حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
عالم ہستی کے امیر کی جانب

عالم ہستی کے امیر کی جانب


علامہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی

یقین رکھیئے جو بھی سچے دل سے امام عصر ارواحنا فداہ کی تلاش میں ہوگا اور آنحضرت (ع)کی راہ میں خدمت کرے گا اور اس ماہ عالم کے ظہور میں تعجیل کے لئے کوشش کرے گا تو نتیجہ میں ایسے راستہ پر پہنچ جائے گا جو راستہ اس محبوب عالم کی جانب سے ایک کھڑکی اس کی طرف کھل جائے گی۔
لہٰذا آنحضرت (ع)کی نسبت مدد اور فدا کاری کہ جس کے ہاتھوں کو عصر غیبت نے اسی طرح باندھ ڈالا ہے جیسے دشمنوں نے اولین مظلوم ہستی حضرت امیرالمومنین (ع)کے گلے میںریسمان ڈالا اور ان بزرگوار کے ہاتھوں کو باندھ دیا تھا ،لہٰذا خاموش نہ بیٹھیں اور آنحضرت(ع) کے ظہور میںتعجیل کے لئے کوشش کر کے غیبت کی رسی کا کم از کم ایک تار تو ڑ دیں .
اطمینان رکھیئے اگر کوئی آنحضرت (ع) کی راہ میں کوشش اور فداکاری کرے اور کسی فریب کاری کی فکر میں نہ ہو تو بلا شبہ اس پر حضرت(ع) کی عنایت ہوگی اور آنحضرت (ع)ایک کلام ،یا پیغام، یا ایک نگا ہ کے ذریعہ ضرور اس کے قلب کو شاد کریں گے اس لئے کہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی کسی کی حقیقی تلاش میں ہو اور اس کے لئے کوشش کرے اور سر انجام اپنے کامل مقصود یا حد اقل کچھ حصہ بھی نہ پائے ۔
حضرت امیرالمومنین (ص) فرماتے ہیں :''من طلب شیئانالہ او بعضہ''(١) جو کسی چیزکی تلاش میں ہووہ اسے پوری طرح یا اس کا کچھ حصہ ضرور پاے گا ۔
آپ اطمینان اور یقین رکھیں کہ یہ اگر چہ غیبت کا تیرہ و تاریک دورہے ولایت حضرت بقیت اللہ ارواحنا فداہ کے ظاہر ہونے کا زمانہ ابھی تک نہیں آیا ہے لیکن اس کے باوجود آنحضرت (ع) دائرہ امکان کے قطب اور امیر ہستی ہیں اور آنحضرت (ع)کی ولایت مطلقہ نے سارے عالم کواپنے اندر لے رکھا ہے ۔
آنحضرت (ع)کی زیارت میں پڑھتے ہیں:
'' السلام علیک یا قطب العالم''
''اے عالم ہستی کے قطب آپ پر ہمارا سلام ہو''۔
غیبت کے تاریک دور میں اسی طرح ظہور کے نورانی زمانہ میں اس مقدس وجود کے نور کے زیر سایہ اس کائنات کی ہر شئی اپنی حیات کو جاری رکھے ہوے ہے اوررکھے گی ، اور آنحضرت (ع) کی امامت و رہبری کی ممنون کرم ہے اور نہ صرف اس عالم کے مادی ذرات بلکہ جومسیحا نفس ہیں وہ بھی ان بزرگوار کے حکم اور فرمان کے تابع ہیں بلکہ خود حضرت عیسی (ع)کو دم مسیحائی بھی آنحضرت (ع)اور ان کے ابائو اجداد طاہرین (ص) کے طفیل میں حاصل ہے اور نہ صرف ظہور کے زمانہ میں بلکہ اس وقت بھی آنحضرت کی امامت کے پرچم کے زیر سایہ فرائض کو انجام دینے میں مشغول ہیں ۔
حضر ت (ع)کی زیارت میں پڑھتے ہیں :
''السلام علیک یا امام المسیح''
اے مسیح کے امام آپ پر سلام ہو ۔
یہ امامت و رہبری حضرت (ع)کے ظہورکے پرشکوہ زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس وقت بھی حضرت عیسی(ص)اپنے اس عظیم مقام کے باوجود،آنحضرت (ع)کی امامت و رہبری کی اتباع اور ان کے نقش قدم پر گامزن ہونے پر افتخارکرتے ہیں ۔
تمام نجیب ونقیب افراد اور اولیاء خدا اتباع نفس سے دست بردار ہو گئے ہیں اور عمل میں کوئی حیلہ درکار نہیں ہے اور انھیں پروردگار عالم کے نزدیک جو قدرو اہمیت حاصل ہوئی ہے، انھوں نے اس زمانے میں مقام نورانیت اور نور عالم ہستی کی راہ یا دریچہ پالیا ہے ، اورامام عصر(ع) انہیں برتر افراد کی موجودگی سے غیبت کی غربت کی تلافی کرتے ہیں روایت میں ہم پڑھتے ہیں:
