حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
زیارت عاشورا

زیارت عاشورا

 اَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا أَبَاعَبْدِاللهِ، اَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ يَابْنَ رَسُولِ اللهِ، اَلسَّلاَمُ‏ عَلَيْكَ يَابْنَ أَمِيرِالْمُؤْمِنِينَ وَابْنَ سَيِّدِ الْوَصِيِّينَ، اَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ يَابْنَ ‏فَاطِمَةَ سَيِّدَةِ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ، اَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا ثَارَ اللهِ وَابْنَ ثَارِهِ، وَالْوِتْرَ الْمَوْتُورَ، اَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ وَعَلَى الْأَرْوَاحِ الَّتِي حَلَّتْ بِفِنَائِكَ، عَلَيْكُمْ مِنِّي‏ جَمِيعاً سَلاَمُ اللهِ أَبَداً مَا بَقِيتُ وَبَقِيَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ.يَا أَبَاعَبْدِاللهِ لَقَدْ عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ، وَجَلَّتْ وَعَظُمَتِ الْمُصِيبَةُ بِكَ عَلَيْنَا وَعَلَى جَمِيعِ أَهْلِ الْإِسْلاَمِ، وَجَلَّتْ وَعَظُمَتْ مُصِيبَتُكَ فِي السَّمَاوَاتِ‏ عَلَى جَمِيعِ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ، فَلَعَنَ اللهُ اُمَّةً أَسَّسَتْ أَسَاسَ الظُّلْمِ وَالْجَوْرِ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ، وَلَعَنَ اللهُ اُمَّةً دَفَعَتْكُمْ عَنْ مَقَامِكُمْ، وَأَزَالَتْكُمْ عَنْ‏ مَرَاتِبِكُمُ الَّتي رَتَّبَكُمُ اللهُ فِيهَا، وَلَعَنَ اللهُ اُمَّةً قَتَلَتْكُمْ، وَلَعَنَ اللهُ ‏الْمُمَهِّدِينَ لَهُمْ بِالتَّمْكِينِ مِنْ قِتَالِكُمْ، بَرِئْتُ إِلَى اللهِ وَإِلَيْكُمْ مِنْهُمْ وَمِنْ ‏أَشْيَاعِهِمْ وَأَتْبَاعِهِمْ وَأَوْلِيَائِهِمْ.يَا أَبَا عَبْدِاللهِ، إِنِّي سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ، وَحَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ إِلَى يَوْمِ ‏الْقِيَامَةِ، وَلَعَنَ اللهُ آلَ زِيَادٍ وَآلَ مَرْوَانَ، وَلَعَنَ اللهُ بَنِي اُمَيَّةَ قَاطِبَةً، وَلَعَنَ اللهُ ابْنَ مَرْجَانَةَ، وَلَعَنَ اللهُ عُمَرَ بْنَ سَعْدٍ، وَلَعَنَ اللهُ شِمْراً، وَلَعَنَ ‏اللهُ اُمَّةً أَسْرَجَتْ وَأَلْجَمَتْ وَتَنَقَّبَتْ لِقِتَالِكَ.بِأَبي أَنْتَ وَاُمِّي لَقَدْ عَظُمَ مُصَابي بِكَ، فَأَسْئَلُ اللهَ الَّذِي أَكْرَمَ مَقَامَكَ، وَأَكْرَمَنِي بِكَ أَنْ يَرْزُقَنِي طَلَبَ ثَارِكَ مَعَ إِمَامٍ مَنْصُورٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ‏ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ. أَللَّهُمَّ اجْعَلْنِي عِنْدَكَ وَجِيهاً بِالْحُسَيْنِ عَلَيْهِ ‏السَّلاَمُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.يَا أَبَا عَبْدِاللهِ، إِنِّي أَتَقَرَّبُ إِلَى اللهِ وَإِلَى رَسُولِهِ وَإِلَى أَمِيرِالْمُؤْمِنِينَ‏ وَإِلَى فَاطِمَةَ وَإِلَى الْحَسَنِ وَإِلَيْكَ بِمُوَالاَتِكَ، وَبِالْبَرَائَةِ مِمَّنْ قَاتَلَكَ ‏وَنَصَبَ لَكَ الْحَرْبَ، وَبِالْبَرَائَةِ مِمَّنْ أَسَّسَ أَسَاسَ الظُّلْمِ وَالْجَوْرِ عَلَيْكُمْ، وَأَبْرَءُ إِلَى اللهِ وَإِلَى رَسُولِهِ مِمَّنْ أَسَّسَ أَسَاسَ ذَلِكَ، وَبَنى عَلَيْهِ بُنْيَانَهُ، وَجَرى فِي ظُلْمِهِ وَجَوْرِهِ عَلَيْكُمْ وَعَلَى أَشْيَاعِكُمْ.