حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
پيغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے توسط سے مہاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت قائم کرنے کے بارے میں کچھ مطلب

پيغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم  کے توسط سے مہاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت قائم کرنے کے بارے میں کچھ مطلب

*************************************************************

12 ماه مبارک رمضان سنہ ۱ ہجری؛ پيغمبراسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے توسط سے مہاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت قائم کرنا

**************************

 شيخ بزرگوار ، فقيه دانشمند جناب محمّد بن جعفر مشہدى قدس سره كتاب «ما اتّفق فيه من الأخبار في فضل الأئمّة الأطهار عليهم السلام» میں لکھتے ہیں :

    عبداللَّه بن عبّاس و عبدالرحمان بن عوف کہتے ہیں: ایک دن رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم اپنی مسجد میں تشریف فرما تھے کہ اچانک جبرئيل امين نازل ہوئے اور کہا: اے محمّد ! خداوند علىّ اعلا نے آپ پر درود بھیجا ہے اور فرمایا ہے: پڑھو !

پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا :

کیا پڑھوںَ؟ جبرئيل نے عرض كیا : پڑھیں :

«إِنَّ الْمُتَّقينَ في جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ * اُدْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنينَ * وَنَزَعْنا ما في صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْواناً عَلى سُرُرٍ مُتَقابِلينَ * لايَمَسُّهُمْ فيها نَصَبٌ وَما هُمْ مِنْها بِمُخْرَجينَ »(346) .

« بیشک صاحبان تقویٰ باغات اور چشموں کے درمیان رہیں گے، انہیں حکم ہو گا کہ تم باغات میں سلامتی اور حفاظت کے ساتھ داخل ہو جاؤ اور ہم نے ان کے سینوں سے ہر طرح کی کدورت نکال لی ہے اور وہ بھائیوں کی طرح آمنے سامنے تخت پر بیٹھے ہوں گے۔ نہ انہیں کوئی تکلیف چھو سکے گی اور نہ وہاں سے نکالے جائیں گے ».

 پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: اے جبرئیل! جنہیں خداوند متعال نے بھائی بھائی قرار دیا ہے کہ ایک دوسرے کے روبرو تخت نشین ہوں گے، کون ہیں؟

 جبرئيل نے عرض کیا: وہ آپ کے برگذیدہ اصحاب ہیں  جنہوں نے آپ سے کئے ہوئے وعدہ کو پورا کیا اور عہد و پیمان کی خلاف ورزی نہیں کی۔

آگاہ ہو جائیں! خداوند متعال آپ کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر ان کے درمیان اسی طرح سے عقد اخوت و برادری قائم کریں، جس طرح خداوند متعال نے آسمان پر ان کے درمیان عقد اخوت و برادری قائم کیا ہے۔

 پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا : میں انہیں نہیں پہچانتا ہوں.

 جبرئيل نے کہا : میں آپ کے حضور ہوا میں کھڑا ہوں، جب کوئی مؤمن شخص کھڑا ہو گا تو میں آپ سے کہوں گا کہ فلاں فلاں شخص مؤمن ہے، آپ کھڑے ہو جائیں اور ان دونوں کے درمیان عقد اخوت و برادری قائم کریں۔ جب کوئی کافر کھڑا ہو گا تو میں ااپ کی خدمت میں عرض کروں گا کہ فلاں فلاں شخص کافر ہے ان دونوں کے درمیان عقد اخوت قائم کریں۔

 پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا : اے جبرئيل ! ایسے ہی کروں گا.

    اسی وقت  پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم کھڑے ہوئے ، مؤمن کا مؤمن کے ساتھ اور کافر کا کافر کے ساتھ عقد اخوت قائم کیا۔

اسی دوران منافقین شور و گوغا کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے محمد ! اس کام میں کیا راز مخفی ہے؟ آپ نے ہمارے ساتھ ایسا برتاؤ کیا ہے کہ ہمیں پراکندہ طور پر چھوڑ دیا ہے اور ہمارے ساتھ علیدہ سے عقد اخوت قائم نہیں کیا چونکہ خداوند متعال ان کی نیت سے آگاہ تھا، اسی لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر یہ آیت نازل فرمائی: 

 «ما كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنينَ عَلى ما أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَميزَ الْخَبيثَ مِنَ الطَّيِّبِ» ؛(347)

 «خداوند متعال صاحبان ایمان کو انہیں حالات میں نہیں چھوڑ سکتا جب تک خبیث اور طیب کو الگ الگ نہ کر دے» .

    جب پيغمبر اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے یہ آیۂ مبارکہ پڑھی تو لوگ خاموش ہو گئے۔

    پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے دوبارہ سے ان کے درمیان عقد اخوت و برادری قائم کرنا شروع کیا حتی کہ تمام اصحاب کے درمیان عقد اخوت قائم کیا چاہے وہ مؤمن تھے یا منافق۔

    کچھ وقت ہی گذرا تھا کہ پیغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے علىّ بن ابى طالب عليہما السلام کی طرف رخ کیا اور آپ نے دیکھا کہ علی علیہ السلام ایک گوشہ میں بیٹھے ہوے ہیں اور آہستہ آہستہ گریہ کر رہے ہیں، آپ کے سینہ میں دم گھٹ رہا تھا اور آپ کی آنکھوں سے اشک چہرہ پر رواں تھے۔ پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:

