حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
حضرت فاطمه زهراء سلام الله علیها کو فدک عطا کرنے کے بارے میں کچھ مطالب

 حضرت فاطمه زهراء  سلام الله علیها

کو فدک عطا کرنے کے بارے میں کچھ مطالب

*******************************************

۱۴ ذی الحجه ؛  خدا وند متعال کے حکم سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حضرت فاطمۂ زہراء سلام اللہ علیہا کو فدک کو فدک عطا کرنا ( سنہ ۷ ہجری )

**********************

فدك کو غصب کرنے کے بارے

میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشنگوئی

  پيغمبرصلى الله عليه و آله و سلم نے سنہ سات ہجری میں جنگ خیبر کے ایّام میں مُحَيَّصَة بن مسعود حارثى کو حکم دیا کہ وہ سر زمين فدك کی طرف جائیں کہ جو یہودیوں کی ملکیت تھی اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دو یا انہیں جزیہ دینے کے لئے کہو ۔ جب محيّصه سر زمين فدك پر پہنچے تو ابھی تک جنگ خیبر اختتام پذیر نہیں ہوئی تھی لہذا اہل فدک نے پہلے لشکر کشی کی اور تسلیم نہ ہوئے ۔ محيّصه نے مدینہ واپس  جانے کا ارادہ کیا تا کہ پيغمبر اکرم صلى الله عليه و آله و سلم فدک والوں کی نافرمانی سے مطلع کریں ۔ فدك میں پہلے والوں یہودیوں کے چند سربراہوں نے محيصه سے کہا : ایک دو دن صبر کرو تا کہ ہم اپنی قوم کے ساتھ مشورہ کریں اور اس کا نتیجہ تم سے بیان کریں یا ہم یہودیوں میں سے چند لوگوں کو تمہارے ہمراہ محمد صلى الله عليه و آله و سلم کے پاس بھیجیں ۔

   اس دوران خیبر میں قلعه ناعم فتح ہو گیا اور اہلیان فدک کے کانوں تک اس کی خبر پہنچ گئی ، ان کے دلوں پر خوف طاری ہو گیا ، لہذا انہوں نے محیصہ سے کہا : ہم نے یہ جو بے ادبی کی ہے اس کے بارے میں محمّد صلى الله عليه و آله و سلم کو مت بتانا ، ہم تمہیں بھی اس کی پاداش اور اجر دیں گے ۔

   محيصه نے ان کا تقاضا رد کر دیا اور نون بن يوشع اور خیبر میں قوم فدک کے کچھ دوسرے بزرگوں کے  کے ہمراہ رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم کی خدمت میں پہنچے ۔

   جب انہوں نے پیغمبر اکرم صلى الله عليه و آله و سلم سے ملاقات کی تو ابتداء میں انہوں نے اپنے قلعہ کے استحكامات کے بارے میں بات کی ۔ پيغمبر خدا صلى الله عليه و آله و سلم ہاتھ آگے پڑھایا اور انہیں قلعه فدك کی چابیاں دکھائیں ۔

   جہودان نے پيغمبرصلى الله عليه و آله و سلم سے کہا : آپ کو یہ چابیاں کس نے دی ہیں ؟

   پيغمبر اکرم صلى الله عليه و آله و سلم نے فرمایا : جس نے موسیٰ کو تواریت کے الواح عطا کئے تھے ۔ اسی دوران جہودان کے کچھ افراد مسلمانوں ہو گئے اور بقیہ نے سر تسلیم خم کر لیا اور یہ طے پایا کہ وہ جزیہ دیں گے ۔

   حضرت امام علی علیہ السلام کے دست مبارک سے صلح نامہ لکھا گیا اور اس بنیاد پر قرار داد طے پائی کہ : اہل فدک اپنی سر زمین پر ہی رہیں گے اور جزیہ دیں گے لیکن باغ فدك کے نام سے مشہور نخلستان رسول خداصلى الله عليه و آله و سلم کا ہو گا اور اس کے عوض میں مسلمان لشکر فدک پر لشکر کشی نہیں کرے گا ۔ یہ آيهٔ شريفه «وما أفاء اللَّه على رسوله منهم فماأوجفتم عليه من خيل ولا ركاب...»(566)؛ «اور خدا نے جو کچھ ان کی طرف سے مال غنیمت اپنے رسول کو دلوایا ہے جس کے لئے تم نے گھوڑے یا اونٹ کے ذریعہ کوئی دوڑ دھوپ نہیں کی ہے ، لیکن اللہ اپنے رسولوں کو غلبہ عنایت کرتا ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے» اس بارے میں نازل ہوئی۔

   پھر ایک دوسری آیات نازل ہوئی اور رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم کو حکم دیا گیا کہ وہ ذى القربى کا حق دیں :

«وآت ذى القربى حقّه والمسكين و ابن السبيل ذلك خير للّذين يريدون وجه اللَّه واولئك هم المفلحون».(567)