بَرِئْتُ إِلَى اللهِ وَإِلَيْكُمْ مِنْهُمْ، وَأَتَقَرَّبُ إِلَى اللهِ ثُمَّ إِلَيْكُمْ بِمُوَالاَتِكُمْ‏ وَمُوَالاَةِ وَلِيِّكُمْ، وَبِالْبَرَائَةِ مِنْ أَعْدَائِكُمْ وَالنَّاصِبِينَ لَكُمُ الْحَرْبَ، وَبِالْبَرَائَةِ مِنْ أَشْيَاعِهِمْ وَأَتْبَاعِهِمْ، إِنِّي سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ، وَحَرْبٌ لِمَنْ ‏حَارَبَكُمْ، وَوَلِيٌّ لِمَنْ وَالاَكُمْ، وَعَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاكُمْ، فَأَسْئَلُ اللهَ الَّذِي ‏أَكْرَمَنِي بِمَعْرِفَتِكُمْ وَمَعْرِفَةِ أَوْلِيَائِكُمْ، وَرَزَقَنِي الْبَرَائَةَ مِنْ أَعْدَائِكُمْ، أَنْ ‏يَجْعَلَنِي مَعَكُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَأَنْ يُثَبِّتَ لي عِنْدَكُمْ قَدَمَ صِدْقٍ فِي ‏الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.وَأَسْئَلُهُ أَنْ يُبَلِّغَنِي الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ لَكُمْ عِنْدَاللهِ، وَأَنْ يَرْزُقَنِي طَلَبَ ‏ثَارِي مَعَ إِمَامٍ مَهْدِيٍّ ظَاهِرٍ نَاطِقٍ بِالْحَقِّ مِنْكُمْ، وَأَسْئَلُ الله بِحَقِّكُمْ، وَبِالشَّأْنِ الَّذي لَكُمْ عِنْدَهُ، أَنْ يُعْطِيَنِي بِمُصَابِي بِكُمْ أَفْضَلَ مَا يُعْطِي‏ مُصَاباً بِمُصِيبَتِهِ مُصِيبَةً مَا أَعْظَمَهَا وَأَعْظَمَ رَزِيَّتَهَا فِي الْإِسْلاَمِ وَفِي‏جَمِيعِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.أَللَّهُمَّ اجْعَلْنِي في مَقَامِي هَذَا مِمَّنْ تَنَالُهُ مِنْكَ صَلَوَاتٌ وَرَحْمَةٌ وَمَغْفِرَةٌ. أَللَّهُمَّ اجْعَلْ مَحْيَايَ مَحْيَا مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمَمَاتِي مَمَاتَ‏ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ. أَللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا يَوْمٌ تَبَرَّكَتْ بِهِ بَنُواُمَيَّةَ، وَابْنُ آكِلَةِ الْأَكْبَادِ اللَّعِينُ بْنُ اللَّعِينِ عَلَى لِسَانِكَ وَلِسَانِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ، في كُلِّ مَوْطِنٍ وَمَوْقِفٍ وَقَفَ فِيهِ نَبِيُّكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ.أَللَّهُمَّ الْعَنْ أَبَاسُفْيَانَ وَمُعَاوِيَةَ وَيَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ، عَلَيْهِمْ مِنْكَ اللَّعْنَةُ أَبَدَ الْآبِدِينَ، وَهَذَا يَوْمٌ فَرِحَتْ بِهِ آلُ زِيَادٍ وَآلُ مَرْوَانَ بِقَتْلِهِمُ الْحُسَيْنَ ‏صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ. أَللَّهُمَّ فَضَاعِفْ عَلَيْهِمُ اللَّعْنَ مِنْكَ وَالْعَذَابَ الْأَلِيمَ. أَللَّهُمَّ إِنِّي أَتَقَرَّبُ إِلَيْكَ في هَذَا الْيَوْمِ، وَفي مَوْقِفِي هَذَا وَأَيَّامِ حَيَاتِي‏ بِالْبَرَائَةِ مِنْهُمْ، وَاللَّعْنَةِ عَلَيْهِمْ، وَبِالْمُوَالاَتِ لِنَبِيِّكَ وَآلِ نَبِيِّكَ، عَلَيْهِ‏ وَ علَيْهِمُ السَّلاَمُ.

