Imam Shadiq As: seandainya Zaman itu aku alami maka seluruh hari dalam hidupku akan berkhidmat kepadanya (Imam Mahdi As
(9) امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے محمّد بن ابى بكر اور مصر کے لوگوں سے مواعظ

(9)

امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے محمّد بن ابى بكر

اور مصر کے لوگوں سے مواعظ

   حضرت اميرالمؤمنين على‏ عليه السلام نے محمّد بن ابى بكر اور مصر کے لوگوں کے لئے خط لکھا اور انہیں وعظ و نصیحت فرمائی اور فرمایا:

اے لوگو! تمہیں تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں اور کل تم سے جن اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا ان کی انجام دہی میں کوتاہی نہ کرو۔ تم لوگ اپنے اعمال کے پابند ہو اور اسی کے مطابق رواں دواں ہو اور ایک دن وہاں تک پہنچ جاؤ گے۔

خداوند متعال فرماتا ہے: «ہر نفس اپنے اعمال میں گرفتار ہے »(2028).

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: «اور خداوند تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اور تم سب اس کی طرف رواں دواں ہو اور بالآخر اس تک پہنچ جاؤ گے »(2029).

ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے: «لہذا آپ کے پروردگار کی قسم ! ہم اس بارے میں ضرور سوال کریں گے  اور تم جو کچھ کیا کرتے تھے(اس بارے میں بھی سوال کریں گے) »(2030).

اے بندگان خدا! جان لو کہ خداوند تم سے تمہارے ہر چھوٹے بڑے عمل کے بارے میں پوچھے گا اور اگر وہ عذاب دے تو ہم نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور اگر وہ ہمیں بخش دے تو وہ ارحم الراحمین ہے۔ جان لو کہ بندوں کے نزدیک ترین حالات وہ ہیں کہ جب وہ خدا کی اطاعت میں مشغول ہو اور اس وقت اس پر رحمت و مغفرت کا سایہ ہوتا ہے اور یا وہ وقت کہ جب انسان خدا کی طرف واپس پلٹے۔

اب خدا سے ڈرو، تقویٰ تمام نیکیوں کو جمع کرتا ہے اور اس کی مانند کوئی چیز نہیں ہے اور تقویٰ کے ذریعہ ہر نیکی تک پہنچا جا سکتا ہے اور پرہیزگاری سے دنیا و آخرت کی خیر حاصل کی جا سکتی ہے۔ خداوند فرماتا ہے: «وَقيلَ لِلَّذينَ اتَّقَوْا ماذاأَنزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا خَيْراً لِلَّذينَ أَحْسَنُوا فى هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دارُ الْمُتَّقينَ»(2031).

اے بندگان الٰہی! جان لو کہ مؤمن کے کاموں کے تین مقصد ہو سکتے ہیں: یا وہ دنیا کی خیر کے لئے کام کرتا ہے کہ خداوند اس کی خیر کے مقابلہ میں اسے اجر و پاداش عطا کرتا ہے اور قرآن مجید میں فرماتا ہے:«ہم نے دنیا میں اسے اس کا اجر دے دیا  اور وہ آخرت میں شائستہ لوگوں میں شمار ہو گا  اور جو کوئی بھی خدا کے لئے کام کرے  خداوند اسے دنیا و آخرت میں پاداش دے گا  اور جودونوں جہانوں میں اس کے لئے کفایت کرے گا ».

قرآن مجید میں فرمایا: «اے ايمان لانے والو! خدا سے ڈرو، جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک کام کئے، انہیں اسی دنیا میں نیکی ملے گی  اور خدا کی زمین وسیع ہو گی اور جو صبر کریں انہیں حساب کے بغیر اپنا اجر ملے گا».

جن لوگوں پر دنیا میں خدا کا لطف ہوا ہے اور ان کے حصہ میں عطیہ الٰہی آیا ہے۔ خداوند انہیں آخرت میں حساب نہیں کرے گا۔ نیز فرمایا:جنہوں نے نیک کام کئے ،وہ نیکی تک پہنچیں گے اور انہیں اس سے زیادہ اجر بھی ملے گا۔ نیکی سے مراد بہشت ہے اور زیادہ سے مراد دنیا ہے یعنی آخرت کے علاوہ دنیا سے بھی بہرہ مند ہوں گے۔

