حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
آقا بزرگ تهرانى کی نظر میں علاّمه امينى

آقا بزرگ تهرانى کی نظر میں علاّمه امينى

شيخ آقا بزرگ تهرانى شیعوں کے نامور علماء میں سے ہیں ، جن کی متعدد تألیفات ہیں ، وہ فرماتے ہیں :

جب مجھے کتاب الغدیر کی علمی عظمت اور اس کے محتویٰ کا علم ہوا تو میں نے دعا کے لئےہاتھ اٹھائے اور خدا سے دعا کی : خدایا ! میری بقیہ عمر علامہ امینی کو بخش دے  تا کہ وہ ’’الغدیر‘‘ کے حقیقی چہرے کو مزید آشکار کرسکیں ۔ پھر انہوں نے علامہ امینی کے لئے یہ تقریظ لکھی :

میں اس عظیم کتاب کی توصیف کرنے سے عاجز ہوں اور «الغدير» کی شان اس سے کہیں بالا تر ہے کہ اس کی توصیف کی جائے ۔ میں حقیر صرف یہ کر سکتا ہوں کہ خدا سے دعا کروں کہ مؤلف کو طول عمر دے  اور انہیں عاقبت بخیر فرمائے اور خلوص نیت سے خدا سے یہ دعا کرتا ہوں کہ میری بقیہ عمرمؤلف کو عطا  کر دے ۔

وہ  علاّمه امینی کی توصیف میں لکھتے ہیں : آل محمد علیہم السلام سے کامل محبت و عقیدت علامہ کی خصوصیات میں سے ہے جو زبان زد خاص و عام ہے  اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ’’الغدیر‘‘ اسی محبت کے آثار میں سے ایک ہے اور اہل بیت علیہم السلام سے اسی عقیدت کی وجہ سے آپ  امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب و انصار کے مصائب سننے سے خاص عقیدت رکھتے ہیں  اور امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر بلند آواز سے گریہ کرتے ہیں ، خطباء اور حاضرین نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے کہ ذکر مصائب کے دوران ان کی حالت غیر ہو جاتی ہے اور ان کے گریہ سے سب متأثر ہوتے ہیں  اور ان کے گریہ کرنے سے سب گریہ کرتے ہیں ۔ حقیقت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس مجلس میں وہ حاضر ہوں  اور وہاں آل محمد علیہم السلام کے مصائب پڑھے جائیں تو گویا  آل محمد علیہم السلام سے کوئی ہستی اس مجلس میں حاضر ہوتی ہے ۔ علامہ پر یہ کیفیت اپنی اوج پر پہنچ جاتی ہے اور جب خطیب حضرت صدّيقه‏ كبرى فاطمه زهرا سلام الله عليها کے مصائب بیان کرتا ہے  تو اس وقت ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح گریہ کرتے ہیں جیسے ان کے ناموس کی اہانت کی گئی ہو...۔[1]، [2]

علامہ امینی کے بارے میں شیعوں کے بزرگ اور مشہور و معروف علماء میں سے شيخ آغا بزرگ تهرانى کی عبارت پر غور فرمائیں :

وہ فرماتے ہیں کہ حقیقت میں یہ کہا جا سکتا ہے: «جس مجلس میں وہ حاضر ہوں اور وہاں آل محمد علیہم السلام کے مصائب پڑھے جائیں تو گویا  آل محمد علیہم السلام سے کوئی ہستی اس مجلس میں حاضر ہوتی ہے»۔ پس جس طرح وہ جس مجلس میں شرکت کریں تو وہ مجلس دوسرے مجالس سے مختلف ہوتی ہے ، اسی طرح ان کی زیارت دوسرے عام افراد کی زیارت سے بھی مختلف ہوتی ہے ۔

پس جس طرح ان کی زیارت اور دوسرے عام افراد کی زیارت میں فرق ہے ، اسی طرح ان کی زیارت کے آثار اور دوسرے عام افراد کی زیارت کے آثار و اثرات میں بھی فرق ہے ۔ كتاب «الغدير» زیارت کے انہی آثار میں سے ایک ہے جو دوسروں کی زیارت سے مختلف ہے ۔

کچھ لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت ، علامہ امینی کی نجات کا باعث ہے اور وہ اس بارے میں شک کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے ’’الغدیر‘‘ جیسی کتاب لکھی ہے ، پس یہ کیسے ممکن ہے کہ  کتاب الغدیر اپنی تمام تر عظمت کے باوجود علامہ امینی کی نجات کا باعث نہ بنے ، بلکہ امام حسین  علیہ السلام کی زیارت علامہ امینی  کی نجات کا باعث بنے ، کیا امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی عظمت ، کتاب الغدیر کی عظمت سے زیادہ ہے ؟

اس بات کو مزید آشکار کرنے کے لئے کچھ نکات بیان کرنا ضروری ہیں:

علامہ امینی نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو اپنی نجات کا ذریعہ کیوں قرار دیا  لیکن آپ نے کتاب ’’الغدیر‘‘ کا نام نہیں لیا ؟

