حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
۵ ـ عاشورا کے دن کی دعا

۵ ـ عاشورا کے دن کی دعا

عبد اللہ بن سنان کہتے ہیں : میں عاشورا کے دن اپنے آقا و مولا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا ، جب کہ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر تھا اور  آپ کے رخسار پر آنسو موتیوں کی صورت میں بہہ رہے تھے ۔  میں نے عرض کیا : اے میرے آقا ! آپ کے رونے کا کیا سبب ہے ؟ خدا آپ کی آنکھوں کو نہ رلائے ۔ آپ  نے مجھ سے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے  کہ  ایسے ہی ایک دن میں امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ؟ میں نے عرض کیا :  میں جانتا ہوں ، اے میرے آقا !  اور میں اسی لئے آیا ہوں کہ اس بارے میں آپ سے علمی اقتباس کروں اور آپ سے مستفید ہوں ۔

 آپ نے فرمایا :  جو چاہتے ہو اور جو کچھ تمہارے ذہن میں ہے ،اس کے بارے  پوچھو ۔

میں نے عرض کیا : اے میرے سید و سردار ! آج کے دن کے روزہ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : سحری کھائے بغیر روزہ رکھو اور مورد شماتت واقع ہوئے بغیر افطار کرو  اور یہ مکمل روزہ نہ رکھو ، عصر کے کچھ دیر کے بعد چاہے ایک گلاس پانی سے ہی افطار کر لو ۔  بیشک اس دن اس وقت جنگ کے شعلے خاموش ہو گئے تھا اور خاندان رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  پر ہجوم ختم ہو گیا تھا ، جب کہ ان عزیزوں میں سے تیس افراد خاک پر پڑے تھے  کہ جن کی شہادت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  پر بہت سخت اور دشوار تھی ۔

راوی کا بیان ہے: اس وقت امام صادق علیہ السلام نے بہت زیادہ گریہ کیا  اور آپ کی ریش مبارک آنسؤوں سے تر ہو گئی اور پھر آپ نے فرمایا :  کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون سا دن تھا ؟

میں نے عرض کیا :  اے میرے مولا ! آپ مجھ سے اس بارے میں بہتر جانتے ہیں ؟

آپ نے فرمایا : خداوند تبارک و تعالی نے یکم ماہ رمضان کو جمعہ  کے دن نور کو خلق کیا  اور ظلمت و تاریکی کو عاشورا کے دن بروز بدھ خلق کیا اور خدا نے ان میں سے ہر ایک کے لئے دو روشن راہیں قرار دیں ۔

اے  عبد الله بن سنان! آج کے دن تم جو بہترین عمل انجام دو گے ، وہ یہ ہے که پاکیزہ لباس پہنو ، اس کے بٹن کھول کر رکھو ، آستیں چڑھا کر رکھو  اور دو ساق برہنہ رکھو ( یعنی مصیبت زدہ لوگوں کی طرح دکھائی دو ) اور پھر بیابان میں جا ؤ کہ جہاں تمہیں کوئی نہ دیکھے یا اپنے گھر میں ہی جب دن اوپر آ جائے (روز بالا می آید) تو چار رکعت نماز پڑھو  اور دونوں رکعت کے درمیان سلام پڑھو (یعنی دو دو کر کے چار رکعت نماز ادا کرو ) ، پہلی رکعت میں  سورۀ «حمد» اور  سورۂ کافرون «قل یا أیّها الکافرون» ، دوسری رکعت میں سورۀ «حمد» اور سورۂ توحید «قل هو الله احد» ، تیسری رکعت میں سورۀ «حمد» اور سورۀ «احزاب»  اور چوتھی رکعت میں سورۀ «حمد» اور سورۂ «منافقون»  پڑھو ۔ پھر سلام پڑھو اور ابا عبد الحسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی طرف رخ کر تے ہوئے اپنے سامنے قتلگاہ کو تصور کرو ، اپنے ذہن کو ہر چیز سے خالی کرو اور اپنی عقل کو متمرکز کرو ۔ پھر امام حسین علیہ السلام کے قاتل پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجو ، تمہارے لئے ہر لعنت کے بدلے ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی اور ہزار گناہ مٹا دیئے جائیں گے ، اور جنت میں تمہارے لئے ہزار درجے بلند ہوں گے ۔ پھر اس جگہ سے سات مرتبہ سعی کرو کہ جہاں نماز پڑھی تھی اور ہر مرتبہ سعی میں سات مرتبہ  «إنّا للّه وإنّا إلیه راجعون رضاً لقضاء الله وتسلیماً لأمره» پڑھو ۔ (بیشک ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف پلٹنے والے ہیں اور ہم قضائے الٰہی پر راضی ہیں اور اس کے امر کے سامنے تسلیم ہیں) ان تمام مراحل میں تمہارے چہرے پر غم و حزن کے آثار نمایاں ہونے چاہئیں کہ جسے کسی کا بیٹا مر جائے تو وہ سخت غمزدہ ہوتا ہے ۔