اے ابا عبداللہ الحسین آپ پرسلام ہو،اے فرزندپیغمبرآپ پرسلام ہو،اے فرزندامیرالمؤمنین آپ پرسلام ہو،اے  اوصیاء کے سردار کے فرزند آپ پر سلام ہو ،آپ پر سلام ہو اے  فرزند  جناب فاطمہ جو  عالمین کی عورتوں کی سردارہیں،اے قربان خدا اور قربان خدا کے فرزند آپ پر سلام ہو اور وہ خون کہ جس کا بدلہ لیا جانا ہے ،سلام ہو آپ پر اور ان روحوں پر جو آپ کے آستانہ میں مدفون ہیں ،آپ سب پر میری طرف سے خدا کا سلام ہمیشہ جب تک میں باقی ہوں، اور رات دن باقی ہیں۔اے اباعبداللہ آپ کی مصیبت بہت بڑی ہے۔ ہمارے لئے اور تمام اہل اسلام کے لئے ،اور بہت بڑی اور بھاری ہے آپ کی مصیبت آسمان میں تمام اہل آسمان کے لئے۔پس خدا کی لعنت ہو اس گروہ پر جس نے آپ  اہل بیت پر ظلم کرنے کی بنیاد ڈالی ۔ اور خدا کی لعنت ہو اس گروہ پرجس نے آپ کو آپ کے مقام سے ہٹایا اور آپ کو آپ کے اس مرتبہ سے گرایا جو آپ کو خدا نے عطا کیا۔خدا کی لعنت ہو اس گروہ پر جس نے آپ کو قتل کیا اور خدا کی لعنت ہو  ان پر جنہوں  نے ان کو آپ کے ساتھ جنگ کرنے کی قوت فراہم کی ،میں خدا کے اور آپ کے سامنے  ان سے اور ان کے مددگاروں سے اور ان کے پیروکاروں سے اور ان کے دوستوں سے بری ہوں،اے اباعبداللہ  !آپ سے صلح کرنے والوں سے میری صلح ہے اور آپ سے جنگ کرنے والوں سے میری جنگ ہے  روز قیامت تک اور خدا لعنت کرے اولاد زیاد  اور اولاد مروان پر ،خدا ہر صورت میں بنی امیہ سے اظہار بیزاری کرے،خدا ابن مرجانہ پر لعنت کرے ، خدا لعنت کرے عمر بن سعد پر، خدا لعنت کرے شمر پر اور خدا ان پر لعنت کرے جنہوں نے زین کسی اور گھوڑوں کو لگام دی اور لوگوں کوآپ سے لڑنے کے لئے  للکارا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان! یقینا آپ کی خاطر میرا غم بڑھ گیا ہے ،پس خدا سے سوال کرتا ہوں جس نے آپ کو شان عطا کی   اور آپ کے ذریعہ سے مجھے عزت دی، یہ کہ وہ مجھے اس امام منصور کے ہمراہ آپ کے خون کا بدلہ لینے کا موقع دے   جو اہلبیت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم میں سے ہوں گے۔پروردگارا!حسین کے طفیل مجھے دنیا و آخرت میں اپنے ہاں آبرومند بنا۔ اے اباعبداللہ! بیشک میں خدا اور اس کے رسول  اورامیر المؤمنین اور جناب فاطمہ  اور حضرت حسن  کا قرب چاہتا ہوں اور آپ کا قرب آپ کی حبداری سے، اور اس سے بیزاری کے ذریعہ کہ جس نے ایسی بنیاد قائم کی  اور اس پر عمارت کھڑی کی  اور پھر آپ اور آپ کے پیروکاروں پرظلم و ستم کرنا شروع کیا  ،میں خدا اور آپ کے سامنے ان ظالموں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں  اور خدا کا قرب چاہتا ہوں  اور پھر آپ اور آپ کی دوستی اور آپ کے دوستوں سے دوستی کے ذریعہ ،اور دشمنوں اور آپ کے خلاف جنگ برپا کرنے والوں سے بیزاری کے ذریعہ  اور ان کے طرفداروں اور پیروکاروں سے بیزاری کے ذریعہ ۔ آپ سے صلح کرنے والوں سے میری صلح ہے اور آپ سے جنگ کرنے والوں سے میری جنگ ہے ،میں آپ کے دوست کا دوست اور آپ کے دشمن کا دشمن ہوں ۔پس سوال کرتا ہوں خدا سے ؛جس نے مجھے آپ اور آپ کے دوستوں کی پہچان کے ذریعہ عزت دی  اور مجھے آپ کے دشمنوں سے بیزاری کی توفیق دی کہ وہ مجھے دنیا و آخرت میں آپ کے ساتھ رکھے اور یہ کہ دنیا و آخرت میں مجھے آپ  کے حضور سچائی کے ساتھ ثابت قدم رکھے  اور اس سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے بھی خدا کے ہاں آپ کے لئے پسندیدہ مقام پر پہنچائے ۔نیز مجھے آپ  میں سے اس امام کے ساتھ آپ کے خون کا بدلہ لینا نصیب کرے  جو مدد گار رہبر اور حق بات زبان پر لانے والا ہے۔ اور خدا سے آپ کے حق کے واسطہ  اور خدا کے ہاں آپ کی اس شان کے واسطہ سوال کرتا ہوں  کہ وہ مجھے آپ کی سوگواری پر وہ بہترین اجر عطا کرے  جو اس نے آپ کے کسی سوگوار کو دیا  اور اس مصیبت پر جو بہت بڑی مصیبت ہے  اور جس کا رنج بہت زیادہ ہے  اسلام میں اور آسمانوں میں اور زمینوں میں۔ خدایا!مجھے ان افراد میں سے قرار دے  جن کو تیرا درود  و رحمت اور بخشش نصیب ہوئی ۔ خدایا! میری زندگی کو محمد و آل محمد کی زندگی جیسی قرار دے اور میری موت کو محمد و آل محمد کی موت جیسا بنا ۔ خدایا!بیشک یہ وہ دن ہے  جسے  بنی امیہ اور کلیجہ کھانے والے کا بیٹا بابرکت جانتا تھا ،جو تیری زبان سے اور تیرے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کی زبان سے لعین بن لعین ہے ، ہر اس شہر میں اور ہر اس جگہ پر  جہاں تیرے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ ٹھہرے ہیں ۔ خدایا! ابوسفیان اور  معاویہ اور یزید بن معاویہ سے اظہار برائت کر،  ایسی برائت  جو تیری طرف سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہو۔ اور یہ وہ دن ہے جس میں اولاد زیاد اور اولاد مروان کو خوشی ہوئی  جنہوں نے حسین صلوات اللہ علیہ کو قتل کیا ۔پروردگارا!تو اپنی طرف سے ان  پر لعنت اور عذاب کو دوبرابر کر دے ۔اے معبود !بیشک میں تیرا قرب چاہتا ہوں آج کے دن اس جگہ پر جہاں کھڑا ہوں  اور اپنی زندگی کے ایّام میں ان سے بیزاری کرنے کے ذریعہ  اور ان پر لعنت کرنے کے ذریعہ اور اس دوستی کے وسیلہ سے جو مجھے تیرے نبی اور تیرے نبی کی آل سے ہے ۔ تیرے نبی اور ان کی آل پر سلام ہو۔

