حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
حضرت امیرالمؤمنین علیه السلام کا انگوٹھی عطا کرنا

حضرت امیرالمؤمنین علیه السلام کا انگوٹھی عطا کرنا

**********************************************

۲۴ذیحجه : حضرت اميرالمؤمنين على علیه السلام کا انگوٹھی عطا کرنے کا دن


**********************************************
 

   آية اللَّه العظمى آقاى شيخ محمّد صالح مازندرانى المعروف به علاّمه سمنانى (متوفّى ماہ ذى قعده 1391 ہجری)فرماتے ہیں: «أشهد أنّ‏ عليّاً ولىّ اللَّه» کہنا اس آيه «إنّما وليّكم اللَّه» پر اظہار ایمان ہے ۔ اہلسنت اور  شيعه اس بات متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت امير المؤمنین علی عليه السلام کے بارے میں ہے کہ جب آپ نے  حالت ‏ركوع میں سائل کو انگوٹھی دی۔یہ خدا و رسول اور اولى القربى کی رضائیت کا موجب ہے بلکہ ولايت على‏ عليه السلام اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن اور ستون ہے۔

اس بناء پر جس طرح آداب کی رعائت کرنا، مختلف دعائیں اور اذکار پڑھنا ، پاک و طاہر لباس پہننا اور خوشبو لگانا نماز کے لئے زینت شمار ہوتے ہیں  اسی طرح امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی  ولایت کی گواہی دینا اذان کے لئے بہترین آداب اور زینت ہے۔

جس طرح رسالت کی گواہی دینے کے بعد پیغمبر پر صلوات بھیجی جاتی ہے، تکبیر اور توحید کی گواہی دینے کے بعد مختلف مروی و غیر مروی تمجید کہی جاتی ہے حالانکہ یہ اذان کا جزء نہیں ہیں لیکن  یہ ایمان،توحید اور اسلام میں اہم زینت ،آداب اور تأکیدات ہیں۔ اسی طرح اذان کی ہر فصل کے بعد کچھ اذکار کہے جاتے ہیں بلکہ ان کا حکم بھی دیا گیا ہے اور اس سے اذان بہترین صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

اسی طرح امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت کی گواہی دینا بھی بہترین زینت اور اذان کے آداب میں سے ہے۔ نیز یہ خدا ، رسول اور اولوا الأمر کی رضائیت و خوشنودی کا باعث ہے بلکہ ولایت کا اقرار کرنا کتاب خدا اور نص رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اقرار ہے۔نیز یہ خدا و رسول اور صاحب امر کی اطاعت کا اعلان ہے کہ جس کا اس آیہ «أطيعو اللَّه وأطيعوا الرسول واولى الأمر منكم» میں حکم دیا گیا ہے۔

کیا یہ حیرت کا مقام نہیں ہے کہ بعض خلفاء نے صرف اس بناء پر اذان سے «حىّ على خير العمل» کو ساقط کر دیا کہ کہیں حسّ جہاد کمزور اور ضعیف نہ ہو جائے۔ اور پھر انہوں نے اس جملہ کی بجائے نماز (جو دین کا ستون ہے) کے بارے میں «الصلوة خير من النوم» کہنے کا حکم دیا ۔ ہماری اہلسنت جماعت!!! نے اسے قبول کر لیا اور وہ اب تک اس پر عمل پیرا ہیں۔

 

پس یہ کیسے ہو سکتا ہے ولایت کی گواہی اذان کے سب سے خوبصورت محسنات میں سے شمار نہ ہو حالانکہ حسّ جہاد کے ساقط ہو جانے کے خوف سے «حىّ على خير العمل» کو ساقط کر کے رکاکت پر مبنی ایک جملہ کا اضافہ کر  دیا گیاکہ جو بہت بڑٰ غلطی تھی  کیونکہ  «حيّ على الصلوة» دو بار کہا جاتا ہے نيز «حيّ على‏الفلاح» بھی کہا جاتا ہے کہ جس میں ہر فلاح شامل ہے ۔

اگر مقرّر شدہ فصول میں تصرف کر سکتے ہوں تو پھر  «حىّ على الجهاد» کہنے کا حکم کیوں نہیں دیا؟