پس جب اس سے فارغ ہو جاؤ تو اس جگہ کھڑے ہو جاؤ کہ جہاں نماز ادا کی تھی اور ستّر مرتبہ کہو :

أَللَّهُمَّ عَذِّبِ الَّذِينَ حارَبُوا رُسُلَكَ وَشاقُّوكَ، وَعَبَدُوا غَيْرَكَ‏ وَاسْتَحَلُّوا مَحارِمَكَ، وَالْعَنِ الْقادَةَ وَالْأَتْبَاعَ، وَمَنْ كانَ مِنْهُمْ وَمَنْ رَضِيَ‏ بِفِعْلِهِمْ لَعْناً كَثِيراً.

خدایا ! اسے عذاب دے جس نے تیرے رسول سے جنگ کی اور مخالفت کی اور تجھ سے دشمنی رکھی ، اور تیرے علاوہ کسی اور کی عبادت کی ، اور تیرے حرام کردہ امور کو حلال سمجھا ، ان کے پیشواؤں پر ، ان کے پیروکاروں پر اور جو کوئی بھی ان میں سے ہواور ان کے فعل پر راضی ہو ؛ ان سب پر کثرت سے لعنت بھیج ۔

پھر کہو :

أَللَّهُمَّ فَرِّجْ عَنْ أَهْلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ، وَاسْتَنْقِذْهُمْ مِنْ أَيْدِي الْمُنافِقِينَ وَالْكُفّارَ وَالْجاحِدِينَ، وَامْنُنْ عَلَيْهِمْ، وَافْتَحْ لَهُمْ فَتْحاً يَسِيراً، وَاجْعَلْ لَهُمْ مِنْ لَدُنْكَ عَلَى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِمْ‏ سُلْطاناً نَصِيراً.

خدایا ! اہلبیت پیغمبر  صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین کے لئے فرج و گشائش بھیج ، اور انہیں منافقوں ، کافروں اور منکروں کے چنگل سے نجات دے ، اور ان پر احسان فرما ،  اور ان کے لئے بند دروازوں کو کھول دے ، اور  آسان فتح دے،  اور ان کے لئے اپنی جانب سے اپنے اور ان کے دشمنوں کے خلاف نصرت کرنے والی سلطنت قرار دے ۔

پھر دعا کے بعد قنوت انجام دو اور اپنے قنوت میں کہو :