پھر سو مرتبہ کہیں:

أَللَّهُمَّ الْعَنْ أَوَّلَ ظَالِمٍ ظَلَمَ حَقَّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَآخِرَ تَابِعٍ لَهُ عَلَى ذَلِكَ. أَللَّهُمَّ الْعَنِ الْعِصَابَةَ الَّتِي جَاهَدَتِ الْحُسَيْنَ، وَشَايَعَتْ وَبَايَعَتْ وَتَابَعَتْ عَلَى قَتْلِهِ. أَللَّهُمَّ الْعَنْهُمْ جَمِيعاً.

خدایا ! اس پہلے پر لعنت کر جس نے محمد و آل  محمد پر ظلم کیا ہے ، اور اس ظلم پر ان کا اتباع کرنے والے آخری فرد پر (لعنت کر) ۔ خدایا ! اس گروہ پر لعنت کر جس نے جنگ پر اس سے اتفاق کر لیا  اور قتل حسین پر ظالموں کی بیعت  اور پیروی کر لی ۔ خدایا ! ان سب پر لعنت کر ۔

اس کے بعد سو مرتبہ کہیں:

اَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا أَبَاعَبْدِاللهِ، وَعَلَى الْأَرْوَاحِ الَّتِي‏حَلَّتْ بِفِنَائِكَ، عَلَيْكَ مِنِّي سَلاَمُ اللهِ أَبَداً مَا بَقِيتُ وَبَقِيَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ، وَلاَ جَعَلَهُ اللهُ آخِرَ الْعَهْدِ مِنِّي لِزِيَارَتِكُمْ، اَلسَّلاَمُ عَلَى الْحُسَيْنِ وَعَلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَعَلَى أَوْلاَدِ الْحُسَيْنِ وَعَلَى أَصْحَابِ الْحُسَيْنِ.

اے اباعبداللہ آپ پر سلام ہو،سلام ہوآپ کے ان باوفااصحاب پرجنہوں نے آپ اپنی جان قربان کردی۔سلام ہوآپ پر اس  وقت تک کہ جب تک میں زندہ ہوں،سلام ہوآپ پرروزقیامت تک،خداسے میری دعاہے کہ مجھے پھرتوفیق عنایت فرمائے تا کہ میں آپ کی زیارت کے لئے دوبارہ حاضرہوسکوں۔سلام ہوحسین پر،سلام ہوعلی بن الحسین پر!سلام ہوحسین کے فرزندوں  پر، سلام ہوآپ کے اصحاب پر۔

پھر کہیں:

أَللَّهُمَّ خُصَّ أَنْتَ أَوَّلَ ظَالِمٍ بِاللَّعْنِ مِنِّي، وَابْدَأْ بِهِ أَوَّلاً ثُمَّ الْعَنِ ‏الثَّانِيَ وَالثَّالِثَ وَالرَّابِعَ. أَللَّهُمَّ الْعَنْ يَزِيدَ خَامِساً، وَالْعَنْ عُبَيْدَاللهِ بْنَ ‏زِيَادٍ وَابْنَ مَرْجَانَةَ وَعُمَرَ بْنَ سَعْدٍ وَشِمْراً وَآلَ أَبِي سُفْيَانَ وَآلَ زِيَادٍ وَآلَ ‏مَرْوَانَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.