مؤمن کا نیک کاموں کو انجام دینے کا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آخرت کی خیر تک پہنچ جائے ۔ جو آخرت کے لئے کوئی نیک کام انجام دے خدا وند اس کی ہر نیکی کے مقابلہ میں اس کے ایک گناہ کو بھی مٹا دیتا ہے اور فرماتا ہے: نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ جو لوگ اہل وعظ و نصیحت ہیں انہیں اس طرح کی آیات سے نصیحت حاصل کرنی چاہئے اور انہیں اپنے اعمال کی جانب متوجہ رہنا چاہئے۔

جب قیامت کا دن برپا ہو گا تو لوگوں کی نیکیوں کا کوئی حساب نہیں ہو گا اور انہوں نے جو بھی نیک کام کیا ہو گا اس کے مقابلہ میں دس گنا اجر دیا جائے گا اور اسی طرح سات سو گنا زیادہ اجر دیا جائے گا۔ یہ وہی امر ہے کہ جس کے بارے میں خدا نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: خداوند انہیں اجر وپاداش عطا کرے گا ۔

دوسرے مقام پر فرمایا:انہیں کئی گنا زیادہ اجر دیا جائے گا اور ان کے لئے آسائش کا مقام ہو گا۔

اے خدا کے بندو! اب نیک کام میں جلدی کرو اور اس کی انجام دہی میں شوق اور رغبت دکھاؤ اور صالح عمل کرو اور اس سےبہرہ مند ہو۔

اے بندگان خدا! پرہیزگار مؤمنین نے دنیا و آخرت میں کار خیر انجام دیئے اور سب کو دنیا کے نیک کاموں کا ثمر ملا  اور وہ آخرت میں بھی اسی سے مستفید ہوں گے۔

وہ اہل دنیا کے ساتھ کار خیر میں شریک ہیں حالانکہ اہل دنیا اپنی آخرت میں کسی طرح بھی ان کے ساتھ شریک نہیں ہیں۔ خداوند متعال فرماتا ہے«کہو اے محمّد! کس نے ان نعمتوں کو حرام کیا کہ جنہیں خداوند نے اپنی مخلوق کے لئے حلال فرمایا تھا اور کس نے پاک و پاکیزہ روزی کو حرام کیا۔ کہو کہ یہ نعمتیں ان لوگوں کے لئے ہیں کہ جو دنیا میں ایمان لائے اور روز قیامت بھی اس ے بہرہ مند ہوں گے۔ ہم اہل علم اور حقائق تک پہنچنے والوں کے لئے اپنی آیات کو بیان کریں گے».

وہ بہترین طریقہ سے دنیا میں رہے اور انہوں نے پاک طعام اور غذائیں کھائیں۔ اہل دنیا کے ساتھ شریک ہوئے اور انہوں نے وہ بہترین غذائیں بھی کھائیں جو اہل دنیا کھاتے تھے اور وہ بہترین مشروبات پیئے جو اہل دنیا پیتے تھے اور انہوں نے بہترین عورتوں سے شادی کی اور بہترین سواریوں پر سوار ہوئے۔

وہ اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی لذت تک پہنچے اور کل رحمت حق کے جوار میں قرار پائیں گے اور وہ خدا سے جو کچھ چاہیں اور جس چیز کی آرزو کریں، پروردگار انہیں وہی عطا کرے گا اور ان کی دعاؤں کو رد نہیں کرے گا اور کی نعمتوں میں کمی نہیں کرے گا۔ پس اب صاحبان عقل ان امور کو انجام دینے کے مشتاق رہیں اور خداوند متعال سے قوت و توانائی طلب کریں کیونکہ قوت و طاقت اسی کی جانب سے ہے۔

اے بندگان خدا! جان لو کہ اگر تم خدا سے ڈرو اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاطر اہلبیت اطہار علیہم السلام کے حقوق کا خیال رکھو  تو تم نے بہترین طریقہ سے خدا کی عبادت کی اور بہترین طریقہ سے اس کا ذکر انجام دیا اور بہترین طریقہ سے خدا کا شکر بجا لائے اور سب سے اعلٰی صبر اختیار کیا اور جہاد کی بہترین قسم سے جہاد کیا۔

اگر وہاں کوئی ایسے لوگ ہوں جن کی نماز تم سے زیادہ طولانی ہو یا تم سے زیادہ روزہ رکھیں لیکن چونکہ تم زیادہ متقی ہو اور خدا سے زیادہ ڈرتے ہو اور محبان‏ آل محمّد کو نصيحت کرتے ہو اور کاموں میں والیان امر آل محمّد کی راهنمائى‏ کرتے ہو اور سب سے زیادہ خاشع ہو۔