أَللَّهُمَّ إِنَّ الأُمَّةَ خالَفَتِ الْأَئِمَّةَ وَكَفَرُوا بِالْكَلِمَةِ، وَأَقامُوا عَلَى الضَّلالَةِ وَالْكُفْرِ وَالرَّدى وَالْجَهالَةِ وَالْعِمَى، وَهَجَرُوا الْكِتَابَ الَّذِي أَمَرْتَ ‏بِمَعْرِفَتِهِ، وَالْوَصِيَّ الَّذِي أَمَرْتَ بِطاعَتِهِ، فَأَمَاتُوا الْحَقَّ وَعَدَلُوا عَنِ‏ الْقِسْطِ، وَأَضَلُّوا الأُمَّةَ عَنِ الْحَقِّ وَخالَفُوا السُّنَّةَ، وَبَدَّلُوا الْكِتَابَ وَمَلَكُواالأَحْزابَ، وَكَفَرُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جاءَهُمْ وَتَمَسَّكُوا بِالْبَاطِلِ، وَضَيَّعُوا الْحَقّ وَأَضَلُّوا خَلْقَكَ، وَقَتَلُوا أَوْلادَ نَبِيِّكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَخِيَرَةَ عِبادِكَ ‏وَأَصْفِيَاءِكَ، وَحَمَلَةَ عَرْشِكَ، وَخَزَنَةَ سِرِّكَ، وَمَنْ جَعَلْتَهُمْ الْحُكَّامَ فِي‏ سَمَاواتِكَ وَأَرْضِكَ.أَللَّهُمَّ فَزَلْزِلْ أَقْدامَهُمْ، وَأَخْرِبْ دِيارَهُمْ، وَاكْفُفْ سِلاَحَهُمْ وَأَيْدِيَهُمْ، وَأَلْقِ الْإِخْتِلاَفَ فِيمَا بَيْنَهُمْ، وَأَوْهِنْ كَيْدَهُمْ، وَاضْرِبْهُمْ بِسَيْفِكَ الصّارِمِ‏ وَحَجَرِكَ الدَّامِغِ، وَطَمِّهِمْ بِالْبَلاَءِ طَمَّاً، وَارْمِهِمْ بِالْبَلاَءِ رَمْياً، وَعَذِّبْهُمْ ‏عَذَاباً شَدِيداً نُكْراً، وَارْمِهِمْ بِالْغَلاَءِ، وَخُذْهُمْ بِالسِّنِينَ الَّذِي أَخَذْتَ بِهَا أَعْدَاءَكَ، وَأَهْلِكْهُمْ بِمَا أَهْلَكْتَهُمْ بِهِ، أَللَّهُمَّ وَخُذْهُمْ أَخْذَ الْقُرَى وَهِيَ‏ ظالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهَا أَلِيمٌ شَدِيدٌ.

خدایا ! امت نے ائمہ کی مخالفت کی اور کلمه «توحید»  کا انکار کیا ، اور وہ  گمراهی ، کفر ، پستی  ، جهالت اور اندھے پن پر کھڑے ہو گئے ، انہوں نے کتاب کو چھوڑ دیا کہ تو نے جس کی معرفت کا حکم دیا ، اور تیرے وصی کو چھوڑ دیا کہ تونے جس کی اطاعت کا حکم دیا تھا ، پس انہوں نے حق کو مار دیا اور عدل سے رو گرداں ہو گئے ،  اور انہوں نے امت  کو حق سے منحرف کر دیا اور سنت کی مخالفت کی ، اور انہوں نے کتاب کو بدل دیا اور وہ احزاب کے مالک بن گئے ، اور  انہوں نےحق کا انکار کیا  جب وہ ان کے پاس آیا اور وہ باطل سے متمشک ہوئے ، انہوں نے تیری مخلوق کو گمراہ کیا  اور انہوں نے تیرے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی اولاد ، تیرے بہترین بندوں،تیرے برگزیدہ افراد   ، تیرے حاملان عرش  اور تیرے اسرار کے خزینہ داروں کو قتل کیا  کہ جنہیں تو نے اپنے آسمانوں اور زمینوں میں حاکم قرار دیا ہے ۔ خدایا ! ان کے اقدامات کو متزلزل فرما ، ان کے دیار (گھروں) کو ویران فرما ، ان کے اسلحوں اورہاتھوں کو روک دے ، اور ان کے درمیان اختلاف پیدا کر دے ، ان کی مکاریوں اور فریب کاریوں کو کمزور کر دے ، انہیں قاطع شمشیر اور ہلاک کرنے والے پتھر سے مار ، ان پر فراوان بلائیں نازل کر ،اور انہوں بلاؤں کا ہدف قرار دے ، اور ان پر عذاب نازل فرما ، سخت اور دردناک عذاب ، انہیں مہنگائی اور قحط میں مبتلا فرما کہ تو نے اپنے دشمنوں کو اس میں مبتلا کیا ، اور انہیں اسی چیز سے ہلاک فرما جس سے تو نے انہیں ہلاک کیا تھا ۔ خدایا ! انہیں اس طرح سے سزا دے جس طرح تو نے ظالم شہروں اور آبادیوں کو سزا دی  کہ ان کی سزا و مجازات دردناک اور شدید تھی ۔