میں نے سنا ہے کہ اہلسنت و الجماعت کی قدیم خطی کتابوں میں سے ایک کتاب میں دیکھا کہ آیہ «إنّما وليّكم اللَّه» کے نازل ہونے کے بعد سب سے پہلے جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ نماز جماعت کے دوران اذان میں «أشهد أنّ عليّاً ولىّ اللَّه» کہا،وہ جناب سلمان تھے۔

  پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم ، تمام اصحاب اورر مأمومين اس کا انکار نہیں کیا کیونکہ اس آيه «إنّما وليّكم اللَّه» پر ایمان تھا کہ جو اسی دن نازل ہوئی تھی۔

ہم نے جو کچھ کہا اس کے علاوہ ولایت علویّہ کا علنی اقرار تھا کہ جس کا اہتمام پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلأإ نے غدیر کے دن کیا تھا کہ جو بہترین اسلامی شعائر میں سے ہے اور شعائر الٰہیہ کی تعظیم کرنا واجب ہے: «ومن يعظّم شعائر اللَّه فإنّها من تقوى القلوب»۔ دنیا بھر کی اقوام و ملل کے سامنے اس عظیم شعائر کا اعلان کرنے کے لئے اذان سے بہتر اور مناسب جگہ کوئی اور نہیں ہو سکتی۔

کون ذی شعور یہ قبول کرے گا کہ اس شعار اور نعرہ پر ایمان اور اس کا اقرار بند کمرے میں مخفیانہ طور پر کریں کہ کہیں کوئی  کان سن نہ لیں اور کسی مسلمان کو ولایت علی علیہ السلام کی یاد نہ آ  جائے۔

کیا ان تمام محاسن اور اس تقرب کے باوجود کوئی یہ کہہ سکتا ہے اور اپنے جریدہ میں نشر کر سکتا ہے کہ «فاعترفوا بذنبهم فسحقاً لأصحاب السّعير». کیا شیعوں کا یہ اقرار کرنا کہ ولایت کی گواہی دینا اذان کی اصل فصول کا جزء نہیں ہے ’’اگرچہ یہ اصل فصول کے ہم درجہ اور ہم رتبہ ہے اور تمام آثار میں یہ مطوب ہے اور تقربات الٰہیہ کا باعث ہے‘‘  تو کیا یہ گناہ شمار کیا جائے گا اور کیا اسے کہنے والے اصحاب سعیر میں سے شمار ہوں گے ۔لیکن اذان کی اصل فصل «حىّ على ‏خير العمل» کو ساقط کر کے یہ اعلان کرنے کا حکم دینا کہ نماز نیند سے بہتر ہے،کیا یہ گناہ نہیں ہے؟ اور کیا یہ کہنے والے اصحاب سعیر نہیں ہیں؟

اور کیا نماز صرف نیند سے ہی بہتر ہے۔ فارسی کی ایک ضرب المثل ہے کہ’’ آن سركه‏ائى كه از آب تند است (سهل) است‘‘ کیا نماز کہ جو دین کا ستون ہے، اگر نماز قبول ہو جائے تو سب اعمال قبول ہو جائیں اور اگر وہ قبول نہ ہو تو سب اعمال رد ہو جائیں، کیا یہ صرف نیند سے بہتر ہے نعوذ باللہ من نزعات الشیاطین۔

   کيا اس آيه «إليه يصعد الكلم الطّيّب والعمل الصالح يرفعه» میں كلمه «أشهد أنّ عليّاً ولىّ اللَّه» شامل نہیں ہے؟کیا جس طرح اس ولایت نے آسمان سے نزول فرمایا ہے تو پھر آسمان کی طرف صعود نہیں کرے گی ؟ اور کیا یہ کلمہ «الصلوة خير من النوم» كلمه طيّبه ہے كه جو صعود کرے گا اور عرش پر فائز ہو جائے گا، «تلك إذاً قسمة ضيزى».

