امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
(۲) چند ہزار سوالات کے جواب

(۲)

چند ہزار سوالات کے جواب

اطراف کے شيعيوں میں سے ایک گروہ نے حضرت تقی عليه السلام سے آپ کی خدمت میں آنے کی اجازه طلب کی۔ امام عليه السلام نے انہیں اجازت عنائت کی۔ وہ آئے اور ایک ہی مجلس میں آپ سے تیس ہزار سوال پوچھے۔ جب کہ امام تقی عليه السلام اس وقت دس سال کے تھے اور آپ نے سب سوالوں کے جواب دیئے۔(11)

علاّمه مجلسى ‏رحمه الله كتاب «بحار الأنوار» میں اس حدیث شریف کے ذیل میں فرماتے ہیں:

ممكن ہے کہ یہ اشکال کیا جائے کہ اگر ہر مسئلہ کے متعلق سوال و جواب ایک سطر یعنی پچاس حروف پر مشتمل ہو تو ان تمام سوالات کے جوابات کے لئے تین قرآن ختم کرنے کی مدت سے زیادہ وقت درکار ہے۔ پس کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی مجلس میں یہ کام انجام پایا ہو؟ اور اگر کہا جائے کہ ان مسائل میں زیادہ تر امام تقی عليه السلام کا جواب «ہاں» اور  «نہ» میں تھا یا معجزانہ طور پر یہ سریع ترین وقت میں انجام پایا تو سوال کے بارے میں یہ چیز ممکن نہیں ہے۔

پھر علامہ مجلسی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس اشکال کا چند طرح سے جواب دے سکتے ہیں:

1 – یہ جو کہا جاتا ہے کہ تیس ہزار سوالات کے جوابار دیئے، ممکن ہے کہ یہ کثرت کی طرف اشارہ ہو نہ کہ انہوں نے واقعاً سوالات کو شمار کیا ہو کیونکہ ایسے مسائل کو شمار کرنا بعید ہے۔

2 – ممکن ہے کہ اس گروہ کے ذہن میں بہت سے سوال ایک جیسے ہی ہوں اور امام عليه السلام نے ایک سوال کے جواب سے بقیہ سوالات کے جوابات بھی دے دیئے ہوں۔

3 - ممكن ہے کہ امام عليه السلام مختصر كلمات بیان فرماتے ہیوں لیکن ان سے بہت سے احکام کا استنباط کر لیتے ہوں کہ یہ جواب پسندیدہ ہے۔(22)

4 – ایک مجلس (یعنی وحدت مجلس) سے مراد وحدت نوعى نہیں ہے کہ ایک ہی مجلس ہو بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ یہ کام مختلف مجالس میں انجام پایا لیکن ان تمام مجالس کی نوعیت ترتیب، تنظیم اور افراد کے لحاظ سے ایک جیسی ہی تھی۔ یا اس سے یہ مراد ہے کہ مجلس ایک مقام میں ہی واقع ہوئی جیسے منی میں واقع ہوئی۔ اگرچہ مختلف دنوں میں اس ایک مقام پر چند مجالس واقع ہوئی ہوں۔

5 - ممكن ہے کہ زمانے کو وسعت دے دی ہو جیسا کہ صوفیہ قائل ہیں يعنى ‏امام عليه السلام نے زمان میں تصرف کیا ہوا اور اسے وسعت دے دی ہو۔

6 – یہ کہ امام علیہ السلام کا معجزہ صرف اپنے جواب کی سرعت تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ کے معجزہ نے اس گروہ کے کلام پر بھی اثر کیا۔ یا یہ کہ امام علیہ السلام نے انہیں جو جواب دیئے ہیں وہ اپنے علم سے ان کے باطن کو جانتے ہوئے ہیں، قبل اس کے کہ وہ گروہ اپنے سوالات کو بیان کرتا۔

7 – یہ کہ ان کے سوال سے مراد خطوط اور طولانی تحریریں تھی کہ جو ایک دوسرے سے ملحق تھیں اور امام عليه السلام نے غير عادى طور پر ان کے جواب ان کے نیچے لکھ دیئے تھے۔

