حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
حجّاج کا پاگل ہو جانا

*******************************

۱۵ ماہ مبارک رمضان سنہ ۹۱ ہجری میں حجاج بن یوسف ثقفی کا لوگوں کو ظہر کے وقت افطار کا حکم دینا

*******************************

 

حجّاج کا پاگل ہو جانا

   ہجرت کے بعد سنہ ۸۸ میں جب عمر بن عبد العزیز مدینہ کا حاکم بنا تو ایک اور واقعہ بھی رونما ہو کہ جسے یہاں ذکر کرنا چاہئے اور وہ حجّاج کے پاگل ہونے کا آغاز تھا۔ جب عبد الملک بن مروان پاگل ہو گیا تو اس کے بعد وہ حکم صادر نہیں کرتا تھا اور اگر وہ کوئی حکم صادر کرتا بھی تھا تو وہ علاقائی حاکم کی تائید کے بغیر نافذ نہیں ہوتا تھا۔

   لیکن حجّاج نے پاگل ہونے کے بعد بھی اپنا کام جاری رکھا اور وہ اسی طرح بين النہرين کے ممالک، عراق، عجم اور خراسان پر حکومت کرتا رہا۔

   ہم اس کے جنون اور پاگل پن کے بارے میں علمی توضیحات میں وارد نہیں ہونا چاہتے اور صرف یہ بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں کہ جنون اور پاگل پن کی دو قسمیں ہوتی ہیں: ایک جنون حادّ اور دوسرا جنون مزمن. جنون حاّد؛ جس طرح اس کے نام سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہ ایک حال میں باقی رہتا ہے، یہاں تک کہ پاگل کو دوسری دنیا میں بھیج دے۔

   جنون مزمن؛ کی شروع میں شدت کم ہوتی ہے اور اس کی شدت اس طرح سے کم ہوتی ہے کہ اس پاگل کے ارد گرد رہنے والے اس کے جنون اور پاگل پن کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے کہ وہ پاگل ہو چکا ہے ۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک پاگل پن اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ پاگل کو باندھنا پڑتا ہے تا کہ وہ اپنے اردگرد کے افراد کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔

   حجّاج بن يوسف ثقفى کے پاگل پن کی قسم مزمن تھی اور شروع میں کوئی اس کے پاگل پن کی طرف متوجہ نہ ہوا کہ وہ پاگل ہو چکا ہے اور وہ صرف اس کی بیہودہ باتوں پر حیرت کا اظہار کرتے تھے اور اسے بزرگی پر حمل کرتے تھے کیوںکہ (ان کی نظر میں) بہت سے گذشتہ بزرگان کی یہ عادت تھی کہ وہ ایسی باتیں کرتے تھے کہ جن کا کوئی معنی نہیں ہوتا تھا (!) لیکن رفته‏ رفته حجاج بن ‏يوسف ثقفى کی دیوانگی میں شدت آ گئی اور پھر وہ کچھ ایسے احکام صادر کرتا کہ جو واضح طور پر عقل سلیم کے منافی ہوتے تھے لیکن اس کے ماتحت افراد کبھی بھی اس کے احکام کے نفاذ سے گریز کرنے کی جرأت نہ کرتے، جس طرح اس مشہور جرمن جرّاح کے ماتحت افراد دیکھتے رہتے کہ وہ جرّاحی کے عمل میں بیماروں کو قتل کر دیتا ہے لیکن پھر بھی اس عالیقدر جرّاح کے احترام میں کبھی بھی اس پر اعتراض نہ کرتے (1).