اے خدا کے بندو! موت سے ڈرو اور اس کے لئے اسباب و وسائل ، زاد راہ اور توشہ فراہم کرو۔ موت تمہیں سختی کی جانب لے جائے گی اور تمہیں بزرگ حوادث کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ موت کے بعد یا خیر ہے کہ جس کے ہمراہ کوئی شرّ نہیں ہے اور یا شرّ ہے کہ جس کے ساتھ کوئی خیر نہیں ہے۔ خیر پر عمل کرنے والوں سے بڑھ کر کون جنت سے نزدیک ہو سکتا ہے اور شر پر عمل کرنے والوں سے بڑھ کر کون جہنم سے قریب ہو سکتا ہے؟

جس کے بدن سے روح خارج ہو وہ یہ جانتا ہے کہ ان دو منزلوں میں سے کہاں جائے گا ،وہ یا جنت میں داخل ہو گا یا اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا، وہ یا خدا کا دشمن ہے یا وہ خدا کا دوست ہے اور اگر وہ خدا کا دوست ہے تو اس پر جنت کے دروازے کھل جائیں گے اور وہ اس جگہ پہنچ جائے گا اور خدا نے اس کے لئے جو کچھ معین کیا ہے وہ اسے مل جائے گا اور وہ ہر کام سے آسودہ ہو جائے گا اور اس کے کندھوں سے بوجھ اٹھا لیا جائے گا۔

لیکن اگر وہ خدا کا دشمن شمار ہو تو اس کے لئے جہنم کے دروازے کھل جائیں گے اور اور اس کے لئے راہیں کھل جائیں گی اور اس کے لئے مہیا کیا گیا ہے وہ اس کا مشاہدہ کرے گا اور اس کے لئے پریشانیاں پیدا ہوں گی اور اس کے لئے خوشحالی نہیں ہے ، اور وہ یہ سب موت کے وقت دیکھے گا اور اسے ان سب کا یقین ہو جائے گا۔

خداوند متعال قرآن مجيد مىں ‏فرماتا ہے: «جو لوگ پاک ہیں اور جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں: تم پر سلام ہو؛ اب جنت میں داخل ہو جائیں اور اعمال کا نتیجہ دیکھیں۔ لیکن جو لوگ ظالم ہیں اور جنہوں نے خود پر ظلم کیا وہ لوگ فرشتوں سے کہیں گے: ہم نے کوئی برا کام نہیں کیا۔

فرشتے ان کے جواب میں کہیں گے: ہاں! خداوند جانتا ہے کہ تم نے کیا کام کئے ہیں اور اب جہنم کے دروازوں سے وارد ہو جاؤ  اور ہمیشہ وہیں رہو، جہنم ایک برا ٹھکانہ ہے جو خود خواہوں اور متکبرین کے لئے ہے».

اے خدا کے بندو!موت سب پر آئے گی اور اس سے فرار نہیں کیا جا سکتا، اب موت سے ڈرو اس سے پہلے کہ تم تک پہنچ جائے۔ خود کو موت کے لئے تیار کرو کہ موت تمہیں گھروں سے دور کر دے گی ۔ اب نیک کاموں کو انجام دینے کی کوشش کرو اور اگر تم موت کے سامنے کھڑے ہو جاؤن تو وہ تم تک پہنچ جائے گی اور اگر اس سے بھاگو گے تو پھر بھی تم تک پہنچ جائے گی۔

وہ تم سے سائے سے بھی زیادہ نزدیک ہے اور وہ ہرگز تمہیں نہیں چھوڑے گی، تمہاری پیشانی میں موت لکھی ہوئی ہے اور تمہارے بعد دنیا پیچیدہ ہو جائے گی اور کوئی تمہارے بارے میں بات نہیں کرے گا اور تمہاری زندگی کا کھاتہ بند ہو جائے گا ، موت کو زیادہ یاد کرو اور جب نفس تمہیں شہوتوں کی طرف مائل کرے، اپنی موت ایک موعظہ ہے جو انسانوں کے لئے کافی ہے۔

رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم اپنے صحابیوں کو بہت زیادہ نصیحت کرتے تھے اور انہیں موت سے ڈراتے تھے اور فرماتے تھے: موت کو زیادہ یاد کرو ، موت لذتوں اور خوشیوں کو ختم کر دیتی ہے اور وہ تمہارے اور تمہاری خواہشات کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔

