حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
محرم کی پہلی رات کے اعمال کا بیان

محرم کی پہلی رات کے اعمال کا بیان

جلیل القدر سید علی بن طاووس; کتاب اقبال الاعمال میں فرماتے ہیں :جان لیں ! زمانے کے ائمہ علیہم السلام  اور صاحبانِ احسان  کے ساتھ خوشی اور غم میں شریک ہونا اہل صفاء ، صاحب وفا اور ولاء و محبت کے مخلصین کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس عشرے کے دوران سید الأنبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذریت کو قتل کرنے  کے لئے دشمن جمع ہوئے ، اور وہ لوگ پروردگار عالم ، مالک دنیا و آخرت کی حرمت کو پامال کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ، وہ  ظاہری و باطنی نعمتوں کے حامل پیغمبر یعنی  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت شکنی کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ، اور انہوں نے اسلام و مسلمین کی حرمت کو پامال کرنے کے لئے ہجوم کیا  اور دین و دنیا کے امور میں فسادکے لئے حزن کا لبادہ  پہنا گیا ۔

پس اس  ماہ کی پہلی رات سے ہی چہرے اور حرکات و سکنات میں بڑی مصبتوں میں اہل مصائب کی نشانیاں ظاہر ہونی چاہئیں ، اور انسان پر غم و حزن طاری ہونا چاہئے  اور اس عمل سے اولیائے الٰہی کے ساتھ محبت کے اظہار اور ان کے دشمنوں سے  دشمنی اور برائت کا اظہار کرے ۔ عقول میں اس کا بیان اور منقول میں اس کی شرح موجود ہے ۔

مؤلّف کا بیان ہے : ائمۂ معقول علیہم السلام کی احادیث ( کہ منقول جس کی تصدیق کرتیں ہیں)میں ایک حدیث ہے ،  جسے شیخ صدوق نے امالی میں مختلف طرق سے اور انہوں نے اپنی سند سے ابراہیم بن ابی محمود سے روایت کیا ہے  اور ابراہیم بن ابی محمود نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

إنّ المحرم شهر كان أهل الجاهليّة يحرّمون فيه القتال، فاستحلّت فيه‏ دماؤنا، وهتكت فيه حرمتنا، وسبي فيه ذرارينا ونساؤنا، واُضرمت النيران‏ في مضاربنا، وانتهب ما فيها من ثقلنا، ولم يُرع لرسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حرمة في أمرنا.

إنّ يوم الحسين أقرح جفوننا، وأسبل دموعنا، وأذلّ عزيزنا. يا أرض ‏كربلا؛ أورثتنا الكرب والبلاء إلى يوم القيامة، فعلى مثل الحسين‏ عليه السلام‏ فليبك الباكون؛ فإنّ البكاء عليه يحطّ الذنوب العظام.

 اہلِ جاہلیت ماہ محرم میں جنگ کرنا حرام سمجھتے تھے لیکن انہوں نے اس مہینے میں ہمارا خون بہانا حلال سمجھا ، اور اس مہینے میں ہتک حرمت کی ، اور اس مہینے میں  ہماری خواتین اور بچوں کو اسیر بنایا ، اور اس مہینے میں ہمارے خیموں کو نذرِ آتش کیا، اور اس مہینے میں ہمارے مال و اسباب لوٹے گئے  اور ہمارے حق میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت کی رعایت نہیں کی۔

بیشک امام حسین علیہ السلام (کی شہادت )کے دن نے ہماری پلکوں کو زخمی کر دیا ہے ، ہمارے آنسو جاری کر دیئے ہیں ، اور ہمارے عزیزوں کو خوار کیا۔ اے سرزمین کربلا! تو نے قیامت تک ہمیں غم و حزن کا وارث بنا دیا ،  پس رونے والوں کو  حسین (علیہ السلام) جیسی ہستی پر رونا چاہئے  کیونکہ آپ پر رونا بڑے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔

پھر  آپ نے فرمایا :

كان أبي صلوات الله عليه إذا دخل شهر المحرم لايرى ضاحكاً وكانت‏ كآبته تغلب عليه حتّى يمضي منه عشرة أيّام، فإذا كان يوم العاشر كان ‏ذلك اليوم يوم مصيبته وحزنه وبكائه، ويقول: هذا اليوم الذي قتل فيه‏ الحسين ‏عليه السلام.

