بن ابی طالب ( علیہما السلام) کی اولاد کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور ان سے ہمارا کوئی سر و کار نہیں ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام کو اپنی حکومت کے دوروان حکمیت میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ! اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہوا ، ان کے دوستوں نے بھی ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور بالآخر وہ شہید ہو گئے ۔ اور ان کے بعد حسن بن على عليہما السلام نے قیام کیا لیکن وہ بھی معاویہ کے حیلہ و مکاری  سے برطرف ہو گئے ۔ ان کے بعد حسين بن على عليہما السلام نے قيام كیا لیکن اہل عراق اور اہل کوفہ نے بھی ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور انہیں دشمن کے مقابلہ میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا اور یوں بھی شہید ہو گئے ۔ اور ان کے بعد زیدن بن علی نے قیام کیا لیکن اہل کوفہ نے انہیں بھی دھوکہ دیا اور انہیں دشمن کے حوالہ کر دیا ۔ میرے باپ محمّد بن على نے انہیں قسم دی تھی کی خروج نہ کریں اور ان سے کہا تھا : کوفیوں کی باتوں کا یقین مت کرو کیونکہ وہ آخر میں دھوکہ دیتے ہیں لیکن انہوں نے یہ بات نہ مانی اور قیام کیا اور قتل ہو گئے اور پھر اموی ہم سے الجھ پڑے اور انہوں نے ہماری عزت اور شرف کو پامال کیا اور ہمیں ہمارے ملک سے ہی بے دخل کر دیا ، ایک دن ہم شام میں ہوتے تو دوسرے دن طائف میں ، ہم دربدر تھے کہ خدا نے تمہارے ذریعہ ہماری مدد کی اور ہمارے شرف کو زندہ کیا اور ہماری عزت کی تجدید کی اور ہمارے حق کو اپس لوٹا دیا اور یوں پیغمبر ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کی میراث ہم تک پہنچی ! اور یوں خدا نے ظالم و جابر قوم کا خاتمہ کر دیا ۔

   عباسیوں کے نزدیک ایرانیوں کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انہیں ہی ملک کے اہم فوجی اور اداری عہدوں پر فائز کیا گیا تھا ۔ بغداد میں ان کی قدیم حکومت کی تجدید ہو چکی تھی ۔ خلیفہ انہیں کے لباس ، دربار کے آداب اور عید وغیرہ میں پذیرائی کے لئے انہیں کی تقلید کرتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ مطمئن اور قانع نہیں تھے بلکہ ان کی یہ کوشش تھی کہ وہ عباسیوں کے اثر و رسوخ اور نفوذ سے آزاد ہو جائیں اور خلافت علویوں کی طرف منتقل ہو جائے کیونکہ ایرانی شروع سے ہی امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے خاندان کی طرف مائل تھے اور اس کا سابقہ بہت قدیم ہے اور اس کا آغاز حضرت امام حسین بن علی علیہما السلام کے زمانے سے ہوا ۔

   کیونکہ ایرانیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ صرف امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کے خاندان کو ہی خلافت کا حق حاصل ہے اور وہ ماں یعنی شہر بانو بنت يزدگرد کی طرف سے ساسانی خاندان کے وارث تھے اور دین میں امامت اور ریاست و حکومت صرف انہیں کا ہی حق تھا اور یہ ان کے قدیمی اعتقادات میں سے ہے کہ وہ اپنے بادشاہوں کو تقدس کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ انہیں سائیگان خدا سمجھتے ہیں اور نیز ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ علوی اور بالخصوص امام حسین علیہ السلام کی اولاد کو امامت و سلطنت کا حق حاصل ہے کیونکہ ان میں نبوت اور حکومت و سلطنت کا کون یکجا ہوتا ہے کیونکہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل اور ساسان سے ہیں ۔

   یہاں سے اس بنیاد اور ریشہ کو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جس کی وجہ سے ایرانیوں نے خلافت کو عباسیوں سے علویوں کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی ۔ اس کام کی ذمہ داری ایران کے ایک بزرگ سردار ابو سلمہ خلال نے نبھائی کہ جنہوں نے عباسیوں کی دعوت کے خلافت بہت زیادہ زحمتوں کا سامنا کیا ۔

   ان کا نام ابو سلمه حفص بن سليمان تھا اور ان کا تعلق بنى‏ حارث بن كعب سے تھا  اور وہ کوفہ کے صاحب ثروت افراد میں سے تھے ۔ عباسیوں کی دعوت کی راہ میں وہ بہت زیادہ خرچ کرنے کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے تھے ۔ وہ ایک فصیح و بلیغ ، ادب دوست اور شعر شناس شخص تھے اور سیرت ، جدل اور تفسیر میں مہارت رکھتے تھے ۔ اپنے داماد بکیر بن ماہان ( کہ جو ابراہیم امام کا دبیر تھا )کے ذریعہ ان کا عباسیوں سے رابطہ برقرار ہوا ۔