اے بندگان خدا! موت کے بعد کے حوادث خود موت سے زیادہ سخت ہیں اور اگر خدا کی رحمت و مغفرت کسی کے شامل حال نہ ہو تو وہ مشکل اور مشقت میں گرفتار ہو جائے گا اور اسے عذاب دیا جائے گا۔ قبر کی تاریکی،تنہائی اور فشار سے ڈرو ۔ قبر ہر دن بات کرتی ہے اور لوگوں کو انہیں اپنی حالت کی خبر دیتی ہے۔

وہ کہتی ہے: میں تنہائی اور مٹی کا گھر ہوں، میں حشرات کی جگہ ہوں، قبر ا بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گھڑوں میں سے ایک گھڑا ہے۔ جب بھی کوئی مسلمان زمین میں دفن ہوتا ہے تو زمین اسے خوش آمدید کہتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ جب تم مجھ پر چلتے تھے تو میں تمہیں دوست رکھتی تھی اور اب جب تم مجھ میں آئے ہو تو تمہیں چتہ چلے گا کہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گی۔

اور پھر زمیں اس طرح سے اسے فشار دی کہ اس کی ریڑھ کی ہڈیاں ایک دوسرے میں دھنس جائیں گی اور جان لو کہ «إِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً»(2032) کے معنی و تفسیر عذاب قبر ہے.

جب کافر کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس پر ننانوے سانپ مسلط کر دیئے جاتے ہیں جو اسے کاٹتے ہیں اور اسے ڈستے ہیں کہ جب تک وہ مبعوث نہ ہو اور وہ ایسے سانپ ہیں کہ اگر وہ زمین پر آئے تو اس زمین پر کبھی کوئی گھاس نہ اگے۔

اے خدا کے بندو! جان لو کہ تمہاری جان اور بدن بہت نازک اور کمزور ہے اور تم مختلف عذاب کے مقابلہ میں مقاومت نہیں کر سکے گا۔ اگر تم میں توانائی ہے تو خود پر رحم کرو اور اپنی جان اور بدن کی حفاظت کرو، تم میں اس عذاب پر صبر کرنے کی طاقت و توانائی نہیں ہے۔ اب خدا جو پسند کرتا ہے اس پر عمل کرو  اور جو وہ پسند نہیں کرتا اسے سے گریز کرو۔

اے بندگان خدا! قبر کے بعد کے ایّام قبر کے دنوں سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ جس دن بچہ بوڑھے ہو جائیں گے اور بوڑھے بے ہوش اور سرگرداں ہوں گے، حمل ساقط ہو جائیں گے، دودھ پلانے والی مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے سے غافل ہوں گی، اس دن سے ڈرو کہ جو لوگوں کے لئے سخت ہو گا۔

اس دن سے ڈرو کہ جس کا شر ہر جگہ پھیل جائے گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ اس دن کا شر اس قدر ہے کہ جس سے فرشتہ بھی ڈرتے ہیں جب کہ وہ کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے۔اس دن سات آسمان، پہاڑ، وسیع و عریض زمین بھی مضطرب ہو گی اور آسمان دوسرے سے الگ ہو جائیں گے۔

اس دن آسمان متغیر ہو جائیں گے اور  تیل کی طرح  بہیں گے اور سرخ ہو جائیں گے، پہاڑ سراب کی صورت میں حرکت کریں گے اگرچہ وہ سخت، محکم اور استوار تھے۔ خداوند  متعال فرماتا ہے: «جب صور پھونکی جائے گی تو زمین و آسمان میں موجود ہر چیز مدہوش ہو جائے گی مگر جن پر خدا کا لطف و کرم ہو ».