أَللَّهُمَّ إِنَّ سُبُلَكَ ضائِعَةٌ، وَأَحْكامَكَ مُعَطَّلَةٌ، وَأَهْلَ نَبِيِّكَ فِي الأَرْضِ‏ هائِمَةٌ كَالْوَحْشِ السَّائِمَةِ، أَللَّهُمَّ أَعْلِ الْحَقَّ وَاسْتَنْقِذِ الْخَلْقَ، وَامْنُنْ عَلَيْنا بِالنَّجاةِ وَاهْدِنا لِلاِْيمَانِ، وَعَجِّلْ فَرَجَنَا بِالْقَائِمِ عَلَيْهِ السَّلامُ، وَاجْعَلْهُ لَنا رِدْءاً، وَاجْعَلْنَا لَهُ رِفْداً.أَللَّهُمَّ وَأَهْلِكْ مَنْ جَعَلَ قَتْلَ أَهْلَ بَيْتِ نَبِيِّكَ عِيداً، وَاسْتَهَلَّ فَرَحاً وَسُرُوراً، وَخُذْ آخِرَهُمْ بِمَا أَخَذْتَ بِهِ أَوَّلَهُمْ، أَللَّهُمَّ أَضْعِفِ الْبَلاَءَ وَالْعَذَابَ وَالتَّنْكِيلَ عَلَى الظَّالِمِينَ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ، وَعَلَى ظَالِمِي آلِ بَيْتِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ، وَزِدْهُمْ نَكَالاً وَلَعْنَةً، وَأَهْلِكْ ‏شِيعَتَهُمْ وَقادَتَهُمْ وَجَمَاعَتَهُمْ، أَللَّهُمَّ ارْحَمِ الْعِتْرَةِ الضَّائِعَةِ الْمَقْتُولَةِ الْذَّلِيلَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ الطَّيِّبَةِ الْمُبارَكَةِ.أَللَّهُمَّ أَعْلِ كَلِمَتَهُمْ، وَأَفْلِجْ حُجَّتَهُمْ، وَثَبِّتْ قُلُوبَهُمْ وَقُلُوبَ شِيعَتِهِمْ‏ عَلَى مُوَالاَتِهِمْ، وَانْصُرْهُمْ وَأَعِنْهُمْ وَصَبِّرْهُمْ عَلَى الأذَى فِي جَنْبِكَ، وَاجْعَلْ لَهُمْ أَيَّاماً مَشْهُوداً وَأَيَّاماً مَعْلُومَةً، كَما ضَمِنْتَ لِأَوْلِياءِكَ فِي ‏كِتَابِكَ الْمُنْزَلِ، فَإِنَّكَ قُلْتَ: «وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ‏لِيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ ‏دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً» [1] ۔أَللَّهُمَّ أَعْلِ كَلِمَتَهُمْ يَا لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، يَا لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، يَا لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ، يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ، فَإِنِّي عَبْدُكَ الْخائِفُ مِنْكَ وَالرَّاجِعُ ‏إِلَيْكَ، وَالسَّائِلُ لَدَيْكَ وَالْمُتَوَكِّلُ عَلَيْكَ، وَاللاَّجِئُ  بِفِنَاءِكَ، فَتَقَبَّلْ دُعَائِي ‏وَاسْمَعْ نَجْوَايَ، وَاجْعَلْنِي مِمَّنْ رَضِيتَ عَمَلَهُ وَهَدَيْتَهُ، وَقَبِلْتَ نُسُكَهُ‏ وَانْتَجَبْتَهُ، بِرَحْمَتِكَ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْوَهَّابُ.أَسْئَلُكَ يَا اَلله بِلاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ أَلا تُفَرِّقَ بَيْنِي وَبَيْنَ مُحَمَّدٍ وَالْأَئِمَّةِ صَلَواتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ، وَاجْعَلْنِي مِنْ شِيعَةِ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ - وتذكرهم واحداً واحداً بأسمائهم إلى القائم ‏عليه السلام - وَأَدْخِلْنِي فِيما أَدْخَلْتَهُمْ فِيهِ‏ وَأَخْرِجْنِي مِمَّا أَخْرَجْتَهُمْ مِنْهُ.