   جب بکیر بن ماہان کی موت کا وقت آ پہنچا تو انہوں نے ابراہیم امام سے کہ وہ اپنے بعد دعوت کا کام ابو سلمہ کو سونپتے ہیں اور اس نے بھی یہ بات قبول کر لی اور ابو سلمہ کو ایک خط لکھا اور اس نے دعوت کے سلسلہ بھی بہت زیادہ کوشش کی اور جب انہیں عباسیوں کے حالات کی دقیق خبر ہو گئی تو انہوں نے کوشش کی کہ وہ کسی طرح خلافت عباسیوں سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے فرزندوں کی طرف منتقل کر دیں ۔ انہوں نے ایک  علوی شیعہ کے ہمرای خط بھیجا اور کہا کہ : وہ جعفر بن محمد صادق علیہ السلام کی خدمت میں جائے اور اگر انہوں نے خط کا جواب دے دیا تو تمہارے پاس دوسرے دونوں خط  باطل ہو جائیں گے اور اگر جواب نہ دیا تو پھر حضرت امام حسن بن علی علیہما السلام کی آل میں سے عبداللَّه محض سے ملاقات کرو اور انہیں وہ خط دو اور اگر انہوں نے جواب دے دیا تو دوسرا خط باططل ہو جائے گا اور اگر جواب نہ دیا تو دوسرا خط عمر اشرف بن على امام زين ‏العابدين ‏عليه السلام کی خدمت میں پہنچا دو ۔

   وہ شخص خط لے کر امام صادق ‏عليه السلام کی خدمت میں پہنچا اور آپ کی خدمت میں خط پیش کیا ۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے ابو سلمہ کے خط پر کوئی توجہ نہ دی اور کہا : مجھے اس سے کیا کام کہ وہ دوسروں کا پیروکار ہے ۔ اور پھر انہوں نے خط کو آگ سے جلا دیا اور جب اس شخص نے آپ سے جواب طلب کی تو آپ نے کہا : یہی جواب کہ جو تم نے دیکھا ہے ۔

   وہ شخص خط لے کر عبداللَّه محض کے پاس گیا اور وہ خط دریافت کر کے خوش ہو گئے اور اگلے دن حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا : یہ ابو سلمہ کا خط ہے کہ جنہوں نے مجھے خلافت کی دعوت کی ہے اور یہ خط ایک خراسانی شیعہ شخص کے ذریعہ یہ خط مجھ تک پہنچا ہے ۔

   امام صادق‏ عليه السلام نے اسے ایک ایسا جواب دیا کہ جس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس زمانے میں ایرانی کم سے کم عربوں کے تسلط سے رہائی چاہتے ہیں اور وہ بھی علویوں کے خالص شیعہ نہیں تھے ۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : خراسانی کس وقت تمہارے شیعہ بن گئے ؟ لیکن کیا تم نے ابو مسلم کو ان کی طرف نہیں بھیجا تھا ؟ کیا تم ان میں سے کسی کو نام اور شخص و صورت سے جانتے ہو ؟ وہ لوگ کس طرح تمہارے شیعہ ہو گئے کہ نہ تو تم انہیں جانتے ہو اور نہ ہی وہ تجھے جانتے ہیں ۔

  یہ امير المؤمنين على‏ عليه السلام کے خاندان کے بزرگوں میں ایک بزرگ نے بات کہی تھی اور وہ جانتے تھے کہ وہ تشیع کے مدعی کس حد تک تکیہ کر سکتے ہیں ۔ اگرچہ عبد اللَّه محض نے اس جئ پیشکش کو قبول نہ کیا اور اس سے پہلے ابو سلمہ کا خط امام صادق علیہ السلام تک پہنچا لیکن آپ نے اس پر توجہ نہ کی ۔ عمر بن زین العابدین نے بھی ابو سلمہ کا خط لیا اور کہا : میں اس خط کے لکھنے والے کو نہیں جانتا کہ جو میں اس کا جواب دوں۔

   یہاں سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ اس زمانے میں علویوں کے پاس زیادہ قوت و طاقت نہیں تھی کہ جس کے ذریعہ خلافت حاصل کی جا سکے لہذا وہ انتظار کرنے پر مجبور تھے تا کہ صورت حال مناسب ہو جائے اور وہ خلافت تک پہنچ سکیں ۔ علویوں کی خاموشی کی یہ وجہ تھی کہ جب منصور اس سازش سے آگاہ ہوا تو اس نے ابو سلمہ کو قتل کے لئے کمر کس لی تا کہ اسے راستے سے ہٹا دے ۔