خدایا !میں اس پہلے شخص پرلعنت بھیجاتاہوں جس نے محمدوآل محمدعلیہم السلام پرظلم کی ابتداکی۔خدایا!سب سے پہلے  یہ لعنت پہلے پر ،پھردوسرے،پھرتیسرے اورپھر چوتھے پرلعنت کر۔پروردگارا!یزید پر پانچویں کے عنوان سے لعنت کر۔خدایا!عبید اللہ ابن زیاد، عمربن سعداورشمر پر اور آل ابی سفیان (بنی امیہ)،آل زیاد اور آل مروان  پرروزقیامت تک لعنت کر۔

پھر سجدے میں جائیں اور کہیں:

أَللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ حَمْدَ الشَّاكِرِينَ لَكَ عَلَى مُصَابِهِمْ، اَلْحَمْدُ لِلهِ عَلَى عَظِيمِ رَزِيَّتِي. أَللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَفَاعَةَ الْحُسَيْنِ يَوْمَ ‏الْوُرُودِ، وَثَبِّتْ لي قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَكَ مَعَ الْحُسَيْنِ وَأَصْحَابِ الْحُسَيْنِ، اَلَّذِينَ بَذَلُوا مُهَجَهُمْ دُونَ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ.[1].[2]

خدایا ! تیری وہ حمد و ثناء  جو شکرگزاروں نے مصیبتوں پر  کی ہے ، حمد و ثناء خدا کے لئے ہے اس کی عظیم مصیبت پر۔  خدایا! مجھے قیامت کے دن حسین کی شفاعت عطا فرمانا ، اور مجھے ثبات قدم دینا،حسین اور اصحاب حسین کے ساتھ ، جنہوں نے حسین علیہ السلام کے سامنے اپنی جان قربان کر دی۔

 پھر دو رکعت نماز زیارت پڑھیں اور اس کے بعد کہیں :

أَللَّهُمَّ إِنِّي لَكَ صَلَّيْتُ، وَلَكَ‏ رَكَعْتُ، وَلَكَ سَجَدْتُ، وَحْدَكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ، لِأَنَّهُ لاَ يَجُوزُ الصَّلاَةُ وَالرُّكُوعُ إِلاَّ لَكَ، لِأَنَّكَ أَنْتَ اللهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ. أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَأَبْلِغْهُمْ عَنِّي أَفْضَلَ السَّلاَمِ وَالتَّحِيَّةِ، وَاُرْدُدْ عَلَيَّ مِنْهُمُ ‏السَّلاَمَ وَالتَّحِيَّةَ. أَللَّهُمَّ وَهَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ هَدِيَّةٌ مِنِّي إِلَى سَيِّدِي وَمَوْلاَيَ الْحُسَيْنِ بْنِ ‏عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ. أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَتَقَبَّلْهُمَا مِنِّي، وَأْجُرْنِي ‏عَلَيْهِمَا أَفْضَلَ أَمَلِي وَرَجَائِي فِيكَ وَفي وَلِيِّكَ، يَا وَلِيَّ الْمُؤْمِنِينَ. [3]

خدایا ! میں نے تیرے لئے ہی نماز پڑھی ، اور تیرے لئے ہی  رکوع کیا ،اور تیرے لئے ہی  سجدہ کیا ، اور تیرے سوا کوئی شریک نہیں ہے  ۔  کیونکہ تیرے سوا کسی کے لئے نماز اور رکوع جائز نہیں ہے ، کیونکہ تو خدا ہے  ، اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ خدایا ! محمد و آل  محمد پر درود بھیج ، اور میری طرف سے ان کے لئے بہت زیادہ سلام اور بہترین تحیت دے ، اور ان کا  سلام اور تحیت  ہم تک پہنچا دے ۔خدایا ! یہ دو رکعت میری طرف سے میرے مولا حسین بن علی علیہما السلام کے لئے ہدیہ ہیں ۔ خدایا ! محمد اور ان کی آل  پر درود بھیج ، اور میری طرف سے اس (نماز) کو قبول فرما ، اور اس کے بدلہ میں مجھے بہترین آرزوئیں اور امیدیں اپنے اور اپنے ولی کے بارے میں عطا فرما دے ، اے مؤمنین کے والی و وارث۔ 