(اى پيغمبر؛) قرابتداروں ، مسكينوں اور مسافران غربت زدہ کو ان کا حق دو اور یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے کہ جو فلاح کے طالب ہیں اور خداوند کے دیدار کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔

  پيغمبر اکرم صلى الله عليه و آله و سلم جنگ خیبر کے اختتام پذیر ہو جانے کے بعد واپس مدینہ آئے اور مذکورہ آیۂ مبارکہ اپنی بیٹی حضرت فاطمه زہراء عليہا السلام کے لئے قرائت كی اور فرمایا :

خدا کے حکم سے فدک تمہاری ملکیت ہے ، خدا نے یہ تمہیں بخشا ہے ۔

   فاطمه زہراء عليہا السلام حیاء و عفّت کی کل کائنات تھیں اور آپ کو دنیا کے مال میں کوئی دلچسپی اور رغبت نہیں تھی ، لہذا آپ نے فرمایا :

اے بابا ! خدا نے جو کچھ مجھے بخشا ہے ، میں وہ آپ کو دیتی ہوں ۔

   پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم نے فرمایا :

میری بیٹی ! اپنے اور اپنے بچوں کے لئے یہ باغ رکھ لو اور یہ جان لو کہ میرے بعد تم سے یہ باغ چھین لیں گے اور اس پر تم سے بہت نزاع کریں گے ۔

   اسی وقت رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم کچھ اصحاب کو بلایا اور ایک نوشتہ پر اصحاب نے دستخط کئے کہ جس مں یہ تحریر تھا کہ فدک ؛ حضرت فاطمه‏ عليہا السلام کی ملکیت ہے ۔

   جب تک پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم قید حيات میں تھے ، تب تک حضرت فاطمه ‏عليہا السلام انپنے عامل فدک بھیجتیں تھیں کہ جو آپ کے لئے وہاں سے مال لے کر آتے تھے ۔

  پيغمبر اکرم صلى الله عليه و آله و سلم نے جو کچھ فرمایا تھا ؛ اس کے عین مطابق صاحبان اقتدار نے ابتائے خلافت میں ہی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے فدک چھین لیا اور جب معاویہ کو حکومت و قدرت ملی تو اس نے اپنے بیٹوں یزید ، مروان حكم اور عمرو بن عثمان يعنى تیسرے خلیفہ ک ے بیٹے کے درمیاں فدک کو تقسیم کر دیا ۔ مروان کی خلافت کے زمانے میں اس نے فدک کو مکمل طور پر اپنی قبضے میں لے لیا اور پھر اس نے وہ اپنے بیٹے عبد العزیز کو بخش دیا ، اور عبد العزیز نے وہ اپنے بیٹے عمر بن عبد العزیز کو عطا کر دیا اور جب عمر بن عبد العزیز کو خلافت ملی تو اس نے سب سے پہلے جو مظلمہ واپس کیا تھا وہ یہی فدک تھا ۔ اس نے حسن بن حسن بن علىّ بن ابى طالب اور ایک قول کے مطابق امام سجّاد عليه السلام کو بلایا اور انہیں فدک واپس لوٹا دیا ۔

   اور جب يزيد بن عبد الملك برسر اقتدار آیا تو اس نے پھر سے فدک پر قبضہ کر لیا اور ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر فدک بنی مروان کے ہاس تھا یہاں تک کہ سن ۱۳۲ ہجری میں ان کی خلافت کا خاتمہ ہوا ۔

   جب سب سے پہلے عباسی خلیفہ سفاح کو حکومت ملی تو اس نے عبد اللَّه بن حسن بن حسن کو فدک واپس کر دیا ۔ پھر دوسرے عباسی خلیفہ منصور نے دوبارہ اسے قبضے میں لے لیا ، پھر منصور کے بیٹے نے ایک مرتبہ پھر اولاد فاطمہ علیہا السلام کو فدک واپس دے دیا اور پھر موسی اور ہارون الرشید نے اسے ان سے واپس لے لیا اور مأمون کی خلافت تک یہ اسی کے ہاتھ میں تھا اور پھر مأمون نے دوبارہ اولاد فاطمہ علیہا السلام کو واپس لاٹا دیا ، لیکن مأمون کے بعد متوكّل عبّاسى نے اس کا اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیا... (569).(568)


566 اور 567) سوره  59 : آيه 6 اور ۷ ۔

568) تاريخ يعقوبى: 269/2 ۔

569) اعجاز پيامبر اعظم ‏صلى الله عليه و آله و سلم در پيشگوئی از حوادث آينده: 204 ۔

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات : ص 428

 

 

 

ملاحظہ کریں : 986
آج کے وزٹر : 4499
کل کے وزٹر : 19532
تمام وزٹر کی تعداد : 128826291
تمام وزٹر کی تعداد : 89503121