حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
امام حسین علیه السلام کی یاد سے ظہور کا آغاز

امام حسین علیه السلام کی یاد سے ظہور کا آغاز

نہ صرف سی آئی اے  بلکہ دنیا کے بہت سے سیاستدان بھی جانتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی یاد سے ہی امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے قیام کا آغاز ہو گا اور آپ کے طاقتور مددگاروں کا نعرہ اور نصب العین ’’يا لثارات الحسين‘‘ ہے، چونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا نام پوری دنیا میں بہت  زیادہ محبوب ہے اور دنیا کے بہت سے لوگ حتیٰ کہ غیر شیعہ بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے مشتاق ہیں اور ان کی بھی یہ خواہش ہے کہ وہ  کربلا کی طرف مشی میں شرکت کریں۔

حضرت امام مهدى عجل الله تعالٰى فرجه الشریف ظہور کے  آغاز ہی سے امام حسین علیہ السلام کو اپنے جد امجد اور خود کو ان کے فرزند کے طور پر دنیا کے لوگوں کے سامنے متعارف کرائیں گے کیونکہ دنیا بھر کے لوگ شیعوں کی عزاداری اور لاکھوں کی تعداد میں زیارت کی وجہ سے حضرت امام حسین علیہ السلام سے آشنا ہیں اور وہ جانتے ہیں آپ کو عالم غربت میں مظلومیت سے پیاسہ شہید کیا گیا ۔

حضرت امام مهدى عجل الله تعالٰى فرجه الشریف ظہور کے  آغاز میں پوری دنیا تک یہ آواز پہنچائیں گے :

«أَلاَ يَا أَهَلَ العَالَم اِعْلمُوا انَّ جَدِّيَ الْحُسَين عَلَیهِ السَّلاَم قَتلُوهُ‏ عَطْشَاناً»[1]

اے دنیا والو!جان لو ! میرے جد حسین علیہ السلام کو پیاسہ قتل کیا گیا ۔

حضرت ولی عصر  عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی اس نداءمیں چند اہم نکات پائے ہیں ، ہم چند مثالوں کے ذریعہ  ان  کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں:

۱- آپ خانۂ خدا سے ٹیک لگائے ’’أَلاَ يَا أَهَلَ العَالَم‘‘ کہہ کر خطاب کریں گے ، یعنی آپ صرف اہل مکہ سے ہی مخاطب نہیں ہوں گے  بلکہ آپ پوری دنیا کو خطاب کریں گے ۔اس بنا پر اگرچہ آپ  مکہ مکرمہ اور خانۂ خدا سے ندا دیں گے  لیکن دنیا بھر  کے لوگ آپ کی اس آواز کو سنیں گے ، جیسا کہ دنیا کے تمام لوگ ظہور سے پہلے جبرائیل کی آواز سنیں گے ۔

۲ ۔ اس میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ دنیا بھر  کے لوگ اپنی ہی زبان میں آپ کی آواز سنیں گے، جیسا کے پوری دنیا کے لوگ جبرئیل کی آواز بھی اپنی ہی زبان میں سنیں گے ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف عربی زبان سے واقفیت رکھنے والے افراد ہی آپ کی بات سمجھ پائیں گے، کیونکہ جس طرح آپ  کا قیام ایک عالمی قیام ہے اسی طرح آپ کی ندا بھی عالمی ندا ہے اور وہ دنیا کے تمام لوگوں کے لئے ہے ۔

۳ ۔ حجت خدا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف خانۂ خدا کے ساتھ کھڑے ہو کر ندا دیں گے ، لیکن پوری دنیا کے افراد یہ آواز یکساں طور پر سنیں گے ،ایسا نہیں ہے کہ جو بھی آواز کے مرکز کے قریب ہوگا وہ اسے بہت اونچی آواز میں سنے گا اور جو اس سے جتنا دور ہوگا ، اسے اتنی ہی دھیمی آواز سنائی دے گے ۔

عام آوازوں میں کوئی شخص آواز کے مرکز کے جتنا قریب ہو، اسے آواز اتنی ہی بلند سنائی دیتی ہے، اور وہ جتنا دور ہو اسے وہ آواز اتنی ہی کم سنائی دیتی ہے، یہاں تک کہ یہ آواز ختم ہو جاتی ہے اور کوئی اسے سن نہیں پاتا، لیکن یہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو ظہور کے آغاز ہی میں واقع ہو گا کیونکہ آپ کی آواز دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچ کر ختم نہیں ہو گی بلکہ دنیا بھرکے لوگوں کو یکساں طور پر یہ آواز سنائی دے گی ، چاہے وہ نزدیک ہوں یا دور۔