خدایا ! تیرے راستے ضائع اور تیرے احکام معطل ہو گئے اور تیرے نبی کی آل زمین پر حیران و سرگران ہو گئی ۔ خدایا ! حق کو بلند فرما اور خلق کو نجات دے اور ہمیں نجات دے کر ہم  پر احسان کر ، اور ایمان سے ہماری ہدایت فرما ، اور امام قائم علیہ السلام کے وسیلہ سے ہمارے کام کی گشائش میں تعجیل فرما ، اور انہیں ہمارامددگار اور ہمیں ان کا یاور قرار دے ۔خدایا ! ہر اس شخص کو ہلاک فرما کہ جس نے تیرے پیغمبر کی اہلبیت کو قتل کرنے پر عید قرار دی اور اس پر خوشی و  مسرت کا اظہار کیا ، اور جس سے ان کے اوّل کا مؤاخذہ کیا تھا ، اسی سے ان کے آخر کا مؤاخذہ کر ۔خدایا ! ان کے اوّلین و آخرین میں سے ظالموں اور ستمگروں پر اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہلبیت (علیہم السلام) پر ظلم و ستم کرنے والوں پر بلا و عذا ب اور شکنجہ میں اضافہ فرما، اور ان پر نفرین و لعن میں اضافہ کر ، اور ان کے پیروکاروں اور ان کے پیشواؤں اور ان کی سب جماعت کو ہلاک فرما ۔ خدایا ! شجرۂ طیبۂ مبارکہ سے عترت طاہرہ پر رحم فرما کہ جن (کے حق کو )ضائع کیا ، جنہیں خوار اور قتل کیا گیا ۔خدایا ! ان کے کلمہ و سخن کو بلند فرما اور  ان کی حجت کو کامیاب فرما ، ان کے دلوں کو ثابت اور ان کے شیعوں کے دلوں کو ان کی ولایت و محبت پر استوار رکھ ۔ ان کی نصرت فرما اور ان کی مدد کر ، اور انہیں اپنی راہ میں آنے والی مصیبتوں اور اذیتوں پر صابر قرار دے ۔ان کے لئے ایّام مشہود اور ایّام معلوم قرار دے ، جس طرح تو نے اپنے نازل شدہ  کتاب میں اپنے اولیاء کے لئے ضمانت دی ہے ۔ بیشک تو نے فرمایا ہے : «خدا نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے  اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کر دے گا »۔ خدایا! ان کے کلمہ کو بلند فرما ، اے وہ ذات جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اے وہ ذات جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اے وہ ذات جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ، اے زندہ ، اے پائندہ ،  بیشک میں تیرا بندہ ہوں جو تجھ سے خوفزدہ ہے اور  مجھے تیری طرف ہی پلٹنا ہے ، میں تیری بارگاہ کا سوالی ہوں ، اور تجھ پر توکل کرتا ہوں ، اور تیرے حضور پناہ مانگتا ہوں ، پس میری دعا کو قبول فرما ، اور میرے راز و نیاز کو سن ،اور مجھے ان میں سے قرار دے  جن کے عمل کو تو نے پسند کیا اور جن کی تو نے ہدایت کی اور جن کی عبادت کو قبول کیا  اور جنہیں برگزیدہ قرار دیا ۔ اپنی رحمت کے واسطے سے ، بیشک تو  عزیز اور بخشنے والا ہے ۔  میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ، اے (وہ) خدا ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں  ؛  میرے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ائمہ صلوات اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جدائی پیدا نہ کر ، اور مجھے محمد و آل محمد علیہم السلام کے شیعوں میں سے قرار دے  ـ ان میں سے امام قائم علیہ السلام  تک ہر ایک کا نام  ذکر کریں ـ اور مجھے اسی میں داخل فرما کہ جس میں انہیں داخل فرمایا ،اور مجھے ان سے خارج فرما کہ جس سے انہیں خارج فرمایا ۔

پھر اپنے دونوں رخسار کو زمین پر خاک آلود کریں اور کہیں :