   ایک دن حجاج نے حکم دیا کہ اہلیان بصرہ کا قتل عام کیا جائے اور اس شہر میں عورتوں، مردوں اور بچوں میں سے کسی نہ باقی نہ چھوڑا جائے، حالانکہ بصرہ میں کوئی ایسا اتفاق نہیں  ہوتا تھا کہ جو حکمرانِ کل کے غیظ و غضب کا باعث بنے کہ وہ سب کو قتل کرنے کا حکم صادر کرے۔

   حجاج بن یوسف نے احمد بن ہشام بصری کو حکم دیا تھا کہ وہ بصرہ کے لوگوں کا قتل عام کرے جب کہ وہ خود بھی اہل بصرہ میں سے تھا اور اس شہر میں اس کے بہت زیادہ رشتہ دار بھی تھے۔ وہ حجاج کے پاس گیا اور اس سے کہا: بصرہ کے لوگوں کا گناہ کیا ہے کہ جس کی وجہ سے ان کا قتل عام کیا جائے؟

   حجاج نے - غير معمولی انداز میں- ‏احمد بن ہشام بصرى کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور کہا: بصرہ کے لوگوں کا یہ گناہ ہے کہ وہ اہلیان شہر بصرہ ہیں۔

   احمد بن ہشام بصرى نے سوچا کہ شاید وہ اس حکم کو صادر کرنے کی وجہ نہیں بتانا چاہتا لہذا اس نے کہا: اے امیر! اگر میں یہ جان لوں کہ بصرہ کے لوگ کس گناہ کے مرتکب ہوئے کہ جس کی وجہ سے امیر اس قدر غیظ و غضب میں ہیں تو میں دل و جان سے ان کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے فوراً بصرہ کے لوگوں کے قتل عام پر مبنی حکم پر عمل کروں گا۔

   جب احمد بن ہشام بصرى اور حجاج آپس میں گفتگو کر رہے تھے تو کچھ لوگ وہاں موجود تھے جو ان دونوں کی باتیں سن رہے تھے۔ وہ لوگ بھی اس حیرت انگیز عجیب حکم کے صادر ہونے پر حیران تھے اور ایک دوسرے کی حیرت انگیز اور وحشت انگیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک حجاج بن يوسف‏ ثقفى نے زور سے چلّا کر جلاّد کو طلب کیا۔

   جلّاد جب بھی حاضر ہوتا تھا ،وہ کچھ لوگوں کے ساتھ آتا تا کہ وہ لوگ اس شخص کو پکڑ سکیں کہ جس کے بارے میں حکم کیا جاتا تھا اور جب جلاّد کو حاضر کیا جاتا تھا تو اس وقت وہاں کچھ محافظ بھی ہوتے تھے کیونکہ جب کبھی کسی شخص کو مارنے کے لئے جلاّد کو طلب کیا جاتا تھا اور وہ شخص یہ دیکھتا تھا کہ اب اسے قتل کر دیا جائے تو وہ خود حاکم پر حملہ کر دیتا تھا تا کہ اسے قتل کر دے اور یوں رائیگاں قتل نہ ہو۔ لہذا جیسے ہی جلاّد کو حاضر ہونے کا حکم دیا جاتا تو وہاں موجود محافظین حاکم اور اس شخص کے درمیان حائل ہو جاتے تھے کہ جس کے لئے جلاّد کو طلب کیا جاتا تھا۔

   چونکہ احمد بن ہشام بصری کسی چھوٹے سے بھی گناہ یا خطاء کا مرتکب نہیں ہوا تھا  اور سب لوگ یہی سوچ رہے تھے کہ جلاد کو احمد بن ہشام بصری کے لئے نہیں بلایا گیا کیوںکہ وہ بے گناہ ہے اور حاکم نے کسی اور شخص کو سزا دینے کے لئے جلاّد کو طلب کیا ہے۔ لیکن حجاج نے جلاّد کو دیکھتے ہوئے احمد بن ہشام کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس سرکش کا سر اس کے بدن سے جدا کر دو۔ احمد بن ہشام بصری نے بھی اچانک تلوار نیام سے نکالی اور حاکم کی طرف دوڑا۔

