حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
حضرت حکيمه خاتون کا حضرت امام زمانہ عليه السلام کو آپ کی ولادت کے چالیس دن کے بعد دیکھنا

حضرت حکيمه خاتون کا حضرت امام زمانہ عليه السلام کو آپ کی ولادت کے چالیس دن کے بعد دیکھنا

********************************************

 ۲۵ماه مبارک رمضان: حضرت حکيمه خاتون کا حضرت امام زمانہ عليه السلام کو آپ کی ولادت کے چالیس دن کے بعد دیکھنا (سنہ ۲۵۵ ہجری)

********************************************

 جليل القدر عالم شیخ علىّ بن الحسين بن بابويه صدوق رحمه الله اپنی کتاب «كمال‏ الدين» میں لکھتے ہیں: حضرت امام حسن عسكرى عليه السلام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون؛ حضرت حجّت ارواحنا فداه کی ولادت کے بارے میں ایک مفصل حدیث نقل ہوئی ہے، اور وہ بیان کرتی ہیں:

 (جب حضرت امام حسن عسكرى عليه السلام نے اپنے فرزند ارجمند امام زمان عليه السلام کی ولادت باسعادت کی خوشخبری سنائی تو اس کے بعد مجھ سے فرمایا: « آپ آج کی رات ہمارے پاس ہی رک جائیں » اور میں نے بھی آپ کے حکم کی اطاعت کی اور حضرت نرجس خاتون عليہا السلام کی خدمت میں موجود رہی)، اس رات طلوع فجر تک میں اس باعظمت خاتون کی نگہبان و محافظ رہی، وہ میرے پاس آراسم سے محو خواب رہیں، یہاں تک کہ کروٹ بھی نہ بدلی۔ طلوع فجر کا وقت قریب تھا کہ اچانک خوف سے لرزتے ہوئے بیدار ہوئیں، میں ان کی طرف بڑھی انہیں سینے سے لگایا اور ان کے اوپر نام خدا کا دم کیا۔

امام حسن عسكرى عليه السلام نے بلند آواز سے فرمایا:

(پھوپھی جان !) ان پر سورہ «إنَّا أنْزَلْناهُ في لَيْلَةِ الْقَدْرِ»(1) پڑھیں۔

میں نے سورہ پڑھنا شروع کیا اور تھوڑی دیر کے بعد آپ نے پوچھا: اب کیا حال ہے؟

انہوں نے کہا: میرے مولا و آقا نے جس کی آپ کو خبر دی تھی ، وہ ظاہر ہو گیا ہے۔

میں اس طرح سے ہوں جیسے آقا نے فرمایا تھا۔ میں ان پر سورہ پڑھتی رہی، پھر میں اچانک متوجہ ہوئی کہ وہ بچہ شکم مادر میں میرے ہمراہ پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے مجھے سلام کیا، جب میں نے ان کی آواز سنی تو ڈر گئی اور حیران و پریشان ہو گئی۔

حضرت امام حسن عسكرى عليه السلام نے آواز دی:

لاتعجبي من أمر اللَّه عزّوجلّ، إنّ اللَّه تبارك وتعالى ينطقنا بالحكمة صغاراً،ويجعلنا حجّة في أرضه كباراً.

(پھوپی جان!) خدا کے کام سے حیران نہ ہوں، بیشک خداوند متعال نے ہمیں بچپن میں حکمت سے بولنا سکھایا ہے اور  جوانی میں اپنی زمین پر حجت قرار دیا ہے۔

ابھی امام عليه السلام کی گفتگو تمام نہیں ہوئی تھی کہ حضرت نرجس عليہا السلام میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گئیں، پھر میں نے انہیں نہیں یدکھا، گویا میرے اور ان کے درمیان پردہ حائل ہو گیا ہو، اسی وجہ سے میں نے فریاد بلند کی اور میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی طرف دوڑی۔

امام عليه السلام نے فرمایا:

پھوپھی جان ! پلٹ آئیں، آپ انہیں بہت جلد اپنی جگہ پر دیکھیں گی۔

میں اسی کمرے میں واپس آئی اور ابھی زایدہ وقت نہیں گذرا تھا کہ پردہ ہٹ گیا، میں نے حضرت نرجس عليہا السلام کو دیکھا اور ان سے ایک نور چمکا جس نے میری آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔ اس دوران میں نے ایک بچہ کو دیکھا کہ جس نے سجدہ میں سر رکھا ہوا ہے، جب اس نے سجدہ سے سر اٹھایا تو دو زانو ہو کر بیٹھ گیا اور انگشتِ شہادت آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئئے کہا:

أشهد أن لا إله إلّا اللَّه وحده لا شريك له، وأنّ جدّي [محمّداً] رسول ‏اللَّه صلى الله عليه وآله وسلم، وأنّ أبي أميرالمؤمنين عليه السلام.

میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور بیشک میرے جد بزرگوار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کے پیغمبر اور میرے پدر امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں۔

یہاں تک کہ انہوں نے ایک ایک کر کے تمام ائمۂ معصومین عليہم السلام کے نام لئے اور جب اپنے اسم مبارک پر پہنچے تو فرمایا:

اللهمّ انجز لي وعدي، وأتمم لي أمري، وثبّت وطأتي، واملأ الأرض بي عدلاًوقسطاً.