''ومابثلاثین من وحشةٍ'' (٢)
(حقیقی چاہنے والوں میں )تیس افراد کے ہونے کے بعد آنحضرت (ع) کے لئے تنہائی نہیں ہے ۔
گزشتہ مطالب کے بیان کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ غیبت کا قطعی یہ معنی نہیں ہے کہ موجودات عالم سے حضرت بقیت اللہ ارواحنا فداہ کی غیبی مدد کو اٹھالیا گیا ہے اور آنحضرت (ع)کسی کی دستگیری نہیں فرماتے اور نہ ہی کسی پر نور ونورانیت کا دریچہ واہوتا ،بلکہ جس طرح ہم نے عرض کیاوہ افراد جوصداقت کے ساتھ آنحضرت کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور امام کے معارف کے بحر بیکراں سے مستفید ہونے کے لئے امام عصرارواحنافداہ کے ظہور کے پرشکوہ دور کے آنے کے لئے لحظہ شماری کر رہے ہیں وہ حضرت کے پیغام یا ایک نگاہ کے ذریعہ اپنے قلب کو استوار سے استوار تر کر لیتے ہیں ہاں اس طرح کے افراد کسی حیلہ ومکر کی فکر میں نہیں ہیں اور ہمارے لئے ان کا پیغام یہ ہے ۔
''فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ ِنَّکَ بِالْوٰادِی الْمُقَدَّسِ طُوٰی'' (٣)
اپنی جوتی اتار دو اور دیکھو ابھی تک اپنے پائوں کو کس طرح تکلیف دی اوراس طرح امیر عالم ہستی ،اورقطب عالم امکانی تک پہنچنے سے باز رہے ہیں ۔
افسوس ہم میں سے بعض افراد نہ صرف حیلہ ومکر کواپنے آپ سے دور نہیں کرتے بلکہ دوسروں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں بھی آزردہ کرتے ہیں اس طرح کے افراد نیش زبان سے زیادہ اپنے احباب کے دل میں خنجر چبھاتے ہیں،اس لئے کہ شیطانی سر گوشیوں کی بنا پر ہر ایک کو راہ راست سے باز رکھنا چاہتے ہیں،گویا انھیں اس کا علم نہیں ہے کہ آنحضرت(ع) کی راہ کی مخالفت آنحضرت(ع) کے واقعی دوستوں سے دشمنی اوران بزرگوار سے دشمنی ہے کیا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں نہیں فرمایا ہے:
'' أصدقاؤک ثلاثة،وأعداؤک ثلاثة، فأصدقاؤک صدیقک، وصدیق صدیقک، وعدوّ عدوّک، وأعداؤک عدوّک، وعدوّ صدیقک، وصدیق عدوّک'' (٤)
تمھارے تین دوست ہیں اور تین دشمن ہیں :
دوست یہ ہیں : ١۔ خودتمھارے دوست ٢۔ تمھارے دوست کے دوست ٣۔ تمھارے دشمن کا دشمن۔
اور دشمن: ١۔ خودتمھارے دشمن ٢۔ تمھارے دوست کے دشمن ٣۔ تمھارے دشمن کا دوست۔
لہٰذا کیا امام عصر(ع) کے دوستوں سے دشمنی کرنا ان بزگوار کی مخالفت نہیں ہے ؟
اس گفتگو کو ترک کریں اس لئے کہ یہ سب کو اچھی نہیں لگے گی اس وقت ریگ اور ریگزار زیادہ ہیںاور تپتے ہوے بیا بانوں میںریگ گرم قابل شمار نہیں ہیں اور قحط اور سوکھے نے اپنا کریہہ چہرہ ہر ایک پر ظاہر کر دیا ہے اور بارش کی فکر نے ہر ایک کوپریشان کر رکھا ہے اور کچھ نماز استسقاء پڑھنے کے لئے چل پڑے ہیں ۔
لیکن آب رحمت کی غیبت کو سیکڑوں سال گزر چکے ہیں اور لوگ اس کے مادی و معنوی فائدے سے محروم ہیں افسوس وہاں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے ،بارش کی فکر میں ہیں جبکہ بارش آنحضرت (ع)کے وجود بابرکت کی بنا پر ہوتی ہے ۔
کیا ہم زیارت جامعہ میںنہیں پڑھتے ہیں :''بکم ینزّل الغیث'' آپ کی وجہ سے باران رحمت آتی ہے ، لیکن ایسے ہی تھااور ہے کہ اصل کو بھلا دیتے ہیں اور فرع کی تلاش میں رہتے ہیں بالکل اسی طرح کہ ہم مسبب الاسباب کو فراموش کردیتے ہیں اور اسباب کے حصول میں لگ جاتے ہیں۔

