امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
امام حسین علیہ السلام کی تربت پر سجدہ کرنے کا راز

امام حسین علیہ السلام کی تربت پر سجدہ کرنے کا راز

 صاحب کتاب «موسوعۀ کربلا»  کہتے ہیں :

یہ جو فرمایا گیا ہے کہ نماز میں سجدہ کرنے  کے لئے امام  حسین علیہ السلام کی قبر مطہر یا حائر سے تربت لی جائے ؛ اس کا کیا سرّ و راز ہے ؟ اس بات سے قطع نظر کہ اس میں فضیلت ہے ، یہ مقدس ہے ، اس بات سے بھی قطع نظر کہ یہ کسی بھی دوسری خاک سے زیادہ پاک و پاکیزہ ، افضل ، اطیب ، سب سے زیادہ خالص ، اور سب سے زیادہ مقدس ہے ، ان باتوں سے بھی قطع نظر جو کہی گئی ہیں یا (اب تک ) نہیں کہی گئی ، شاید بعض روحی و روحانی وجوہات سے اس کا سرّ و راز یہ ہو کہ نمازی اپنی پنجگانہ نمازوں (جو اس کی معراج ہے) کے وقت یہ یاد کرے کہ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں اس شہید ابن شہید یعنی امام حسین علیہ السلام کے قتل ہونے کی وجہ سے اسلام اور دین پر کیا اثرات مرتب ہوئے ۔ اسلام کے دشمنوں میں سے وہ ظالم و جابر گروہ جو اپنے زمانۂ جاہلیت میں اور پھر ظاہری طور پر اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ہمیشہ اسلام اور مسلمین کے خلاف اپنی خیانت کاریوں اور مکاریوں میں مصروف رہا ۔

انہوں نے سید الشہداء حضرت حمزہ علیہ السلام سے کے قتل سے اس اپنے ظلم کا آغاز کیا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کا سکون اور چین چھین لیا ، یہاں تک کہ آپ نے ان کے جسد مطہر پر چالیس مرتبہ اور باقی شہداء پر ایک مرتبہ نماز ادا کی ۔ انہوں نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ معاویہ کی ماں ہند نے حضرت حمزہ علیہ السلام کا مبارک سینہ چاک کرکے آپ کا جگر نکالا اور اسے کھانے اور نگلنے کی کوشش کی لیکن جب وہ اسے کھانے میں  ناکام ہو گئی تو اس نے آپ کا جگر منہ سے نکال کر اس سے زینت کی غرض سے دست بند اور پازیب بنائی ؛ کیونکہ حضرت حمزہ علیہ السلام نے جنگ بدر میں اس کے باپ یعنی عتبہ کو واصل جہنم کیا تھا جو شرک و کفر کا سرکردہ تھا ۔

پھر انہوں نے سید الشہداء حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے قتل پر اس کا اختتام کیا ، یعنی یزید نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کرکے جنگ بدر کا انتقام لیا ، اس کا کفر اور اس کا جرم اس کی دادی ہند سے زیادہ شدید تھا ۔ حضرت حمزہ علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کا قتل اسلام کے دشمنوں کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کا خاتمہ کرنے کی ایک سازش تھی ؛ لیکن مسلمانوں نے شعار کے طور پر آپ  کی تربت کو اخذ کیا ، اس سے تبرک حاصل کرنے لگے، اور شفاء طلب کرنے لگے تا کہ یہ شہداء کی فضیلت ، اسلام کے یاور و انصار اور اسلام کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی جاودانگی کا اعتراف ہو ۔

جب حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے جدّ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دین کو زندہ رکھنے کے لئے شہید ہوئے تو مسلمانوں نے آپ کی تربت کو شعار قرار دیا اور وہ اس پر خدا کے لئے سجدہ  کرتے ہیں تا کہ انہیں یہ بات یاد رہے کہ اگر امام حسین علیہ السلام نہ ہوتے تو یہ نماز بھی نہ ہوتی کہ  جسےتم آج قائم کر رہے ہو ۔ جیسا کہ مرحوم شیخ عباس شرف نے اپنے دیوان میں کہا ہے:

لولا وقوفك بالطفوف          لما وقفنا بالصلاة

اگر آپ کا کربلا میں وقوف نہ ہوتا تو ہم نماز کے لئے کھڑے نہ ہوتے ۔

پس جب بھی کوئی نماز خدا کے لئے اس پاک و مطہر تربت پر سجدہ کرتا ہے تو اس شخص اور نماز کی حقیقت کے درمیان حائل ہونے والے زمین کے مشرق و مغرب میں مادی کثافتوں سے بھرپور حجاب برطرف ہو جاتے ہیں ۔ پھر اس کی نماز وہ نماز بن جاتی ہے جو مؤمن کی معراج ہے ، جس کے ذریعہ وہ پستیوں کا پردہ چاک کرکے اپنی روح کے ساتھ آسمانِ حقائق تک پرواز کرتا ہے اور بارگاہ ربوبیت مغفرت اور اس کا ثواب طلب کرتے ہوئے خدا کا تقرب حاصل کرتا ہے ۔

دور حاضر تک علم کے محکم ستونوں نے یہ نظریہ اختیار کیا ہے اور امام حسین علیہ السلام کی تربت پر سجدہ کرنے کے سرّ و راز کے بارے میں فرمایا ہے :

شاید اس کے اعلیٰ اور اہم مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ جب نمازی (سجدہ کے دوران) اپنی پیشانی اس پاک و مطہر تربت پر رکھتا ہے اور وہ منظریاد کرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے عقیدہ و مبدأ کی راہ میں کس طرح  اپنی ، اپنے اہل بیت علیہم السلام اور اپنے برگزیدہ اصحاب کی قربانی پیش کی تا کہ بتوں کو توڑ دیں ، ظلم و ستم  اور  فساد و استبداد کو نیست و نابود کر دیں ۔

چونکہ سجدہ نماز کا سب سے عظیم رکن ہے اور جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے : ’’أقرب ما يكون العبد إلى ‏ربّه حال سجوده‘‘ یعنی خدا کی نسبت سے بندہ کی سب سے بہترین حالت اس کے سجود کی حالت ہے ۔ لہذا مناسب ہے کہ جب مؤمن اس پاک تربت پر اپنی پیشانی رکھے تو ان عزیز ہستیوں کو یاد کرے جنہوں نے اس خاک پر راہ حق میں اپنے جسم و جاں قربان  کر دیئے اور ان کی ارواح مطہر ملاء اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئیں تا کہ ہم خشوع و خضوع دکھائیں اور ہمیشہ اس خاک پر سر رکھیں ، سر اٹھائیں اور اس زوال پذیر زرق برق دنیا کو حقیر شمار کریں  کہ جس طرح ان اعلیٰ مرتبہ شہداء نے دنیا کی تحقیر کی اور اسے حقیر شمار کیا ۔ 

شاید یہ وہی معنی و مقصود ہے جو روایت میں وارد ہوا ہے :’أن السجود على التربة الحسينيّة يخرق الحُجب السبع ‘‘ یعنی امام حسین علیہ السلام کی تربت پر سجدہ کرنا سات پردوں کو چاک کر دیتا ہے ۔ [1]

 


[1] ۔ موسوعة کربلا: 2 / 588 .

    بازدید : 786
    بازديد امروز : 23985
    بازديد ديروز : 72293
    بازديد کل : 129519621
    بازديد کل : 89939582