اور اسی طرح اگر آيه «وكلمة طيّبة كشجرة طيّبة أصلها ثابت وفرعها في السماء» كلمه «أشهدأنّ عليّاً ولىّ اللَّه» سے مخصوص نہ ہو  تو کیا یہ اس میں شامل نہیں ہے اور کيا كلمه «الصلوة خير من النوم» خبيثه کلمات میں سے نہیں ہے۔ جب کہ نوم(نیند) محلّ خباثت اور نماز مقام طيّبات ‏ہے۔ اس طرح سے حق کشی کرنا تعجب کا باعث ہے۔

ہم تو انصار دار التقريب بين المذاهب الإسلاميّه ہیں اور ہم  قانع ہیں كه ہمارے اہلسنت بھائی!!! مذہب امامیہ کے مقدس شعائر کی مخالفت  نہ کریں اور ان کا تمسخر نہ کریں اور ہمیں یہ یقین ہے کہ ایسی مخالفت کرنے والے اہل تقریب المذاہب نہیں ہیں بلکہ اسلامی اتحاد و وحدت میں تفرقہ اندازی کر رہے ہے اور آج الحمد اللہ جامعۃ الازہر اور دارالتقریب کے علماء ایسی مخالفت نہیں کرتے۔ کیا شیعہ علماء اہلسنت کے بعض فرقوں کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ بہاتھ اندھ کے نماز پڑھتے ہیں۔ حاشا و کلاّ۔

تفرقہ بازی اور سرد و گرم جنگ کے زمانے میں بھی شیعۂ امامیہ صرف دفاع کرنے پر مجبور تھے۔

لاکھوں شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند حضرت صاحب الزمان علیہ السلام پردۂ غیب میں ہیں اور زندہ ہیں۔ نیز آپ ظہور فرمانے کے بعد دنیا کو عدل و انصاف  سے بھر دیں گے۔ شیعہ اس عقیدہ کو مقدس ترین شعائر مذہبی شمار کرتے ہیں اور جان و دل سے اسے عزیز رکھتے ہیں  اور صدر اسلام یہ عقیدہ تھا حتی امام احمد بن حنبل بھی یہ گواہی دیتے ہیں کہ سلمان و ابوذر اور جابر و مقداد بھی شیعہ عقیدہ رکھتے تھے۔

   جیسا کہ كتاب يواقيت (تألیف ابو عمرو زاہد کہ جو ناصبی اور اہبیت کے دشمنوں میں سے تھا)سے كشف الغمه میں نقل کیا ہے:

افسوس کا مقام ہے کہ ابن حجر نے اپنے زمانے میں (جو تفرقہ بازی زمانوں میں سے تھا)امام قائم کی شان میں گستاخی کی جب کہ لاکھوں لوگ اس موعود منتظر کے معتقد تھے  لیکن اس نے ایسی جسارت کی کہ روئے زمین پر تمام ممالک میں امام عصر ارواحنا فداہ کے سلسلہ میں ایسی جسارت نہیں کی گئی اور ہم اس باب میں اس کے اشعار کو ذکر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

لیکن ابن حجر کی فحاشی اور بیہودہ گوئی کے مقابلہ میں آپ روئے زمین پر شیعہ علماء کی نجابت دیکھئے کہ کس  طرح آج بھی ابن حجر اور اس کی کتابوں کا رجال میں احترام کیا جاتا ہے اور ان کی طرف رکوع کیا جاتا ہے۔ یہ ہے بے غرضی اور اسلامی بھائی چارے کا شیوہ کہ ہمیشہ سے شیعہ جس پر عمل کرتے چلے آہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

آج دارالتقریب نے گذشتہ زمانوں میں تفرقہ بازی کے طلسم کو کامل شجاعت سے توڑ دیا ہے اور آج مصر میں فقہ جعفری کی تعلیم دی جاتی ہے اور جعفری مذہب کو باقاعدہ طور پر پہچانا جاتا ہے اور یہ اجازت دی گئی ہے کہ تمام مسلمان عبادات اور معاملات میں مذہب جعفری پر عمل کرسکتے ہیں۔