   مؤرخین کے بقول جب سفاح کو خلافت ملی تو اس نے اپنی دلچسپی کے برخلاف ابو سلمہ کو وزارت دے دی اور اسے وزیر آل محمد کا نام دیا ۔ کیونکہ انہیں خراسانیوں کے نزدیک بہت زیادہ محبوبیت حاصل تھی اور عباسی حکومت کے لئے خراسانی قوت و طاقت کا سرچشمہ تھے ۔ یہ اس کام کے لئے سفاح کوئی اچھی نیت نہیں رکھتا تھا اور اس کے دل میں ابو سلمہ کے لئے بغض اور کینہ تھا لیکن وہ اس بات سے بھی ڈرتا تھا کہ اگر اس نے اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو کہیں حکومتی امور میں کوئی خلل واقع نہ ہو جائے اور کہیں خراسانی اس کے خون کا بدلہ لینے کے لئے کھڑے نہ ہو جائیں ۔ لیکن اس نے اپنی کوشش جاری رکھی اور ابو مسلم کے ذریعہ اپنے مقصد تک پہنچا اور اس نے اسے خط لکھا کہ ابو سلمہ چاہتا ہے کہ خلاف کو علویوں کی طرف منتقل کر دے اور اس نے اس کام کے لئے ابو مسلم کا انتخاب کیا۔ گویا یہ اس خط میں قتل کا حکم تھا لہذا ابو مسلم نے خراسانیوں کے ایک گروی کو بھیجا تا کہ اسے قتل کر دیں اور سفاح اس خطرے سے بچ جائے اور اسی طرح ابو مسلم بھی اپنے طاقتور رقیب سے چھٹکارہ پا جائے ، لیکن اس نے اپنے قتل کی راہ بھی ہموار کر دی کیونکہ ابو سلمہ کو قتل کرنے کے بعد سفاح اسے بھی قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن موت نے اسے امان نہ دی ۔

   ابو سلمہ کی موت سے ایرانیوں کی علویوں سے دلچسپی اور رغبت کم نہ ہوئی اور ایران کے لوگ علویوں میں سے ہر اس شخص کی تائید کرتے کہ جو عباسیوں کے خلاف قیام کرنے کی کوشش کرتا ، جیسا کہ جعفر برمكى نے ہارون کے زمانے میں يحيى بن عبد اللَّه علوى کو عباسیوں کے خلاف اقدام کرنے پر قید کر دیا اور ایک قول کے مطابق اسی بدگمانی نے ہارون کو تحریک کیا اور برمک خاندان کے سقوط اور زوال کی راہ ہموار ہو گئی ۔ ایرانیوں میں سے ایک نامور شخص فضل بن سہل کی خراسان میں یہ کوشش تھی کہ خلافت عباسیوں سے علویوں کی طرف منتقل ہو جائے کہ جس کی وجہ سے مأمون نے مجبور ہو گیا کہ وہ حضرت امام رضا علیہ السلام کو ولی عہد بنا دے اور وہ عباسیوں کے سیاہ لباس کے بجائے علویوں کے سبز لباس کو حکومت میں رائج کرے ۔

عباسی ؛ عربوں اور ایران کے درمیان

   ہم نے اس سے پہلے بھی یہ ذکر کیا کہ عباسیوں نے اپنی حکومت کے آغاز میں ہی امویوں سے خونی انتقام لیا اور ایرانی ؛ عباسی حکومت میں اپنے کم نظیر اثر و رسوخ اور نفوذ سے قانع نہیں تھے اور ان کے دل علویوں کے ساتھ دھڑکتے تھے اور دوسری طرف سے عرب بھی ایرانیوں کے اس اثر و رسوخ اور نفوذ سے خوش نہیں تھے ۔ اس بناء پر ناراض عربوں ( کہ جن کا پیشوا اس کا چچا عبد اللہ بن علی تھا ) اور ناراض ایرانیوں ( کہ جن کا رہبر اور علمدار ابو مسلم تھا ) کے درمیان منصور کو ایک دقیق صورت حال کا سامنا تھا ۔ علویوں نے بھی محمد کہ جو نفس زکیہ کے لقب سے ملقب تھے اور ان کے بھائی ابراہیم کی پیشوائی میں عراق میں قیام کیا تھا اور وہ اپنے لئے خلافت کے طلبگار تھے ۔ (2256)


2256) تاريخ سياسى اسلام (ڈاکٹر حسن ابراہيم ‏حسن) : 99/2.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

 

دورو ڪريو : 1137
اج جا مهمان : 60083
ڪالھ جا مهمان : 296909
ڪل مهمان : 149005596
ڪل مهمان : 102635706