  لیکن حاکم کے محافظین احمد بن ہشام بصری اور حجاج کے درمیان حائل ہو گئے۔ حاکم کے محافظین اور احمد بن ہشام کے درمیان جنگ شروع ہو گئی جب کہ جلّاد اور اس کے ساتھیوں نے بھی پیچھے سے احمد بن ہشام بصری پر حملہ کیا اور اس شخص کو سامنے اور پیچھے سے گھیر کر قتل کر دیا گیا۔ اور اس دن پہلی مرتبہ حجاج کا پاگل پن آشکار ہوا اور حجاج کے پاس موجود افراد یہ سمجھ گئے کہ حجاج نے اپنے پاگل پن اور جنون کی وجہ سے بصرہ کے لوگوں کے قتل عام کا حکم صادر کیا تھا اور اسی طرح حجاج بن یوسف کے پاگل پن کے علاوہ احمد بن ہشام بصری کو قتل کرنے کی کوئی اور وجہ نہیں تھی۔ کیونکہ احمد بن ہشام بصری نے کوئی ایسی بات نہیں کہی تھی کہ جو توہین و اہانت پر دلالت کرتی ہو بلکہ اس نے صرف یہ سوال کیا تھا کہ آخر بصرہ کے لوگوں کا کیا گناہ ہے کہ جس کی وجہ سے ان کا قتل عام کیا جائے۔

اس واقعہ سے چھوٹا سا انعکاس اور ردّ عمل بھی پیدا نہ ہوا اور کسی نے حجاج سے یہ نہ پوچھا کہ آخر اس نے کیوں ایک بے گناہ کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔

   اس واقعہ کے بعد حجاج کے اطراف میں رہنے والے افراد بہت احتیاط برتتے تھے اور حتی الامکان اس سے پرہیز کرتے تھے۔ دوسری مرتبہ ماہ مبارک رمضان میں حجاج بن یوسف کا پاگل پن آشکار ہوا کہ جو غیر قابل تردید تھا۔

   ظہر کے وقت تمام اسلامی شہروں میں لوگ کام چھوڑ دیتے تھے اور جو گھروں سے باہر ہوتے یا جو گھروں سے باہر آ سکتے تھے وہ سب نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد میں جاتے تھے۔

   ماہ مبارک رمضان میں زیادہ لوگ کام کاج چھوڑ کر مسجد کی طرف رخ کرتے ہیں اور جو لوگ گھروں میں ہوتے ہیں یا گھروں سے باہر ہوتے ہیں؛ وہ بھی مسجد کی طرف جاتے ہیں  تا کہ وہاں نماز ادا کر سکیں اور اس مہینہ میں جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس مہینہ میں مسلمان روزہ رکھتے ہیں اور طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کچھ کھاتے اور پیتے نہیں ہیں۔

   پندرہ مارہ مبارک رمضان سنہ ۹۱ ہجری کے دن جب لوگ مسجد کوفہ میں جمع ہوئے اور وضو کرنے میں مشغول تھے تا کہ با جماعت نماز ادا کر سکیں؛ اسی دوران حجاج بن یوسف کی آواز سنائی دی۔

   چونکہ لوگ وضو کرنے میں مشغول تھے جس کی وجہ سے وہ متوجہ نہ ہوئے کہ کس وقت حجاج مسجد میں داخل ہوا تھا لیکن شہر کوفہ و بصرہ کے لوگ حجاج کی آواز پہچانتے تھے اور جیسے ہی انہوں نے اس کی آواز سنی تو وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ حجاج ہے اور جو شخص مسجد  میں بلند  جگہ پر کھڑا تھا اس نے آواز دی: افطار کر لو... اور اپنا روزہ کھول لو۔