جب ماہ محرم آتا تھا تو کوئی شخص میرے والد بزرگوار (حضرت امام موسٰی کاظم صلوات اللہ علیہ ) کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھتا تھا اور ،آپ پر غم و حزن کا غلبہ ہوتا تھا ، یہاں تک کہ دس دن گزر جاتے تھے  اور جب دس محرم کا دن آتا تو اس دن آپ کے لئے غم و حزن ، مصیبت اور آہ و بکاء کا دن ہوتا اور آپ فرماتے تھے کہ  آج وہ دن ہے جس میں امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا ۔

جو کچھ نقل کیا گیا ہے وہ شیخ صدوق ؒ کی حدیث ہے جو انہوں نے اپنی سند سے ریّان بن شبیب سے روایت کی ہے ۔ ریّان کہتے ہیں : میں یکم محرم الحرام کو حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: اے فرزند شبیب! روزہ دار ہو؟  میں نے عرض کیا: نہیں۔

حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : آج وہی دن ہے کہ  جس دن حضرت زکریا نبی (علیہ السلام) نے دعا کی اور خداوند متعال سے التجا کی: ’’رَبِّ هَب لیِ مِن لَدُنکَ ذُرِّیَّةً طَیّبَةً إنَّکَ سَمِیعُ الدُّعاءِ‘‘ [1] پروردگارا ! مجھے اپنی طرف سے ایک پاکیزہ اولاد عطا فرما کہ بیشک تو ہر ایک کی دعا سننے والا ہے ۔خداوند متعال نے حضرت زکریا (علیہ السلام ) کی دعا قبول فرمائی اور ملائکہ کو حکم دیا  کہ زکریا علیہ السلام کو خبر دیں :’’وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي  فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللهَ ‏يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَى مُصَدِّقاً‘‘[2]جب وہ محراب میں کھڑے مصروفِ عبادت  تھے  کہ  خدا نے تمہیں یحیی کی بشارت دے رہا ہے ۔

پس جو شخص بھی اس دن روزہ رکھے اور پھر دعا کرے، خداوند متعال اس کی دعا کو مستجاب فرمائے گا کہ جس طرح زکریا (علیہ السلام) کی دعا کو مستجاب فرمایا۔

پھر آپ نے فرمایا : اے فرزند شبیب ! محرم ایسا مہینہ ہے کہ اہل جاہلیت اس کے احترام میں اس مہینے کے دوران جنگ اور خونریزی کرنا حرام سمجھتے تھے ، لیکن اس امت نے اس مہینے کی حرمت کا خیال نہیں رکھا  اور اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے احترام کی رعایت نہیں کی ، اس مہینے میں آپ کی ذرّیت کو شہید کیا ،  ان کی خواتین اور بچوں کو اسیر بنالیا ، اور ان کے اموال و اسباب کو لوٹ لیا ،  خدا ہرگز ان کی مغفرت نہ کرے ۔ اے فرزند شبیب ! اگر کسی چیز پر گریہ کرنا چاہو تو حسین بن علی علیہما السلام پر گریہ کرو ، کیونکہ گوسفند کی طرح ذبح کیا  اور ان کے ساتھ ان کے اہل بیت سے اٹھارہ افراد کو قتل کیا کہ جن کی روئے زمین پر کوئی نظیر و مثال نہیں ملتی ۔

اسی طرح حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: محرم الحرام شروع ہوتے ہی میرے والد بزرگوار کو   کسی نے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، حضرتؑ پر غم و اندوہ کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے اور یہ ہی حال رہتا تھا یہاں تک کہ دس دن گزرجاتے، جب عاشور کا دن آتا تو وہ ان کے غم و اندوہ اور گریہ کا دن ہوتا تھا اور آپ فرماتے تھے: عاشور وہ دن ہے کہ جس دن حسین (علیہ السلام) قتل ہوئے۔