پس اب خدا کی نافرمانی کرنے والے کیا کریں گے کہ جو کانوں، آنکھوں، زبان، ہاتھ، اور پاؤں اور شکم سے گناہ کرتے ہیں کہ جب ان کا پروردگار ان پر رحم نہ کرے اور ان پر اپنا لطف و کرم اور عنائت نہ کرے؟

اے لوگو! جان لو کہ اس دن کے بعد بھی اور بھی زیادہ سخت دن ہیں اور جو لوگ اس دن تک بخش نہ دیئے جائیں وہ جہنم کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔ حکم دیا جائے گا کہ انہیں ایسی آگ میں رکھا جائے جو بہت گہری اور گرم ہے اور وہ لوگ ہمیشہ جہنم میں عذاب میں گرفتار رہیں گے۔

انہیں گرم اور ابلتا ہوا پانی پینے کے لئے دیا جائے گا اور ان کی پیشانی پر آہنی گرز مارے جائیں گے، ان کے عذاب کو ہزگز ختم نہیں کیا جائے گا اور جہم میں رہنے والوں کو موت نہیں آئے گی، وہاں خدا کی رحمت کی کوئی خبر نہیں ہے اور وہاں نہ تو کسی کی دعا سنی جائے گی اور نہ دعا قبول ہو گی۔

اے بندگان خداوند!ان سب کے باوجود خدا کی وسیع رحمت ہرجگہ سایہ فگن ہے اور جس میں سب بندہ شامل ہیں۔ خدا نے  جو بہشت خلق کی ہے وہ زمین و آسمان سے زیادہ وسیع ہے اور وہ بہت پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

جنت میں جو کچھ ہے وہ خیر ہے اور اس میں شرّ نہیں ہے۔ وہاں ہمیشہ آرزوئیں موجود ہیں اور جس کی جو آرزو ہو وہ پوری ہو گی ۔ جنت کی لذتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی اور جنت میں اکٹھے ہونے والے کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔  خدا سے اجر و پاداش پانے والوں کے لئے جوان خادم طلائی جام لے کر پذیرائی کریں گے۔ جنت میں مختلف پھل  اور رنگ برنگے پھول ہوں گے۔

اس وقت ایک شخص نے سوال کیا: یا رسول اللہ! مجھے گھوڑے پسند ہیں کیا جنت میں گھوڑے بھی ہوں گے؟

فرمایا:ہاں! اس کی قسم کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ وہاں سرخ یاقوت کے گھوڑے ہوں گے  اور جو بھی ان پر سوار ہوں گے وہ جنت کے درختوں اور پتوں میں سیر کریں گے۔

ایک شخص نے کہا: يا رسول اللَّه!مجھے اچھی آواز پسند ہے کیا جنت میں اچھی آواز بھی ہے؟

فرمایا:ہاں! اس کی قسم کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ خداوند حکم دے گا کہ جو کوئی بھی اچھی آواز سننا پسند کرتا ہے  وہ وہاں کے درختوں کی آواز سنے اور ان درختوں سے ایسے ذکر کی آواز سنائی دے گی کہ کانوں نے اس سے اچھی آواز نہیں سنی ہو گی۔

ایک اور شخص نے عرض کیا: يا رسول اللَّه! مجھے اونٹ پسند ہیں کیا جنت میں اونٹ ہوں گے؟

فرمایا: ہاں! اس کی قسم کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ وہاں سرض یاقوت کے نجیب اونٹ ہوں گے کہ جن کی پالان بھی سرخ یاقوت کی ہو گی اور ان پر  دیبا کے کپڑے ہوں گے۔ لوگ ان پر سوار ہوں گے اور سرعت سے جنت میں سیر کریں گے۔

وہاں ایسے چہروں کے مالک مرد اور عورتیں ہوں گی جو سواری پر سوار ہوں گے اور جب بھی اہل جنت ان چہروں کو دیکھیں اور وہ انہیں پسند آئیں تو وہ کہیں گے: خداوندا! ہمارے چہرے کو بھی ان کی مانند قرار دے اور جب بھی کسی عورت کے چہرے کو دیکھیں تو کہیں گے:خدایا! میری زوجہ کے چہرے کو بھی ایسا ہی بنا دے اور خدا ان کی تمنا کو پورا فرمائے گا۔

ہر جمعہ کے دن اہل جنت خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے اور وہاں ایک منبر رکھا گیا ہے جو یاقوت، زبرجد اور مشک سے بنایا گیا ہے۔ جنت کے لوگ اس منبر پر بیٹھیں گے اور پھر ان پر خدا کے انوار چمکیں گے جو ان کے چہرے کو روشن کر  دے گا اور ایسے بادل ظاہر ہوں گے جو ان پر خداوند کی نعمتوں کی بارش برسائیں گے اور انہیں لذت و سرور میں غرق کر دیں گے۔