بعض سادہ لوح افراد نے آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا تا کہ یہ دیکھیں ہ کیا سورج غروب ہو گیا ہے کہ جو حجاج یہ کہہ رہا ہے کہ افطار کر لو اور اپنا روزہ کھول لو۔ لیکن سورج تو آسمان کے عین وسط میں تھا اور ابھی ظہر کا وقت تھا اور حجاج بن یوسف لوگوں کی افطار کرنے اور روزہ کھولنے کی دعوت دے رہا تھا۔

   بالآخر مسجد میں موجود ایک شخص نے کہا: اے امیر! ابھی تک غروب کا وقت نہیں ہوا کہ جو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم افطار کر لیں اور روزہ کھول لیں؟

حجاج نے کہا: کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ قیامت کا آغاز ہو گیاہے اور کیا تم نہیں جانتے کہ قیامت میں شرعی ذمہ داریاں ساقط ہو جائیں گی؟!

   لوگ اس قدر سادہ لوح تھے کہ جب انہوں نے حجاج کی یہ باتیں سنی تو ادھر ادھر دیکھنے لگے تا کہ یہ دیکھ سکیں کہ کیا قیامت کی نشانیاں دکھائی دے رہی ہیں یا نہیں؟!

   چونکہ لوگ بہت سادہ لوح تھے اور وہ یہ تصور نہیں کر رہے تھے کہ حجاج جیسا حاکم ایسی بے بنیاد بات کرے گا کیونکہ ہو دنیائے اسلام میں خلیفہ کے بعد سب سے با اثر شخس تھا اور قدرت کے اعتبار سے خلیفہ پر بھی ترجیح رکھتا تھا۔

   حتی آج بھی لوگ جب کسی بزرگ شخصیت سے کوئی بات سنتے ہیں تو اس کی ارزش و اہمیت کے قائل ہو جاتے ہیں جب کہ آج کے لوگ تیرہ سو سال پہلے کے لوگوں سے زیادہ ہوشیار ہیں۔ ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے کہ کسی بزرگ شخصیت کی کہی ہوئی بات عام افراد کی بات سے زیادہ توجہ حاصل کرتی ہے۔

   لہذا آج سے تیرہ سو سال پہلے لوگ حجاج بن یوسف ثقفی کی بات کی اہمیت کے زیادہ قائل تھے  اور وہ یہ نہیں سوچ سکتے تھے کہ حجاج جیسی شخصیت اس طرح کی کوئی بے بنیاد اور بے اساس بات کرے گی۔ (!)

  جس شخص نے حجاج سے یہ پوچھا تھا کہ ہم کس لئے روزہ کھولیں، اسی شخص نے کہا: اے امیر! قیامت کی کچھ نشانیاں ہیں اور قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ مردوں کو قبروں سے اٹھایا جائے گا اور انہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا لیکن ہمیں یہاں قبروں سے اٹھائے گئے مردے دکھائی نہیں دے رہے؟

   حجاج نے کہا: پس پھر تم لوگ کون ہو؟ کیا تم لوگ مردے نہیں ہو اور قبروں سے اٹھائے نہیں گئے؟ مسجد میں موجود افراد کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ وہ لوگ حیرت میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور وہ یہ سوچنے لگے کہ شاید وہ لوگ مردہ ہیں اور سب کے سب قبروں سے اٹھائے گئے ہیں اور انہیں دوبارہ زندہ کیا گیا ہے۔ حجاج نے چیخ کر کہا اب جب کہ تم لوگ یہ جان چکے ہو کہ قیامت کا آغاز ہو چکا ہے تو پھر تم لوگ افطار کیوں نہیں کر ہے اور اپنا روزہ کیوں نہیں کھول رہے اور کیوں نماز سے دستبردار نہیں ہو رہے؟ کیونکہ اب قیامت آ چکی ہے اور تمام شرعی ذمہ داریاں منجملہ نماز ساقط ہو چکی ہیں لہذا جاؤ اور اپنا روزہ کھول لو۔ یہ سن کر کچھ سادہ لوح افراد فوراً مسجد سے باہر بھاگ گئے اور شہر میں یہ اعلان کرنے لگے کہ قیامت کا آغاز ہو چکا ہے اور شرعی ذمہ داریاں ساقط ہو چکی ہیں، لہذا افطار کر لو اور اپنا روزہ کھول لو۔