بے شک شہادتِ حسین (علیہ السلام) کی مصیبت نے ہماری آنکھیں زخمی کردیں، ہمارے آنسو جاری کردیئے اور سرزمین کربلا میں قیامت تک ہماری بے احترامی کی، پس رونے والوں کو  امام حسین (علیہ السلام) جیسی(مظلوم) ہستی پر رونا چاہئے  کیونکہ آپ پر رونا گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔

ساتوں آسمانوں اور زمینوں نے آپ پر گریہ کیا، آپ کی نصرت کے لئے چار ہزار ملائکہ زمین پر نازل ہوئے  لیکن جب وہ پہنچے تو آپ شہید ہو چکے تھے ۔ پس وہ ہمیشہ آپ کی قبر کے کنارے پریشان بالوں کے ساتھ غبار آلود رہیں گے ، اس دن تک کہ جب قیام کرنے والا قیام کرے ۔ پس وہ آنحضرت کے مددگاروں میں سے ہوں گے اور ان کا نعرہ «یالثارات الحسین» ہو گا  ، یعنی ہم خون حسین کے طلبگار ہیں ۔

اے فرزند شبیب ! میرے بابا نے اپنے والد گرامی اور انہوں نے اپنے جد  امجد سے روایت کیا ہے  کہ جب میرے جدّ حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا تو آسمان نے خون اور سرخ خاک برسائی ۔ اے فرزند شبیب ! اگر تم نے امام حسین علیہ السلام کے غم  میں اس طرح سے گریہ کیا کہ تمہارے آنسو تمہارے رخساروں پر جاری ہو جائیں تو خداوندمتعال تمہارے تمام گناہوں کو بخش دے گا ، چاہے وہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ ، چاہے وہ زیادہ ہوں یا کم ۔

اے فرزند شبیب !  اگر تم اس بات پر مسرور ہو کہ تم اس حالت میں خدا سے ملاقات کرو کہ تم پر کوئی گناہ نہ ہو تو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرو ۔

اے فرزند شبیب !  اگر تم اس بات پر مسرور ہو  کہ تم جنت میں بنے ہوئے مکان میں محمد و آل محمد (علیہم السلام ) کے ساتھ رہو  تو امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر لعنت کرو ۔

اے فرزند شبیب !  اگر تم اس بات پر مسرور ہو  کہ تمہیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ شہید ہونے والوں کی طرح ثواب ملے تو جب بھی امام حسین علیہ السلام کو یاد کرو تو کہو : يَا لَيْتَني كُنْتُ مَعَهُمْ، فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً. اے کاش کہ میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم کامیابی حاصل کرتا۔

اے فرزند شبیب ! اگر تم چاہتے ہو کہ ہمارے ساتھ بہشت کے اعلیٰ درجات میں رہو  تو ہمارے غم میں محزون و غمزدہ اور  ہماری خوشی میں خوش رہو  اور تم پر لازم ہے کہ ہماری  ولایت کے ساتھ  رہو ، کیونکہ اگر کوئی کسی پتھر سے محبت کرتا ہو تو خدا قیامت کے دن اسے اس کے ساتھ ہی محشور فرمائے گا ۔[3]

 


[1] ۔  سورۂ آل عمران ، آیت : ۳۸ ۔

[2] ۔ سورۂ آل عمران ، آیت : ۳۹ ۔

[3] ۔ هديّة الزائرين وبهجة الناظرين: ۱۶۵، بحار الأنوار: ۲۸۵/۴۴، اور جلد  ۱۰۲/۱۰۱ ح۳، وسائل الشيعة: ۳۲۴/۱۰، زادالمعاد: ۳۷۱.

 

ملاحظہ کریں : 2391
آج کے وزٹر : 21705
کل کے وزٹر : 28544
تمام وزٹر کی تعداد : 128421518
تمام وزٹر کی تعداد : 89300703