۴ ۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت بقیۃ اللہ الاعظم عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف  کے قیام کا ایک سبب دین کے دشمنوں سے انتقام لینا ہے اور حق ولایت  کو غصب کرنے والے دین کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

لہٰذا عصر ظہور میں نہ صرف ظالموں سے انتقام لیا جائے بلکہ دنیا میں ظلم و ستم ایجاد کرنے کا باعث بننے والوں کو بھی زندہ کیا جائے تا کہ ان سے بھی انتقام لیا جائے، اور چونکہ عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی اسیری میں پہلے اور دوسرے کا سب سے اہم کردار ہے ، اس لئے انہیں زندہ کر کے ان سے بدلہ لیا جانا چاہئے ۔

تمام اہل تحقیق یہ بات جانتے ہیں کہ اگر سقیفہ کا واقعہ پیش نہ آتا تو امام حسین علیہ السلام عاشورا  کے دن کبھی شہید نہ ہوتے۔سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے عاشوراکے دن یہ حقیقت بھی بیان کی اور آپ نے اس دن فرمایا: ’’قتلني فلان و فلان‘‘ مجھے فلاں اور فلاں نے قتل کیا ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ روایت اہل سنت علماء نے بھی نقل کی ہے اور انہوں نے  اسے امام حسین علیہ السلام  کی اس عبارت «قتلني فلان و فلان» کے ذریعہ بیان کیا ہے ۔

اہل سنت علماء میں سے خوارزمی نے اپنی کتاب ’’مقاتل الحسین علیہ السلام‘‘  میں اس بات کا اعتراف کیا ہے :

چونکہ امام حسین علیہ السلام کے جسم مبارک پر بہت زیادہ زخم لگے تھے، آپ کھڑے ہوئے تا کہ تھوڑی دیر  آرام کر سکیں ، آپ کے بدن پر کمزوری غالب آگئی تھی  اور اب آپ میں جنگ کرنے کی طاقت نہیں تھی ، اسی دوران اچانک ایک پتھر آپ کی پیشانی پر لگا اور خون بہنے لگا، آپ نے پیشانی سے خون صاف کرنے کے لئے اپنی قمیض اٹھائی تو اچانک ایک سہ شعبہ مسموم تیر آپ کے سینہ پر لگا۔ امام حسين علیه السلام نے کہا : ’بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ وَ عَلٰى مِلَّةِ رَسُولِ ‏اللهِ‘‘۔پھر آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور عرض کیا : اے میرے خدا! تو جانتا ہے کہ یہ اسے قتل کر رہے ہیں ، جس کے سوا روئے زمین پر کوئی فرزند پیغمبر نہیں ہے ۔  امام نے پشت کی طرف سے تیر نکالا تو خون کا فوارا جاری ہو ۔ آپ نے زخم کے نیچے ہاتھ رکھا  اور جب وہ خون سے بھر گیا تو اسے  آسمان کی طرف پھینکا تو اس کا ایک قطرہ بھی زمین کی طرف واپس نہ آیا اور اس سے پہلے آسمان پر سرخی نہیں دیکھی گئی تھی ۔آپ نے دوبارہ زخم کے نیچے ہاتھ رکھا  اور جب وہ خون سے بھر گیا تو آپ نے اسے اپنے چہرے اور  ریش مبارک پر ملا اور فرمایا:میں اپنے خون سے خضاب کی حالت میں اپنے جد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملاقات کروں گا اور کہوں گا : یا رسول اللہ ! مجھے فلاں اور فلاں نے قتل کیا ہے ۔ [2]

***

ہمارے مذکورہ  بیان کے مطابق حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ظہور امام حسین علیہ السلام کی یاد اور آپ کے نام سے شروع ہو گا اور پھر امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ا لشریف کےقیام اور جنگ کا آغاز ہو گا۔آپ کے اصحاب و  انصار اور لشکر الٰہی’’يا لثارات الحسين ‘‘ کا نعرہ لگائیں گے ۔ یہ واضح سی بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے نام اور یاد سے ظہور کا آغاز ہونا اور پھر آپ کے اصحاب و انصار کی زبان پر ’’يا لثارات الحسين‘‘ کا نعرہ ، اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت لوگ امام حسین علیہ السلام کے نام سے آشنا ہوں گے ۔