علقمہ کہتے ہیں : امام باقر علیہ السلام نے فرمایا : اگر ہو سکے تو ہر دن اس زیارت سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرو ، اور اسے حتمی طور پر انجام دو تو  تمہارے لئے وہی اجر و ثواب ہے جو بیان کیا گیا ہے ۔ 

صاحب «مفتاح الجنّات» زیارت عاشورا کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : اگر تمہاری زیارت نزدیک سے ہو تو اس زیارت کے بعد دو رکعت نماز بجا لاؤ  ، اور اگر تم امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے حرم میں ہو تو اس کا ثواب امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں ہدیہ کرو ، اور اگر تم امام حسین علیه السلام کے حرم مطہر میں ہو تو اس کا ثواب امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں ہدیہ کرو ۔

سیف بن عمیرة نے سابقہ حدیث کے بعد کہا ہے :اور پھر صفوان نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے بعد وہی دعا ذکر کی جو دعا انہوں نے پڑھی تھی ۔ [4]

ہم قارئین کرام کی سہولت اور آسانی کے لئے اس فصل میں وہ دعا ذکر کرتے ہیں۔

 


[1] ۔ البلد الأمين: 382، مصباح الزائر: 269، مصباح المتهجّد: 773، المزار الكبير: 480، كامل الزيارات: 328 ح9، المزار (شهيد) :203، زاد المعاد: 375، مفاتيح الجنان : 456، نزهة الزاهد: 347، کچھ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ .

[2] ۔ علامہ امینی نےنقل کیا ہے: علامہ مولیٰ شریف شیروانی نے کتاب '' الصدف'' ج٢ ص ١٩٩ میں اپنے بزرگوں سے اورانہوں نے امام ہادی علیہ السلام سے روایت کی ہے: جو کوئی بھی ایک مرتبہ مشہور زیارت عاشورا پڑھے اوراس کے بعد کہے: أَللَّہُمَّ الْعَنْہُمْ جَمِیْعاً تِسْعاً وَتِسْعِیْنَ مَرَّةً  تو گویا اس نے یہ سو مرتبہ پڑھا ، اور جو شخص ایک مرتبہ اس کا سلام پڑھنے کے بعد کہے : اَلسَّلامُ عَلَى الْحُسَيْنِ وَعَلى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَعَلى أَوْلادِ الْحُسَيْنِ وَعَلى أَصْحابِ الْحُسَيْنِ تِسْعاً وَتِسْعينَ مَرَّةً ،  تو گویا اس نے اسے اوّل سے آخر تک سو مرتبہ پڑھا ۔ (ادب الزائر : ٦٠)

اس عبارت کے معنی میں کچھ احتمال پائے جاتے ہیں ،جن میں سے ہم دو احتمال ذکر کرتے ہیں :

١لف۔ ایک مرتبہ مکمل لعن پڑھنے کے بعد ایک مرتبہ کہے: أَللَّہُمَّ الْعَنْہُمْ جَمِیْعاً تِسْعاً وَتِسْعِیْنَ مَرَّةً اوراس کے بعد مکمل سلام پڑھے اور پھر ایک بار کہے : اَلسَّلامُ عَلَى الْحُسَيْنِ وَعَلى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَعَلى أَوْلادِ الْحُسَيْنِ وَعَلى أَصْحابِ الْحُسَيْنِ تِسْعاً وَتِسْعينَ مَرَّةً ۔

ب۔ ایک بار مکمل لعن پڑھنے کے بعد ننانوے مرتبہ کہے : أَللَّہُمَّ الْعَنْہُمْ جَمِیْعاً ، اور پھر مکمل سلام پڑھنے کے بعد ننانوے مرتبہ کہے : اَلسَّلامُ عَلَى الْحُسَيْنِ وَعَلى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَعَلى أَوْلادِ الْحُسَيْنِ وَعَلى أَصْحابِ الْحُسَيْنِ تِسْعاً وَتِسْعينَ مَرَّةً۔

