حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
چالیس شب جمعہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے سے امام عصر ارواحنا فداء کے دیداد سے شرفیاب ہونا

چالیس شب جمعہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے سے  امام عصر ارواحنا فداء کے دیداد سے شرفیاب ہونا

 محدث نوری  کہتے ہیں : جلیل القدر عالم دین ملاّ علی رشتی رحمہ اللہ انتہائی نیک ، پارسا ، دین دار ، پرہیزگار اور زاہد تھے ، اور مختلف قسم کے علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے اور استاد اعظم سید سند رحمہ اللہ کے شاگردوں میں  سے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیان کیا : جب فارس کی حدود کے لوگوں کے پاس کسی نافذ الحکم عالم کے نہ  ہونے کی شکایتیں زیادہ  ہونے لگیں تو استاد اعظم شیخ انصاری نے انہیں ان کی طرف بھیجا ۔ انہوں نے  ان کے درمیان سعادتمندانہ زندگی گزاری اور حمیدانہ طور پر دنیا سے رخصت ہوئے ۔ میں کچھ عرصہ تک سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہا ۔ اخلاقی اور روحانی فضائل کے اعتبار سے مجھے ان کی نظیر و مثال نہیں ملتی ۔

شیخ علی رشتی کہتے ہیں : ایک مرتبہ میں حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی زیارت کے بعد فرات کے راستے نجف واپس آ رہا تھا ۔ میں کربلا اور طویرج کے درمیان رفت و آمد کرنے والی کشتی میں سوار ہو گیا ۔ اس کشتی کے تمام مسافر حلہ کے رہنے والے تھے اور طویرج جانا چاہتے  تھے ۔  طویرج سے ہی حلہ و نجف کے راستے جدا ہوتے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک شخص کے علاوہ باقی سب لہو و لعب میں مشغول تھے  لیکن وہ شخص دوسرے لوگوں کے کاموں میں ان کا ساتھ نہیں دے رہا ، نہ تو مزاح  کر رہا ہے اور نہ ہی ہنس رہا ہے ، اس کے چہرے پر وقار  و اطمینان کے آثار نمایاں تھے ۔  اس کے ساتھی اس کے مذہب کی برائیاں کر رہے تھے اور اسے طعنہ دے رہے تھے  ، لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک  تھا ۔ مجھے اس پر اور اس کے کاموں پر بہت تعجب تھا اور آخر کار یہ ہوا کہ ملاّح نے ہمیں پانی کی کمی کی وجہ سے کشتی سے اتار دیا اور ہم نہر کے کنارے پیدل چلنے لگے ۔ راستے میں اتفاقاً اسی شخص سے میرا سامنا ہوا  تو میں نے  اس سے اس کے دوستوں سے دوری اختیار کرنے  اور اس کی مذمت و سرزنش کرنے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا : یہ سب میرے رشتہ دار ہیں اور ان کا تعلق اہل سنت سے ہے  اور میرے والد بھی اہل سنت ہیں ، لیکن میری ماں مؤمنہ اور شیعہ ہے  ۔ اس سے پہلے میں بھی انہی میں سے تھا ، یعنی سنّی تھا  لیکن خداوند متعال نے مجھ پر احسان کیا اور میں صاحب العصر حجت بن الحسن العسکری (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی برکت  سے شیعہ ہو گیا  ۔

میں نے اس شخص سے اس کے شیعہ ہونے کے بارے میں پوچھا کہ آپ  کیسے شیعہ ہوئے ؟

اس نے کہا : میرا نام ’’یاقوت‘‘ ہے  اور حلہ کے پل کے ساتھ تیل بیچتا ہوں ۔ ایک سال میں تیل خریدنے کے لئے حلہ کے گرد و نواح میں بسنے والے بادیہ نشینوں کے پاس گیا ۔ کچھ منزل کی دوری پر ہی مجھے میری مطلوبہ مقدار میں تیل میسر آ گیا اور  میں نے تیل خرید کر اپنے چارپایہ (سواری) پر لاد دیا  اور  کچھ اہل حلہ کے ساتھ واپس آ گیا ۔ ہم نے راستے میں ایک جگہ قیام کیا اور وہاں سو گئے  ، اور جب میں خواب سے بیدار ہو تو میں نے دیکھا کہ وہ سب لوگ جا چکے ہیں  ، حتی ان میں سے کوئی ایک شخص بھی وہاں موجود نہیں تھا ۔ ہمارا راستہ بے آب و گیاہ صحراء سے ہو کر گزرتا تھا ، جس میں درندوں کی کثرت تھی اور اس کے اطراف میں کئی فرسخ تک کوئی آبادی نہیں تھی  ۔