اس بنا پر امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے قیام میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی زیارت اور عزاداری کا کردار واضح ہوگیا ۔نیز یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی کہ ظالم و ستمگر آج کے دور میں ہی نہیں بلکہ قدیم الایّام سے شیعوں کی زیارت اور عزاداری کی کیوں مخالفت کر رہے ہیں  اور حتی کبھی وہ شیعہ عزاداروں کا قتل عام کرتے ہیں اور انہیں شہید کرتے ہیں  اور اب بھی انہوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے  ؟!

امید ہے کہ جلد از جلد وہ دن آئے کہ  جب حق ولایت  کے غاصبوں اور دشمنوں سے انتقام لیا جائے ، جو لوگ عاشورا کے دن ثار اللہ یعنی امام حسین علیہ السلام کا خون بہانے کا باعث بنے اور جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کے گلو مبارک کو کاٹ کر آپ کا  پاک و مطہر  خون زمین پر بہایا ، اور اسی طرح ان لوگوں سے بھی انتقام لیا جائے جو امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی آنکھوں سے خون جاری ہونے کا باعث بنے ۔

امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف فرماتے ہیں  کہ اگر میرے آنسو خشک ہو جائیں تو میں خون کے آنسو بہاؤں گا :

’’لاندبنّ عليك بدل الدموع دما‘‘۔ [3]

ولی عصر امام زمانہ عجل الله تعالى فرجه الشریف بہت زیادہ تأكيد (لاندبنّ پر لام اور نون تأكيد) کے ساتھ فرماتے ہیں کہ میں آنسوؤں کی بجائے خون کے آنسو بہاؤں گا ۔

اگرچہ ہم حضرت امام حسین علیہ السلام کے لئے خون کے آنسو نہیں بہا سکتے ، لیکن ہم صبح و شام آپ  کے لئے گریہ کر سکتے ہیں، اور ہم وقت کے امام کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیتے ہوئے آپ کے ساتھ ہمدردی کر سکتے ہیں اور آپ کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کر سکتے ہیں ۔ یہ امام زمانہ عجل الله تعالى فرجه الشریف سے مقرب ہونے کا بہت ہی اہم اور مؤثر طریقہ ہے ۔

كتاب «نورالعين» میں کہتے ہیں: سكينه بنت امام حسين علیهما السلام فرماتی ہیں : میں اپنے خیمے میں تھی کہ میں نے رونے کی آواز سنی ۔ میں یہ نہیں چاہتی تھی کہ خواتین میں سے کسی کو اس کی خبر ہو۔ میں اٹھی اور اپنے بابا کے پاس آئی اور دیکھا کہ آپ روتے ہوئے اپنے اصحاب سے فرما رہے ہیں :

 يا قوم إعلموا خرجتم معي بعلمكم أنّي أقدم علي قوم‏ بايعونا بألسنتهم و قلوبهم و قد انعكس العلم - واستحوذ عليهم الشّيطان وأنساهم ذكر الله. و الآن لم‏ يكن لهم مقصد إلّا قتلي وقتل من يجاهد بين يديّ وسبي حريمي بعد سلبهم وأخشي أنّكم ما تعلمون أو تعلمون و تستحيون. و الخدع عندنا أهل البيت‏ محرّم،فمن كره منكم ذلك فلينصرف،فاللّيل ستير والسّبيل غير خطير و الوقت ليس بهجير و من آسانا بنفسه كان معنا في الجنان نجيّا من غضب الرّحمن. وقد قال جدّي رسول الله صلّى الله عليه وآله: ولدي‏ حسين يقتل بطفّ كربلاء غريبا وحيدا عطشانا، فمن ‏نصره فقد نصرني و نصر ولده القائم و لو نصرنا بلسانه فهو في حزبنا يوم القيامة.