یہاں علاّمه مجلسى ‏رحمه الله کا کلام اپنے اختتام کو پہنچا۔ خداوند ان کے مقام و مرتبہ کو بلند فرمائے۔(33)

مؤلّف ‏رحمه الله کہتے ہیں: مجلسى رحمه الله نے جو اشکال بیان کیا ہے اور اس کے مذکورہ سات جواب دیئے ہیں۔ انہوں نے اس مسئلہ کو اس طرح فرض کیا ہے کہ ہر سوال اور جواب ایک سطر پر مبنی ہو لیکن ہم جانتے ہیں اکثر سوالات و جوابات آدھی سطر اور بیس حروف سے بھی زیادہ نہیں تھے؛ مثلاً یہ سوال پوچھا جائے کہ «قاف» کیا ہے؟ جواب دیں: ایک پہاڑ ہے کہ جس نے دنیا کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اور سوال کیا جائے کہ «صاد» کیا ہے؟ جواب دیں: عرش پر ایک چشمہ ہے۔ اور سوال ہو کہ «اسم» کیا ہے؟ جواب دیں: موصوف کو بیان کرنے کے لئے ایک صفت ہے۔

سؤال ہو : کيا جوتے پر مسح کرنا جائز ہے؟ جواب دیں: نہیں۔ سوال ہو: نماز میت میں کتنی تکبیریں کہنی چاہئیں؟ جواب دیں: پانچ تکبیریں۔

سوال ہو کہ کیا نماز میں قرائت واجب ہے؟ جواب دیں: جی ہاں۔اور اس جیسے دوسرے سوال کہ جو بہت زیادہ ہیں۔ اگر ایسا ہو تو تمام سوالات اور جوابات کے لئے جتنا وقت درکار ہوے وہ ایک ختم قرآن کی مدت کے برابر بھی نہیں ہے اورتجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر قرآن کو آرام سے پڑھا جائے تو ایک پارہ کی تلاوت کرنے کے لئے بیس منٹ سے زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا۔ اس صورت میں ایک ختم قرآن کے لئے دس گھنٹوں کی ضرورت ہے۔ پس اس سب زحمت کی ضرورت نہیں ہے کہ اس اشکال کو برطرف کرنے کے لئے مختلف جوابات دیئے جائیں۔

نیز اس سے قطع نظر معجزہ کا باب بہت وسیع ہے اور امام عليه السلام معجزہ اور خدا کی عطا کردہ قدرت سے اس طرح کے امور کو آسانی سے انجام دے سکتے ہیں۔ معجزہ کے مقابلہ میں اس طرح کے اشکال کسی طرح بھی ٹھہر نہیں سکتے۔


(1) الكافى : 496/1 ح7،كشف الغمّة: 364/2،مناقب ابن شهراشوب: 384/4،بحار الأنوار :93/50 ذيل ح 6 ۔

(2) اسی کی مانند امام صادق عليه السلام نے عبد الأعلى سے فرمایا: جب آنحضرت سے وضو کے بارے میں پوچھا گیا کہ جب انگلی زخمی ہو اور اس پر پٹی بندھی ہو۔

امام عليه السلام نے فرمایا : اس مورد اور اس جیسے دوسرے موارد کا جواب کتاب خدا سے سمجھا جا سکتا ہے کہ خدا نے فرمایا: «ما جَعَلَ عَلَيْكُم‏ في الدينِ مِنْ حَرَج» يعنى دين میں حرج، سختی اور زحمت میں پڑنا قرار نہیں دیا گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: اسی پر ہاتھ پھیرو۔

 (3) بحار الأنوار : 93/50 ذيل ح 6 .

 

منبع: فضائل اهلبيت عليهم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ:ج 1 ص 649

 

 

بازدید : 1022
بازديد امروز : 68405
بازديد ديروز : 296909
بازديد کل : 149022195
بازديد کل : 102668974