پس یہ ظاہر ہو گیاکہ آيه «إنّما وليّكم اللَّه»  پر ایمان کے قصد سے«أشهد أنّ عليّاً ولىّ اللَّه» کہنا بهترين مقرّبات الهيّه ، اعلیٰ قربات ‏اسلاميّه اور اہم ترین شعائر دينيّه کی تعظیم ہے بلکہ یہ خالص دین کے ارکان میں سے ہے كہ فرمایا: «ألا إنّ للَّه الدين الخالص» نيز اس کا اقرار کرنا اور اس پر اعتقاد رکھتے ہوئے اسلامی اعلانات (جن میں اہم اعلان اہل تثلیث کے مقابلہ میں اذان کہنا ہے)میں استقامت کے ساتھ  اس کا اعلان کرنا اس استقامت کا مصداق ہے کہ جس کے متعلق خداوند کریم نے مؤمنین کی توصیف میں بیان فرمایا ہے: «الّذين قالوا ربّنا اللَّه ثمّ استقاموا» اور یہ صراط مستقيم کے مصادیق میں سے ہے کہ فرمایا: «اهدنا الصراط المستقيم» نیز خداوند نے آيهٔ مباهلہ میں على ‏عليه السلام کونفس پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم قرار دیا ہے.

پس رسالت کی گواہی دینے کے بعد ولایت کی گواہی دینا خاتم النبیین کی رسالت کی گواہی دینے کے مراتب اور آنحضرت کے اقوال و ارشادات کی تصدیق ہے۔ نیز رسالت کی گواہی کے ساتھ ولایت کی گواہی دینا کتاب خدا اور عترت سے وہ تمسک ہے جو ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ کیا پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم ‏نے یہ نہیں فرمایا تھا:إنّي تارك فيكم الثقلين، كتاب اللَّه وعترتي أهل بيتي، ما إن تمسّكتم بهما لن تضلّوا، لن‏ يفترقا حتّى يردا عليّ الحوض.

   پس ان دونوں( رسالت و ولایت) کی ایک ساتھ گواہی دینا درحقیقت کتاب اور عترت سے تمسک ہے. الحمد للَّه الّذي هدانا لهذا و ما كنّا لنهتدي لولا أن‏ هدانا اللَّه. (انتهى كلامه رفع مقامه).(229)

متعصّب فاضل عنيد فضل بن روزبهان سے نقل ہوا ہے کہ جس نے علامہ حلّی کی کشف الحقّ کے رد  میں کہا ہے:

 «انكار فضائل آل محمّد عليهم السلام كإنكار رحمة البحر وسعة البرّ ونور الشمس وجود السحاب وسجود الملائكة لا ثمرة له سوى الإستهزاء بمنكره وكيف يمكن انكار فضل جماعة هم اهل السداد وخزّان معدن النبوّة وحفّاظ آداب الفتوة وأفضليّة عليّ‏ عليه السلام مسلّم باعتراف الصديق والفاروق وساير الصحابة.

   والمنقول عن الصديق!! أنّه قال: اقيلوني فلست بخيركم وعليّ فيكم. والمنقول عن الفاروق!! أنّه قال في مواضع: لولا عليّ لهلك عمر، وقال ‏أيضاً: نعوذ باللَّه من قضيّة ليس فيها أبوالحسن، انتهى.»

   وفي تاريخ الخلفاء للسيوطي قال الإمام احمد بن حنبل: ما ورد لأحد من اصحاب رسول اللَّه ‏صلى الله عليه وآله وسلم من الفضائل مثل ما ورد لعليّ (عليه السلام) انتهى.

   وقال محمّد بن طلحة في مطالب السوآل: أنّ عمر بن الخطّاب جمع أصحاب رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم يستشيرهم وفيهم علىّ بن ابى ‏طالب ‏عليه السلام. فقال عمر بن الخطّاب: قل يا أبا الحسن فأنت أعلمهم وأفضلهم، ونقل عمر بن الخطاب أنّه قال: أىّ معضلة ليس لها أبوالحسن، انتهى.

   ذكر سبط ابن جوزى في التذكرة فصلاً في قول عمر بن الخطّاب: أعوذ باللَّه من معضلة ليس لها أبوالحسن، انتهى.(230)

 


229) كشكول امامت: 136/2.

230) كشكول امامت: 142/2.

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات: ص 866   

 

 

ملاحظہ کریں : 919
آج کے وزٹر : 6714
کل کے وزٹر : 45443
تمام وزٹر کی تعداد : 128482411
تمام وزٹر کی تعداد : 89331155