يا مَنْ يَحْكُمُ بِمَا يَشَاءُ وَيَعْمَلُ ما يُرِيدُ، أَنْتَ حَكَمْتَ فِي أَهْلِ بَيْتِ ‏مُحَمَّدٍ مَا حَكَمْتَ، فَلَكَ الْحَمْدُ مَحْمُوداً مَشْكُوراً، وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ ‏وَفَرَجَنَا بِهِمْ، فَإِنَّكَ ضَمِنْتَ إِعْزَازَهُمْ بَعْدَ الذِّلَّةِ، وَتَكْثِيرَهُمْ بَعْدَ الْقِلَّةِ، وَإظْهارَهُمْ بَعْدَ الْخُمُولِ، يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.أَسْئَلُكَ يَا إِلَهِي وَسَيِّدِي بِجُودِكَ وَكَرَمِكَ أَنْ تُبَلِّغَنِي أَمَلِي وَتَشْكُرَ قَلِيلَ عَمَلِي، وَأَنْ تَزِيدَ فِي أَيَّامِي، وَتُبَلِّغَنِي ذَلِكَ الْمَشْهَدَ، وَتَجْعَلَنِي مِنَ ‏الَّذِينَ دُعِيَ فَأَجابَ إِلَى طَاعَتِهِمْ وَمُوَالاَتِهِمْ، وَأَرِنِي ذَلِكَ قَرِيباً سَرِيعاً إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ.

اے وہ جو چاہتا ہے وہی حکم دیتا ہے ، اور جس کا رادہ کرتا ہے وہی انجام دیتاہے ، تو نے اہل بیت محمد کے بارے میں حکم دیا کہ جس سے تو نے حکم دیا ، پس حمد و ثناء تیرے لئے ہی ہے ، جب کہ تو محمود و مشکور  ہے ۔ ان کی گشائش اور ان کے وسیلہ سے ہماری گشائش میں تعجیل فرما  کہ تو نے خواری کے بعد ان کی عزت ، قلت  کے بعد ان کی کثرت اور گمنامی کے بعد ان کے ظاہر و آشکار ہونے  کی ضمانت دی ہے ، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ، اے میرے معبود ، اے میرے سید و  سردار ، تجھے تیرے جود وکرم کا واسطہ ! مجھے میری آرزو تک پہنچا دے   ، اور مجھے میرے قلیل عمل کے اجر سے نواز دے ، اور میرے ایّام میں اضافہ فرما ، اور مجھے حرم مطہر اور شہادت گاہ تک پہنچا دے ، اور مجھے ان لوگوں میں سے قرار دے جنہیں دعوت دی گئی اور اس نے ان کی اطاعت اور محبت و پیروی کی دعوت پر لبیک کہا ، اور انہیں مجھ سے قریب اور سریع فرما ،  بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔

پھر اپنا سر آسمان کی طرف بلند کریں ۔ بیشک یہ حج و عمرہ سے افضل ہے ۔ اور جان لو ! جو شخص بھی اس دن یہ نماز پڑھے گا اور اس دعا کے ذریعے خدا کو پکارے ، خداوند عزّ وجل اسے دس خصلتیں عطا فرمائے گا  اور وہ دس خصلتیں یہ ہیں :خداوند متعال  اسے بری اور ناگوار موت سے محفوظ رکھے گا ، اس کے خلاف دشمن کی مدد نہیں کرے گا  یہاں تک کہ دنیا سے چلا جائے ، اسے ناپسندیدہ  امور  اور فقر سے محفوظ رکھے گا ، اور خدا اسے جنون اور جذام سے امان میں رکھے گا ، اور چالیس نسلوں تک اس کی اولاد کو بھی اس سے امان میں رکھے گا ،  اور اس کے خلاف شیطان اور شیطان کے اولیاء کو راہ نہیں دے گا ۔

راوی کہتا ہے : میں نے عرض کیا :

اَلْحَمْدُ لِله الَّذِي مَنَّ عَلَيَّ بِمَعْرِفَتِكُمْ وَمَعْرِفَةِ حَقِّكُمْ وَأَدَاءِ مَا افْتَرَضَ لَكُمْ بِرَحْمَتِهِ‏ وَمَنِّهِ وَهُوَ حَسْبِي وَنِعْمَ الْوَكِيلُ.[2]

حمد و ثناء اس خدا کے لئے ہے جس نے مجھ پر آپ کی معرفت اور آپ کے حق کی معرفت ، اور آپ کے لئے فرض کئے گئے امور کو ادا کرنے سے احسان  کیا ، اپنی رحمت اور لطف سے ، میرے لئے وہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے ۔

 


[1] ۔ سورۂ نور ، آیت : ۵۵

[2] ۔ اقبال الأعمال : ۴۲۔

 

ملاحظہ کریں : 2421
آج کے وزٹر : 15359
کل کے وزٹر : 19532
تمام وزٹر کی تعداد : 128848009
تمام وزٹر کی تعداد : 89513981