خداوندا! میرے ساتھ جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما، اور میرے امر کو آخر تک پہنچا، میرے قدموں کو ثابت و استوار رکھ، میرے وسیلہ سے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے۔

ای دوران امام حسن عسكرى عليه السلام نے بلند آواز سے فرمایا:

پھوپھی جان! اسے پکڑ کر میری پاس لے آئیں۔

میں نے اس خوبسورت بچے کو بغلگیر کیا اور امام عليه السلام کی خدمت اقدس میں لے آئی، جب میں ان کے والد گرامی کے سامنے کھڑی ہوئی تو اس وقت یہ بچہ میرے ہاتھوں میں تھا، اس نے اپنے والد گرامی کی خدمت میں سلام عرض کیا۔

امام عليه السلام نے اسے پکرا جب کہ اس وقت آپ کے اوپر کچھ پرندے پروان کر رہے تھے۔ امام علیہ السلان ے اپنی زبان مبارک اپنے بیٹے کے منہ میں دی، اس نے زبان چوسنی اور اس کے بعد میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

(پھوپھی جان!) اس بچے کو اس کی ماں کے پاس لے جائیں تا کہ وہ اسے دودھ پلائی اور پھر اسے میرے پاس لے آئیں۔

میں اپنے آقا کے حکم کے مطابق اس خوبصورت بچہ کو اس کی ماں کے پاس لے گئی اور انہوں نے جب اسے دودھ پلا دیا تو میں اس بچے کو دوبارہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں لے آئی، جب کہ ابھی تک وہ پرندے آنحضرت کے سر کے اوپر پرواز کر رہے تھے، آنحضرت نے ایک پرندے کو آواز دیتے ہوئے فرمایا:

إحمله واحفظه وردّه إلينا في كلّ أربعين يوماً.

اس بچے کو لے جاؤ اور اس کی حفاظت کرو اور چالیس دن کے بعد میرے پاس لے آنا۔

اسی دوران میں نے سنا کہ حضرت امام حسن عسكرى عليه السلام نے اپنے بیٹے کے جانے کے بعد فرمایا: میں تمہیں خدا کے حوالہ کرتا ہوں کہ حضرت موسى عليه السلام کی والدہ نے اپنے بیٹے کو خدا کے سپرد کر دیا تھا۔

جب حضرت نرجس عليہا السلام نے دیکھا تو رونے لگیں۔

امام عليه السلام نے ان سے فرمایا:

اسكتي! فإنّ الرضاع عليه محرّم إلّا من ثديك وسيعاد إليك‏ كما ردّ موسى إلى اُمّه؛

خاموش ہو جاؤ! وہ تمہارے علاوہ کسی اور کا دودھ نہیں پیئے گا کیونکہ دوسروں کا دودھ اس پر حرام ہے، عنقریب وہ تمہارے پاس واپس آ جائے گا جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ کی طرف واپس کیا گیا تھا.

اور یہ خداوند متعال کا فرمان ہے کہ وہ فرماتا ہے:

«فَرَدَدْناهُ إِلى اُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُها وَلاتَحْزَنَ»(2)؛

« پھر ہم نے موسی کو اس کی ماں کی طرف پلٹا دیا تا کہ ان کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے اور پریشان نہ رہیں »

حضرت حكيمه کہتی ہیں: میں نے امام عليه السلام سے پوچھا : وہ پرندہ کیسا تھا؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:

هذا روح القدس الموكّل بالأئمّة عليهم السلام يوفّقهم ويسدّدهم ويربّيهم بالعلم؛

وہ روح القدس تھا جو ائمہ کا محافظ ہے ، وہ انہیں موفق اور محم و استوار رکھتاہے۔ نیز علم و دانش کے ذریعہ ان کی تربیت کرتا ہے۔

چالیس دن گذر گئے، اور پھر اس خوبصورت بچہ کو میرے بھتیجے کے پاس پلٹا دیا گیا۔

جب میں ان کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوئی تو ایک بچہ دیکھا جو آنحضرت کے سامنے چل رہا تھا ، میں نے حیرت سے عرض کیا: مییرے آقا و مولا! یہ بچہ دو سلام کا معلوم ہوتا ہے؟

امام عليه السلام مسکرائے اور فرمایا:

إنّ أولادالأنبياءوالأوصياء إذا كانوا أئمّة ينشؤون بخلاف ما ينشؤ غيرهم، وإنّ ‏الصبيّ منّا إذا أتى عليه شهر كان كمن يأتي عليه سنة، وإنّ الصبيّ منّا ليتكلّم في ‏بطن اُمّه ويقرأ القرآن ويعبد ربّه عزّوجلّ وعند الرضاع تطيعه الملائكة وتنزل‏ عليه صباحاً ومساءً.

بیشک انبیاء اور اوصیاء کی اولاد جب مقام امات پر فائز ہو تو ان کی نشو و نما دوسرے بچوں سے فرق کرتی ہے۔ ہمارے بچہ اپنی ماں کے شکم میں تکلم کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، خدا کی عبادت کرتے ہیں اور شیر خوارگی کے دوران فرشتے ان کے حکم کے تابع ہوتے ہیں اور ہر صبح و شام ان کے فرامین جاری کرنے کے لئے ان کے ہاں نازل ہوتے ہیں۔ (3)


1) سوره قدر، آيه 1؛ «ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا» ۔

2) سوره قصص، آيه 13۔

3) كمال الدين: 426/2 ح2، بحار الأنوار: 11/51 ح 14۔ 

 

منبع: فضائل اہلبیت علیہم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ: ج 2 ص 779 ح 1151

 

 

ملاحظہ کریں : 1121
آج کے وزٹر : 19347
کل کے وزٹر : 23196
تمام وزٹر کی تعداد : 127633827
تمام وزٹر کی تعداد : 88888932