اس کے بعد رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: جی ہاں! ان سب کے باوجود جنت میں سب سے بہترین چیز خدا کی رضائیت ہے جو ہر چیز سے بزرگتر ہے اور اگر ہمیں کوئی خوف نہ ہو اور جن چیزوں سے خدا نے ڈرایا ہے ان سے کوئی خوف نہ ہو توپھر بھی ہمیں اپنے اعمال کے نتائج سے ڈرنا چاہئے۔ہم میں ان مختلف عذاب کے سامنے صبر کی طاقت نہیں ہے اور انہیں برداشت کرنا مشکل اور سخت ہے۔

ہم جو چاہتے ہیں ہمیں وہاں تک پہنچنا چاہئے اور وہاں پہنچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، ہمیں اشتیاق ہونا چاہیئے اور اس دن کے لئے خود کو تیار کرنا چاہئے۔

اے بندگان خدا! اگر تم میں توانائی ہے کہ تم میں خوف خدا زیادہ ہو جائے اور خدا کے بارے میں تمہارا حسن ظن نیک ہو جائے تو اس راہ میں کوشش کرو اور بندے خدا کی اتنی ہی اطاعت کرتے ہیں جتنا وہ خوف خدا رکھتے ہیں۔ جو خدا کی زیادہ اطاعت کرتے ہیں وہ خدا سے زیادہ ڈرتے ہیں۔

نماز اور  وضو کا بیان:

اے محمّد! اب اپنی نماز کی طرف توجہ کرو اور دیکھو کہ کس طرح اپنی نماز بجا لاتے ہو۔ اب تم امام ہو اور تم پر لازم ہے کہ اپنی نمازوں کو کامل اور تمام ادا کرو اور اس کے ارکان کی حفاظت کرو اور اسے سبک شمار نہ کرو  اور نمازیں ان کے اوقات میں ادا کرو۔

اگر کسی گروہ کی امامت اپنے ذمہ لو  اور ان کی نمازوں میں نقص پیدا ہو تو اس کا گناہ امام کو بھی ہو گا اور انسان کی نماز سے کسی چیز کی کمی نہیں ہو گی  اور وضو  کے بغیر نماز کامل اور صحیح نہیں ہو گی: پہلے ہاتھ کو تین بار دھو اور دین مرتبہ کلی کرو اور تین مرتبہ پانی ناک میں دالو۔

پھر تین مرتبہ اپنے دائیں کو کہنیوں تک دھو اور پھر بائیں ہاتھ کو تین مرتبہ کہنیوں تک ڈھو اور اس کے بعد اپنے سر اور پاؤں کا مسح کرو۔ میں نے دیکھا کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم اسی طرح وضو کرتے تھے اور وضو نصف ایمان ہے۔

مترجم کا بیان ہے کہ یہاں کتاب «غارات» کی عبارت میں تصحيف و تحريف کی گئی ہے۔ ہم اس حدیث کو یہاں اور طریقہ سے نقل کیا ہے اور ہم نے ان چند سطروں کا نصوص اور فتویٰ کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔

نماز  ظہر  کی طرف توجہ کرو اور اسے اپنے وقت پر ادا کرو ، اور نماز ظہر کو فرصت کا وقت میسر ہونے کی وجہ سے وقت سے پہلے انجام نہ دو  یا کام کی وجہ سے اسے تأخیر سے انجام نہ دو۔

ایک شخص رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آنحضرت سے نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا۔

رسول اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: جبرئیل میرے پاس آئے اور اوقات نماز کے بارے میں مجھ سے بیان کیا کہ نماز ظہر کو زوال کے وقت پڑھو کہ جب سورج سر کے اوپر سے گزرے  اور اس کے بعد نماز عصر پڑھو کہ جب تک سورج درخشاں ہو۔  اور اس کے بعد نماز مغرب پڑھو کہ جس سورج نظروں سے پنہاں ہو جائے اور جب سورج عشاء کو سرخی اور شفق کے غروب ہونے کے وقت ادا کی۔ اور صبح کی نماز تب پڑھو کہ جب فضا تاریک تھی اور ستارے چمک رہے تھے۔

رسول اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم اس طرح نماز پڑھتے تھے۔اب جب تک تم میں قوت و توانائی ہے اس سنت معروفہ پر عمل کرو اور راہ روشن پر عمل کرو کہ گذشتگان نے اسی طرح عمل کیا اور آپ بھی آئندہ انہی سے ملحق ہوں گے۔

اس کے بعد اپنے رکوع و سجود کی طرف متوجہ رہو، سب سے زیادہ کامل نماز رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم ادا کرتے تھے اور سب سے زیادہ اس کی حدود کی حفاظت کرتے تھے اور جب رکوع میں جاتے تو تین مرتبہ «سبحان ربّي العظيم وبحمده» کہتے.