میں وہاں سے اٹھا اور دوبارہ تیل سواری پر لاددیا  اور ان کے پیچھے روانہ ہو گیا ۔ کچھ دور جا کر میں نے راہ گم کر دی  ، ایک طرف درندوں کا خوف تھا  اور دوسری طرف پیاس کی شدت سے میں حیران و سرگراں تھا ۔ اسی دوران میں نے خلفاء اور مشائخ سے استغاثہ کرنا شروع کیا اور ان سے مدد طلب کرنے لگا کہ میری فریاد رسی کریں ۔ میں نے انہیں خدا کی بارگاہ میں اپنا شفیع قرار دیا اور بہت گریہ و نالہ کیا  لیکن کوئی نتیجہ نہیں ملا ، اور مجھ پر رحمت کا کوئی دریچہ نہیں کھلا ۔ اچانک مجھے یہ  خیال آیا اور میں یہ سوچنے لگا کہ میں نے اپنی ماں سے سنا تھا کہ وہ کہا کرتیں تھیں : ہمارا ایک زندہ امام ہے  جس کی  کنیت ’’ابا صالح‘‘ ہے  اور وہ گمشدہ اور بھٹکے ہوئے لوگوں کی راہنمائی کرتے ہیں اور ناتواں افراد کی مدد کرتے ہیں ۔ میں نے خدا سے یہ عہد و پیمان کیا  کہ اگر میں نے ان سے فریاد کی اور انہوں نے میری فریاد رسی کی  تو میں اپنی ماں کا مذہب اختیار کر لوں گا ۔ [1] میں نے اضطرار و اضطراب کی کیفیت میں امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ) کو پکارا اور ان سے استغاثہ کیا  تو اچانک میں نے اپنے پاس ایک شخص کو دیکھا  جو میرے ساتھ چل رہا ہے اور جن کے سر پر سبز  رنگ کا عمامہ ہے ۔ اس شخص نے نہر کے اطراف میں لگی ہوئی جڑی بوٹیوں کی طرف اشارہ  کیا اور کہا : ان کے عمامہ کا سبز رنگ ان جڑی بوٹیوں کے سبز رنگ کی طرح تھا ۔انہوں نے مجھے راستہ دکھایا  اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنی ماں کا مذہب  اختیار کر لوں اور کچھ کلمات بھی بیان فرمائے  جنہیں میں بھول گیا ہوں ، اور فرمایا : جلد ہی تم ایک ایسے دیہات میں پہنچ جاؤ گے ، جس کے رہنے والے شیعہ ہیں ۔

میں نے عرض کیا : اے میرے سید و سردار ! کیا آپ میرے ساتھ اس دیہات تک نہیں آئیں گے ؟ انہوں نے کچھ کلمات بیان فرمائے ،جن کا مضمون اور مفہوم یہ تھا :  اب میں نہیں آؤں گا کیونکہ اب شہروں کے اطراف میں ہزاروں افراد مجھ سے فریاد کر رہے  ہیں اور میں ان کی فریاد کو پہنچنا چاہتا ہوں ۔ اسی دوران وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے ۔

کچھ دیر چلنے کے بعد میں اس دیہات تک پہنچ گیا ، اگرچہ وہاں تک کا فاصلہ بہت زیادہ تھا اور میرے ہم سفر اگلے دن وہاں پہنچے تھے ۔ جب میں حلہ میں داخل ہوا تو میں سید الفقہاء سید مہدی قزوینی رحمہ اللہ کے پاس گیا اور  ان کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا ۔ انہوں نے مجھ دین کے معالم تعلیم فرمائے  ۔ میں نے ان سے پوچھا : کیا یہ ممکن ہے کہ میں ایک مرتبہ پھر اس نورانی جمال کی زیارت کر سکوں  اور ان کے دیدار سے مشرف ہو سکوں ؟ انہوں نے فرمایا : چالیس شب جمعہ حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی زیارت کرو ۔ 

میں نے ان کے دستور کے مطابق عمل کیا  اور میں شب جمعہ حلہ سے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے چلا گیا  ، یہاں تک کہ ایک شب جمعہ باقی رہ گئی تھی ۔ پنجشنبہ (جمعرات) کا دن تھا اور میں حلہ سے کربلا  چلا گیا  اور جب میں شہر کے دروازے پر پہنچا تو میں نے ظالم حکومت کے کچھ کارندوں کو دیکھا ، جو وہاں پہنچنے والے لوگوں سےگزرنے کا اجازت نامہ طلب کر رہے تھے ۔ میرے پاس نہ تو کوئی اجازت نامہ تھا اور نہ ہی اس کی قیمت ۔ میں حیران و پریشان تھا اور وہاں لوگوں کا کافی ہجوم ہو چکا تھا ۔ میں نے کئی بار لوگوں کے درمیان سے چھپ پر نکلنے کی کوشش کی لیکن میں کامیاب نہ ہو سکا ۔ اسی دوران میں نے شہر میں اپنے مولا حضرت صاحب الامر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ) کو عجم طلاّب کے لباس میں دیکھا، جن کے سر پر سفید عمامہ تھا ۔ میں نے ان سے استغاثہ کیا اور دل میں ان سے مدد طلب کی ۔ وہ اس حالت میں باہر آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے شہر میں داخل کر دیا ، یہاں تک کہ حکومتی کارندوں میں سے کسی نے بھی مجھے نہیں دیکھا ۔ جب میں شہر میں داخل ہو گیا تو وہ لوگوں کے درمیان غائب ہو گئے  اور اس کے بعد میں نے کبھی بھی انہیں نہیں دیکھا ، اور میں ان کے فراق میں حیران و سرگرداں ہوں ۔  [2]

 


[1] ۔ چاپ شدہ اصل کتاب میں یہ عبارت یوں نقل ہوئی ہے : : «پھر  انہو ں نے اسے راستہ دکھایا اور حکم دیا کہ وہ اپنی ماں کا دین اختیار کر لے » الخ  میرا یہ خیال ہے کہ اس میں تصحیف ہوئی ہے ، یعنی نسخہ لکھنے والے سے اشتباہ ہوا ہے .

[2] ۔نجم الثاقب : ۷۱۹ ،  جنّة المأوى: 292.

ملاحظہ کریں : 661
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 19366
تمام وزٹر کی تعداد : 128816980
تمام وزٹر کی تعداد : 89498457