اے لوگو ! جان لو !تم میرے ساتھ باہر نکلے ہو اور تم ایسا سمجھتے تھے کہ میں ایسی قوم میں جا رہا ہوں جس نے دل اور زبان سے میری بیعت کی ہے ۔(لیکن) اب وہ سوچ بدل گئی ہے اور  شیطان نے انہیں اس طرح بہکا دیا کہ وہ خدا کو بھول گئے ہیں اور اب ان کی کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ وہ مجھے  اور میری راہ میں جہاد کرنے والوں کو قتل کریں اور میرے اہل حرم کو لوٹنے کے بعد انہیں اسیر کریں ۔اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہیں اس معاملے کا انجام معلوم نہ ہو اور اگر  جانتے بھی ہو تو اس کا اظہار کرنے سے ڈرتے ہو کہ کہیں میں ناراض نہ ہو جاؤں، بیشک خیانت اور مکاری ہم  اہل بیت کی نظر میں حرام ہے۔پس جو کوئی بھی اس سفر سے بیزار ہو ، وہ واپس چلا جائے۔ رات کی تاریکی ہے ، راستہ صاف ہے اور بہترین وقت ہے اور جوکوئی  ہم پر اپنی جان قربان کرے گا ، وہ خدا کی جنت میں ہمارے ساتھ ہوگا، اور جان لو کہ میرے جد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا : میرا بیٹا حسین، کربلا میں غریب ، تنہا اور تشنہ قتل کیا جائے گا اور جو کوئی بھی اس کی مدد کرے تو اس نے میری مدد کی  اور اس نے ان کی فرزند قائم آل محمد (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی مدد کی ، اور جو کوئی زبان سے ہماری نصرت کرے  تو وہ قیامت کے دن ہمارے گروہ میں شمار ہو گا۔ [4]

اس روایت کی بنیاد پر امام حسین علیہ السلام کی شہادت  اور آپ کے نام سے دنیا بھر کے لوگوں کا آشنا ہونا ہی امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کا ایک بہت مضبوط سہارا نہیں ہے بلکہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی شہادت بھی امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کا ایک بہت مضبوط سہارا ہے ۔

امام حسین علیہ السلام کی شہادت نہ صرف دین کی بقاء کا سبب  بنی بلکہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے قیام کے ذریعےیہ پوری دنیا میں دین کے فروغ پانے  کا بھی اہم عامل ہے ۔ اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام نے شب عاشورا اپنے اصحاب و انصار سے فرمایا کہ رسول‏ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا :

«میرا بیٹا حسین،کربلا میں غریب،تنہا اور تشنہ قتل کیا جائے گا اور جو کوئی بھی اس کی مدد کرے تو اس نے میری مدد کی  اور اس نے ان کی فرزند قائم آل محمد  (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)کی مدد کی»۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان اس بات کا گواہ ہے کہ عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کی نصرت ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ولی عصر امام زمانہ عجل الله تعالى فرجه الشریف کی نصرت کا بھی باعث ہے ۔

دین کے دشمنوں کی نظر میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا نام ، یاد اور آپ کی زیارت  و عزاداری ، امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی کامیابی کا  سب سے اہم سبب ہے ۔ اسی وجہ سے وہ ان کی مخالفت کرتے ہیں اور حتی الامکان  زیارت و عزاداری کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس  کا دنیا کے بعض سیاستدان اعتراف کر چکے ہیں۔

اس بنا پر دنیا بھر کے تمام شیعوں پر لازم ہے کہ وہ عاشورا کے دن سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے پیغام کے مطابق آپ کی شہادت اور غربت پر نوحہ خوانی اور عزاداری کریں ۔

ہمیں اس نکتے پر غور کرنا چاہئے  کہ نماز، عزاداری، زیارت اور دوسری عبادات کے بعد امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کریں اور خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ ہمیں عافیت و صبر اور تسلیم و رضا کے ساتھ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کو درک کرنے اور آپ کے اصحاب و انصار میں شمار ہونے  کی توفیق عطا فرمائے ۔

 


[1] ۔ الزام الناصب:۲ /۲۳۳ .

[2] ۔ مقتل الحسين علیه السلام، خوارزمى  :  ۲ / ۳۹.

[3] ۔ صحیفۀ مهدیه ، زیارت ناحیۀ مقدّسه :۵۸۰ .

[4] ۔ موسوعة الامام الحسين علیه السلام : ۳ / ۱۰۱  ، فرهنگ جامع سخنان امام حسين علیه السلام : ۳ / ۱۰۳، رياحين الشريعة: ۳ / ۲۷۱.

ملاحظہ کریں : 377
آج کے وزٹر : 14816
کل کے وزٹر : 19024
تمام وزٹر کی تعداد : 127578375
تمام وزٹر کی تعداد : 88861206