رکوع سے سر اٹھانے کے بعد «سمع اللَّه لمن حمده، أللّهمّ‏ لك الحمد ملأ السّماوات وملأ أرضك وملأ ما شئت من شي‏ء»کہتے اور اس کے بعد سجده مىں چلے جاتے اور پھر تین مرتبہ کہتے: «سبحان ربّي الأعلى وبحمده».

اے محمّد! جان لو کہ جب بھی تمہاری نماز درست ہو اور تم نے اسے اہنیت دی تو تمہارے سارے کام بھی درست ہو جائیں گے اور جو نماز کو اہمیت نہ دے اور اسے ضائع کر دے اور کے کام بھی ضائع ہو جائیں گے اور اسے اہمیت نہیں دیں گے۔ خداوند ہمیں اور تمہیں نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

خدا سے بلند ترین مقام کی آرزو کرتے ہیں کہ ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دے کہ جن سے وہ محبت کرتا ہے اور کن کے اعمال سے وہ راضی ہے۔ ہمیں اور تمہیں شکر و سپاس اور اپنی عبادت و ذکر کے ساتھ مبعوث فرمائے۔ اور ہمیں اپنے حق کی ادائیگی کی توفیق دے  اور ہمیں دنیا و آخرت میں اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں کامیاب فرمائے۔ ہمیں اور تمہیں پرہیزگاروں میں شمار کرے کہ جن کے لئے کوئی خوف  اور حزن و ملال نہیں ہے۔

وصيّت:

اے مصر کے لوگو! اگر خدا کی طرف سے تمہیں قوت و طاقت ملے تو تمہارے اعمال تمہارے اقوال کی تصدیق کریں اور تمہارا ظاہر و باطن ایک ہی ہے اور تمہارے دل اور زبان میں ہماہنگی ہونی چاہئے۔ خدا ہمیں اور تمہیں راہ ہدایت میں ثابت قدم رکھے اور تمہیں درمیانی راستہ رکھائے  اور زندگی میں میانہ روی کی طرف ہماری رہنمائی کرے۔

اے مصر کے لوگو! ہندہ کے بیٹے کی دعوت (جس نے جھوٹا دعویٰ کیا ہے) سے دوری کرو اور اس بارے میں فکر کرو اور یہ جان لو کہ ہادی امام اور گمراہ امام برابر نہیں ہیں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن برابر نہیں ہیں۔ خداوند ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دے کہ جنہیں وہ دوست رکھتا ہے اور ان کے اعمال کو قبول کرتا ہے اور ان کے اعمال سے راضی ہے۔

رسول اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: مجھے اپنی امت کے بارے میں مؤمن اور مشرک سے کوئی خوف نہیں ہے ۔ مؤمن کا ایمان اسے فساد و تباہی سے منع کرے گا اور مشرک کو خدا اس کے شرک کی وجہ سے رسوا  کرے گا  اور اسے خوار و ذلیل کرے گا البتہ میں عالم منافق اور شیریں زبان سے ڈرتا ہوں جو اپنے باطن کو آشکار نہیں کرتے اور ان کا فساد اور نیت معلوم نہیں ہو سکتی۔

رسول اكرم ‏صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: جو اپنے نیک کاموں پر خوش اور اپنے برے کاموں سے ناراحت ہو ،وہ حقیقی مؤمنین میں سے ہے۔

رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:منافق میں دوخصلیتیں جمع نہیں ہوسکتیں:اس کا چہرہ نیک اورمتقی نہیں ہوسکتا اور اس میں سنت کی درک و فہم نہیں ہوتی۔

اے محمّد! جان لو کہ دین خدا میں ورع و پرہیزگاری اور اس کے فرمان پر عمل فقہ اور شریعت کے بہترین احکام میں سے ہے۔ پروردگار اپنے شکر کی ادائیگی میں تمہاری اور ہماری مدد کرے  اور ہمیں اپنے ذکر  کی توفیق دے اور ہماری مدد کرے تا کہ اس کے اوامر و نواہی کو انجام دیں۔ خداوند سمیع و علیم ہے۔