حاجی شیخ رجب علی خیاط مرحوم کی ایک نصیحت مرحوم شرفی جو امام زمانہ (ع)کے ظہور کے منتظر رہنے والوں میں تھے ان کا بیان ہے جب میں تبلیغ کے لئے مشہد مقدس سے دوسرے شہرجایا کرتا تھا، توایک مرتبہ ماہ مبارک رمضان کی مسافرت میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ تہران حاجی شیخ رجب علی خیاط کے یہاں مشرف ہوا اور ان سے راہنمای کی درخواست کی ۔
انھوں نے آیت کریمہ (ومن یتّق اللہ...)کے ختم کا طریقہ ہمیں سکھایا (٥) اور فرمایا پہلے صدقہ دو اور چالیس روز روزہ رکھو اور اس ختم کو چالیس روز ںکے درمیان انجام دو ۔
اہم نکتہ جس کو حاجی شیخ رجب علی نے بیان فرمایا یہ تھا کہ تمھارا مقصود اس ختم سے یہ ہو کہ امام رضا علیہ السلام سے آنحضرت (ع)کے تقرب کو طلب کرو اور مادی حاجت قطعی نظر میں نہ رکھو ۔
مرحوم آقای شرفی نے فرمایا :ہم نے ختم شروع کیا لیکن اسے جاری نہ رکھ سکا 'لیکن میرا دوست ختم مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جب ہم مشہد پہنچے اورامام رضا علیہ السلام کی زیارت سے حرم میں مشرف ہوئے، وہ متوجہ ہوا کہ وہ آنحضرت(ع) کو نور کی شکل میں دیکھ رہاہے دھیرے دھیرے یہ حالت اس کے اندر قوی ہوتی گئی کہ اب وہ آنحضرت(ع) کو دیکھنے اور ان سے بات کرنے پر قادرہوگیا ۔
اس اہم واقعہ کو نقل کرنے سے ہمارا مقصود ایک اہم نکتہ کی طرف متوجہ کرناہے جو دعائوں اور وسیلہ بنانے میں موجود ہے وہ یہ کہ نماز ادا کرنے،دعائیں پڑھنے اور وسیلہ بنانے و... میں اخلاص کی رعایت کے علاوہ انھیں انجام دینے کا ہدف خدا اور اہل بیت (ع) سے تقرب ہونا چاہئے یعنی بندگی اور بندہ ہونے کے لئے انجام دے نہ مقام و منصب کے حصول کے لئے ۔
مشہور اور روحانی افراد میں سے ایک صاحب دعائوں اور ختم کے ذریعے بہت سے افراد کی مشکلات کو حل کرتے تھے ایک ایسے شخص (جس کو صاحب بصیرت خیال کرتے تھے) سے ملاقات کے وقت اس سے سوال کیا کہ میں روحی اور باطنی لحاظ سے کیسا ہوں ؟
انھوں نے تھوڑی دیر تامل کے بعد فرمایا :تم نے خدائی کاموں میں بہت زیادہ دخالت کی ہے ۔
لہٰذا انسان کو دعائوں کے ذریعہ غلظ فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے ،بلکہ اسے بندگی کے لئے وسیلہ اور بندگی کا مقصد قرار دینا چاہئے ،تو انسان کو اس کے ذریعہ خدائی کاموں میں دخالت نہیں کرنی چاہئے ، اور نہ ہی لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا ذریعہ بنانا چاہئے۔
مرحوم حاج شیخ حسن علی اصفہانی سے نقل ہوا ہے آپ نے فرمایا : مجھ میں اتنی قدرت ہے کہ اگر لوگ صرف ہمارے دروازے پر دستک دیں تو ان کی مشکلات حل ہوجائیں اور انھیں کچھ کہنے کی بھی ضرورت نہ ہو لیکن چوں کہ امام رضا علیہ السلام کی نسبت لوگوں کے عقیدے میں سستی پیدا ہونے کا باعث ہے اس لئے اسے میں انجام نہ دو ں گا ۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
١۔ شرح غرر الحکم، ج٥ص٣٠٥
٢۔بحارالانوار۔ ج١٥٣٥٢
٣۔سورئہ طہ، آیت١١
٤۔ نہج البلا غہ کلمات قصار ٢٩٥
٥۔اس ختم کا حکم رسول خدا(ص) سے نقل ہوا ہے او رمرحوم آیت اللہ حاجی علی اکبر نہاوندی نے اس روایت کو کتاب ''گلزار اکبری '' میں نقل کیا ہے۔

(صحيفه مهديه)


بشکریہ شيعه اسٹیڈیز ڈاٹ کام
منبع: شبکة الامامين الحسنين عليهماالسلام

المنجی ویب سائٹ

 

ملاحظہ کریں : 5338
آج کے وزٹر : 6284
کل کے وزٹر : 28544
تمام وزٹر کی تعداد : 128390681
تمام وزٹر کی تعداد : 89285281