پہلا احتمال ظاہر تر ہے اور اسی کی مانند روایات میں بھی وارد ہوا ہے،مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ کہ جب حضرت نوح علیہ السلام  نے کشتی پر سوار ہونے کا قصد کیا توپروردگار عالم نے ان پر وحی کی کہ ہزار مرتبہ «لا إله إلّا اللَّه» کہو چونکہ آنحضرت کے پاس اتنا وقت نہیں تھا اس لئے آپ نے  «لا إله إلّا اللَّه ألف مرّة» کہا ، او رپھر کشتی پر سوار ہوگئے، (رجوع فرمائیں:بحار الأنوار: ١١ / ٦١)

نیز حسین بن خالد سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضرت امام موسی بن جعفر علیه السلام سے عرض کیا : حضرت آدم علیہ السلام کی انگوٹھی کا نقش کیا تھا ؟ فرمایا: «لا اله الّا الله، محمّد رسول الله »، «خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور حضرت محمد ، خدا کے رسول ہیں»، جسے حضرت آدم علیہ السلام اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے ۔ حضرت نوح علیہ السلام جب کشتی میں سوار ہوئے تو خداوند متعال نہیں ان پر وحی کی  اور فرمایا : اگر تمہیں غرق ہونے کا خوف ہے تو ہزار مرتبہ « لا اله الّا الله» کہو ـ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا: جس کلام کے وسیلہ سے خداوند نے مجھے غرق ہونےسے نجات دی ، لازم ہے کہ میں اس سے کبھی جدا نہ ہوں ، لہذا آپ نے اسے اپنی انگوٹھی کے نگین پر نقش کر لیا اور وہ نقش یہ تھا : « لا اله الّا الله ألف مرّة، یا ربّ أصلحني» «خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، ہزار مرتبہ ، اے پروردگار ! میری اصلاح فرما».

 «اللهم العن العصابة التي جاهدت الحسین و شایعت و بایعت و تابعت » میں جمله «بایعت اور تابعت» دونوں میں دو تحتانی نقطہ ہیں ، الف کے ما قبل و ما بعد ، پہلے میں ایک نقطہ ہے اور دوسرے میں دو فوقانی نقطے ہیں ، یعنی بایعت و تایعت ، اور یہ تعمیم کے بعد تخصیص کی مانند ہے ؛ کیونکہ «مبایعه» ، بیعت سے مفاعله ہے  جس کے معنی عقد اور عہد و پیمان ہیں ، ان سے امر خیر یا شر میں درخواست کرنا مراد ہے  ۔ اور «متایعة» کے معنی مجازات، فسق و فجور ، سقوط ، سبقت لینا، مدد کرنا اور برای و شرّ میں ساتھ دینا ہیں ، اور یہ خیر و خوبی میں نہیں ہے ۔ اسی طرح تتایع کے معنی شر میں سقوط کرنا  اور اس کی طرف جلدی کرنا ہیں ، یہ «تیعان» سے باب مفاعله و تفاعل ہے ۔ کہا جاتا ہے : تاع یتیع ، تیعاً و تیعاناً ، بمعنی خارج ہو جانا ،  اور تاع الشيء کے معنی پگھلنا  اور زمین پر جاری ہو جانا ہیں۔وتاع إلی کذا، یتیع : جب وہ اس کی طرف جائے اور سرعت اختیار کرے ۔ کلی طور پر اس سے مفاعلہ اور  تفاعل نہیں بنتا مگر شرّ اور برائی میں ۔ اور کچھ کم عقل اور کوتاہ فکر افراد اس میں تصحیف کرتے ہیں ، یعنی انہوں نے اسے پڑھنے میں غلطی کی ہے اور کہا ہے : «تابعت» حرف «ب» کے ساتھ ہے نہ کہ حرف «ی» کے ساتھ . 

[3] ۔ الأمین : ۳۷۵ .

[4] ۔ مفتاح الجنّات: ۲/617.

ملاحظہ کریں : 715
آج کے وزٹر : 706
کل کے وزٹر : 19532
تمام وزٹر کی تعداد : 128818722
تمام وزٹر کی تعداد : 89499328