اس کے بعد تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ آشکار اور مخفی طور پر خدا سے ڈرو اور متقی بنو  اور ہر حال میں خدا کو مد نظر رکھو۔ خداوند ہمیں اور تمہیں متقین میں سے قرار دے۔  اب میں تمہیں سات خصلتوں کی دعوت دیتا ہوں جو اسلام کے جامع احکام ہیں۔

خدا سے ڈرو اور لوگوں سےکسی طرح کا خوف نہ کھاؤ، بہترین قول وہ ہے جو عمل کے مطابق ہو، ایک ہی مسئلہ میں دو طرح کا فیصلہ نہ کرو کہ اس صورت میں تم حق نہیں دیکھ پاؤ گے، جو کچھ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے چاہتے ہو وہی عام لوگوں کے لے چاہو۔

جو کچھ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے نہیں چاہتے وہ عام لوگوں کے لئے بھی نہ چاہو۔ خدا کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے حجت و برہان فراہم کرو، اپنے زیر نظر لوگوں کی زندگی کا خیال رکھو( ان کی اصلاح کرو) حق تک پہنچنے کے لئے مشکلات سے نہ ڈرو اور خدا کی رضائیت تک پہنچنے کے لئے ملامت کرنے والوں سے نہ ڈرو۔

جو لوگ تمہارے پاس آتے ہیں اور کاموں میں تم سے مشورہ کرتے ہیں ،وہ اپنی زندگی میں مقصد تک رسائی چاہتے ہیں ان لوگوں کی خیر و سعادت کی طرف راہنمائی کرو۔ خود کو دوراور نزدیک کے مسلمانوں کے لئے اسوہ قرار دو تا کہ لوگ اپنے امور میں تمہاری پیروی کریں اور تمہاری راہ پر چلیں۔

روزه اور اعتكاف کا بیان:

اے محمّد! روزے کو اہمیت دو۔ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم ماہ رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف بجا لاتے اور دوسرے سال ماہ رمضان کے دوسرے عشرہ میں معتکف ہوتے اور تیسرے سال جنگ بدر سے واپسی پر اعتکاف کو قضا کیا۔

رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم اعتکاف میں سوئے تو خواب میں دیکھا کہ ماہ رمضان کا اخری عشرہ اور شب قدر ہے اور وہ آب و گل کے درمیان سجدہ میں مشغول ہیں اور جب آپ خواب سے بیدار ہوئے تو اسی رات گھر واپس چلے گئے اور آپ کے ساتھ موجود آپ کے تمام اصحاب بھی واپس چلے گئے۔اس  تئیسویں شب کے بعد بارش ہوئی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صبح کے وقت نماز پڑھی اور آنحضرت کے چہرے پر پھول دیکھائی دیا ۔ اس کے بعد رسول اكرم ‏صلى الله عليه وآله وسلم اپنی وفات تک ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بجا لاتے۔

پيامبر اكرم ‏صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: جو کوئی ماہ رمضان میں روزہ رکھے  اور شوال کے چھ دن بھی روزہ رکھے تو وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے پورا سال روزہ رکھے ۔ خداوند ہماری دوستی اور محبت کو پرہزگاروں اور مخلصین کی محبت و دوستی کی مانند قرار دے، تمہیں اور ہمیں بہشت رضوان میں جمع کرے اور وہاں ہمیں تخت و کرسی پر ایک دوسرے کے سامنے برادرانہ طور پر قرار دے۔

اے اهل مصر! ایک دوسرے سے نیکی کرو اور ایک دوسرے کی پشتبانی کرو اور ایک دوسرے کی مدد کرنے میں جلدی کرو اور محمد کی حمایت کرو اور اس کے ساتھ تعاون کرو اور اطاعت و فرمانبرداری میں ثابت قدم رہو تاکہ ہم اپنے پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے حوض کے کنارے اکٹھے ہوں سکیں.(2033)


2028) سوره مدّثّر، آيه 38.

2029) سوره آل عمران، آيه 28 کا کچھ حصہ.

2030) سوره حجر، آيه 92 اور 93.

2031) سوره نحل، آيه 30.

2032) سوره طه، آيه 124: «فإنّ لَه مَعيشة ضنكاً».

2033) الغارات اور اس کی شرح اعلام : 116، جلوه تاريخ در شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 202/3 کچھ فرق کے ساتھ.

 

منبع : معاویه : ج ... ص ...

 

Mengunjungi : 991
Pengunjung hari ini : 62721
Total Pengunjung : 296909
Total Pengunjung : 149010870
Total Pengunjung : 102646230