   حجاج کے محافظین آئے اور وہ بين ‏النہرين، عراق، عجم اور خراسان کے حاکم کو پکڑ کر مسجد سے باہر لے گئے کیونکہ وہ لوگ جانتے تھے کہ یہ اپنا دماغی توازن کھو چکا ہے اور پاگل ہو چکا ہے اور اس دن کوفہ کے رہنے والے کچھ افراد نے حاکم کے کہنے پر روزہ افطار کر لیا کیونکہ حاکم نے کہا تھا کہ قیامت کا آغاز ہو چکا ہے اور شرعی ذمہ داریاں ساقط ہو چکی ہیں (!)

   جس کسی سے بھی عمل صادر ہو اس کی دیوانگی اور پاگل پن مسلم ہو جاتا ہے۔ پاگل کو اس کے کسی عمل پر سزا نہ دی جاتی لیکن اس کی کسی بات پر عمل بھی نہیں کیا جاتا۔ حجاج کے مسلسل ان غیر عاقلانہ اور احمقانہ اقدامات کے بعد اسے معزول کر دینا چاہئے تھا لیکن اسے معزول نہ کیا گیا اور اس کے اس عمل کو مسلمانوں کو خبردار کرنا قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو تنبیہ کرنا تھا تا کہ ہر شخص یہ جان لے کہ اسے قیامت کا سامنا کرنا ہے اور وہ جان لیں انہیں قیامت کے دن زندہ کیا جائے گا تا کہ اس سے حساب و کتاب لیا جائے!

   جب حجاج بن یوسف ثقفی نے مسجد کوفہ میں لوگوں سے یہ سب کچھ بیان کیا اور عبد اللہ بن بشر مازنی کو اس کی خبر ہوئی تو وہ اموی خلیفہ کے پاس گئے اور انہوں نے خلیفہ سے یہ تقاضا کیا کہ وہ حجاج کو حکومت سے معزول کر دے۔

   اموی خلیفہ نے عبد اللہ بن بسر مازنی کے احترام میں کہا کہ حجاج بن یوسف ثقفی کو معزول  کرنے کے بارے میں سوچا جائے گا لیکن ان کا اسے حکومت سے معزول کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

  عبد اللہ بن بسر مازنی کی عمر نے وفا نہ کی کہ وہ ایک مرتبہ پھر خلیفہ کے پاس جاتے اور اس سے حجاج بن یوسف ثقفی کو حکومت سے معزول کرنے کا تقاضا کرتے۔ اور ایک روایت کے مطابق وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخری صحابی تھے کہ جو اس زمانے تک زندہ رہے اور ان کا یہ امتیاز تھا کہ انہوں نے دونوں قبلہ کی رخ کرکے نماز ادا کی۔ جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تو یہ اس وقت زندہ تھے اور پھر جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مقرر کیا کہ مسلمان کعبہ کی طرف رخ کرنے نماز ادا کریں تو انہوں نے کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی۔


1) اس مشہور ع معروف جراح سے مؤلف کی مراد جرمن ڈاکٹر «زائر بروخ» ہے کہ جسے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیان عالمگیر شہرت حاصل تھی لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ پاگل ہو گیا اور اس نے جراحی کے عمل کے دوران کئی بیماروں کو قتل کر دیا۔ مترجم

2) امام حسين ‏عليه السلام و ايران: 544.

 

منبع:‌ معاويه ج ...  ص

 

 

ملاحظہ کریں : 990
آج کے وزٹر : 3283
کل کے وزٹر : 45443
تمام وزٹر کی تعداد : 128475547
تمام وزٹر کی تعداد : 89327723