اگر مقامِ محبت میں محب اعلیٰ مراحل و مراتب تک پہنچ جائے اور اپنے دل کو (جو حرم اللہ ہے ) خدا اور اہل بیت علیہم السلام کی محبت سے سرشار کر لے  تو جب تک اس کے دل میں ان کی شدید محبت ہو گی تو اس میں تنزلی کا امکان نہیں ہو گا ۔

محبوں کے لئے صرف ایک ہی مورد میں استبدال کا  امکان ہے کہ جب وہ محبت یا اس کی شدت کو کھو دے ، ورنہ جب تک محب کے دل میں محبت کی بنیاد محکم ہو ، تب تک وہ ترقی اور تکامل کی راہ پر گامزن رہے گا اور اس میں تنزلی اور زوال نہیں ہو گا ۔

اس نکتہ کا سرّ و راز یہ ہے کہ جب تک محب میں شدید محبت اور ولولہ ہو گا ، وہ محب کو محبوب کی طرف کھینچتا رہے گا  اور اس نکتہ کا راز یہ ہے کہ جب تک شدید محبت ،شوق اور  ولولہ ہوتا ہے وہ محبّ کو محبوب کی طرف متوجہ کرتا ہے اور جب وہ  محبوب کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو اس میں صلاحیت پیدا ہو  جاتی ہے اور محبّ میں محبوب کے صفات اور اثرات آشکار ہو جاتے ہیں۔

اسی وجہ سے اس روایت میں خدا اور اولیاء خدا کی محبت کو سیر و سلوک کی طرف مائل   افراد کے لئے بہترین اور محفوظ ترین راستہ بتایا گیا ہے ۔

بعض دوسری روایتوں میں محبّین کو دوسرے تمام لوگوں پر مقدم کیا گیا ہے ،جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی اخبار و روایات میں وارد ہوا ہے کہ خداوند متعال نے فرمایا :

ما أَحَبَّني أَحَدٌ أَعْلَمُ ذلِكَ يَقيناً مِنْ قَلْبِهِ إِلاَّ قَبِلْتُهُ‏ لِنَفْسي وَأَحْبَبْتُهُ حُبّاً لايَتَقَدَّمُهُ أَحَدٌ مِنْ خَلْقي، مَنْ ‏طَلَبَني بِالْحَقِّ وَجَدَني وَمَنْ طَلَبَ غَيْري لَمْ يَجِدْني...۔[3]

کوئی بھی مجھ سے محبت نہیں کرتا کہ  جس کے بارے میں یہ جان لوں کہ یہ محبت اس کے دل سے پیدا ہوتی ہے، مگر یہ کہ میں اسے اپنے لئے قبول کر کے اس کا عاشق نہ بن جاؤں؛ اس طرح کہ میری مخلوق میں سے کوئی بھی اس پر مقدم نہ ہو۔ جو مجھے حقیقت میں تلاش کرے تو وہ مجھے پا لیتا ہے اور جو میرے سوا کسی اور کو ڈھونڈتا ہے وہ مجھے نہیں پاتا۔

اس  حديث قدسى سے متوجّه ہوتے ہیں کہ جن لوگوں کو  ولی خدا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے اپنے خادم کے عنوان سے قبول فرمایا اور لوگوں میں سے انہیں اپنی مصاحبت کی نعمت سے مشرف کیا اور انہیں دوسروں پر مقدم کیا ، یہ وہ لوگ ہیں جو محبت کی راہ میں سب سے پیش پیش تھے اور محبت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوئے ۔  

حضرت امام صادق علیه السلام ایک اہم روایت کے ضمن میں محبت کے کمال تک پہنچنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں :

«جعل شهوته و محبّته في خالقه»[4]

اپنی خواہشات اور محبت کو اپنے خالق میں قرار دیتا ہے ۔

حضرت امام صادق علیه السلام کمال محبت و مودّت تک پہنچنے والی ذات جناب سلمان کی ایک صفت کو یوں بیان فرماتے ہیں:

ایثاره هوی امیرالمؤمنین علیه السلام علی هوی نفسه ۔ [5]

انہوں نےامیرالمؤمنین علیه السلام کی خواہشات پر اپنی چاہت  کو قربان کر دیا ۔

اسی وجہ سے وہ علم کے نقطہ تک پہنچ گئے اور صاحب ارادہ و قدرت بن گئے ۔

 


[1] ۔ ربع قرن مع العلامة: 273، روزنامه رسالت سے منقول.

[2] ۔ علامه امينى جرعه نوش غدير: 70.

[3] ۔ بحارالانوار : ۷۰/۲۶.

[4] ۔ بحارالانوار: ۳۶ / ۴۰۴ ، اور  ۷۰ / ۲۵.

[5] ۔ بحارالانوار : ۲۲/ ۳۲۷.

ملاحظہ کریں : 148
آج کے وزٹر : 6371
کل کے وزٹر : 45443
تمام وزٹر کی تعداد : 128481723
تمام وزٹر کی تعداد : 89330811