 اے ابو الحسن ! آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ خداوند آپ کی آنکھوں کو نہ رلائے۔

 على عليه السلام نے عرض كیا : میں اپنے آپ پر گریہ کر رہا ہوں ؟

 پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا : اے میری جان! اے علی ! آکر ایسا کیوں ہے؟

آپ نے عرض کیا : اے رسول خدا ! جب بھی آپ مؤمنین میں سے کسی کو حکم دیتے ہیں کہ اٹھو اور کسی مؤمن سے اپنا عقد اخوت قائم کرو، اسی وقت میں اپنے آپ سے کہتا ہوں کہ اب آپ مجھ سے فرمائیں گے کہ میں کھرا ہو جاؤں، لیکن آپ مجھ سے روگردانی کرتے ہیں اور کسی دوسرے کو حکم دیتے ہیں کہ وہ کسی کے ساتھ اپنا عقد اخوت قائم کرے تو میں اہنے آپ سے کہتا ہوں: شاید میں اس قابل نہیں ہوں کہ مؤمنین میں سے کسی کا بھائی بن سکوں؟

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میں نے ہرگز آپ سے رو گردانی نہیں کی اور نہ ہی میں نے آپ کو فراموش کیا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ خدا کی یہ مشیت ہے کہ آپ ان مؤمنین میں سے کسی کے ساتھ عقد اخوت اللہ قائم نہ کریں۔ یہ میرے سامنے جبرئیل ہوا میں کھرے ہیں۔ میں جب بھی کسی مؤمن کو کھڑا ہونے کے لئے کہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ عقد اخوت قائم کروں تو اسی وقت جبرئیل کہتے ہیں علی علیہ السلام کو بٹھا دیں اور ابھی اس کام میں تأخیر کریں۔

 میں نے بھی آپ کی طرح ہی سوچا تھا اور اس کام کی وجہ سے مغموم اور محزون تھا کہ اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا:اے محمّد! خداوند تبارک و تعالیٰ نے آپ پر درود و سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ میں اس کام سے آگاہ ہوں اور آپ اس وجہ سے غمگین نہ ہوں کیونکہ میں نے علی کو آپ کے لئے باقی رکھا ہے اور انہیں آپ سے قریب کرتا ہوں  میں نے زمین و آسمان کے درمیان آپ اور علی علیہ کا رشتۂ اخوت قائم کر دیا ہے۔

 اس کے بعد رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کھڑے ہوئے اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا:

 أيّها النّاس ! أنا عبداللَّه ، أنا نبيّ اللَّه ، أنا حجّة اللَّه ، أنا رسول اللَّه ، أنا نجيّ اللَّه ، أنا صفيّ اللَّه ، أنا حبيب اللَّه ، أنا الحجّة إلى اللَّه ، من خانني فقد خان اللَّه ، قدَّمني اللَّه في المفاخر والمآثر ، وآثرني في المفاخر ، وأفردني فى النظائر ، فما من أحد إلّا وأنا وديعة عنده ، وأنا وديعة اللَّه ، أنا كنز اللَّه ، أنا صاحب الشفاعة الكبرى ، أنا صاحب الكوثر واللواء ، أنا صاحب الكأس الأوفى ، أنا ذوالدلائل والفضائل والآيات والمعجزات ، أنا السيّد المسؤول في اليوم المشهود والمقام المحمود والحوض المورود واللواء المعقود.

 أنا سادة المتّقين وخاتم المرسلين ، ذوالقول المتين ، أنا راكب المنبر يوم الدين ، أنا أوّل محبور وأوّل منشور وأوّل محشور وأوّل مبرور وأوّل من يدعى من القبور إذا نفخ في الصور ، أنا تاج البهاء المستور ، أنا المرسل المذكور في التوراة والإنجيل والزبور وكلّ كتاب مسطور، أنا صاحب المشاهد والمحامد والمزاهد والمقاصد وعلم اللَّه .

 أنا المنذر المبلّغ عن اللَّه ، أنا الآمر بأمراللَّه ، أنا ذو الوعد الصادق عن اللَّه ، أنا نجيّ السفرة ، وأنا إمام البررة ، أنا مبيد الكفرة ، أنا المنتقم من الفجرة، أنا ذوالشامة والعلامة، أنا المكرم ليلة الإسرى، أنا الرفيع الأعلى ، أنا المناجي عند سدرة المنتهى ، أنا السفّاح أنا الرباح ، أنا النفّاح ، أنا الفتّاح ، أنا الّذي يفتح أبواب الجنان ، أنا المحفوف بالرضوان .

 أنا أوّل قارع أبوابها ، أنا المتفكّه بثمارها ، أنا المحبو بأنوارها ، أنا الصفاك(348) أنا الهتاك ، أنا ابن الفواطم من قريش الأكارم ، أنا أوّل الفوائد من سليم ، أنا ابن المرضعات ، أنا القاسم وأبوالقاسم ، أنا العالم وأنا الحكيم الحاكم ، وأنا الجاسم ، وأنا ينبوع المكارم .

 أنا ابن هاشم ، أنا ابن شيبة الحمد واللواء والفخر والمجد والسينا والجدّ جدّي بالحمد وما كان له بطير أبابيل وأهلك اللَّه له جند الفيل ، أنا لي زمزم والصفا ، أنا لي العصابة واللوى ، أنا لي المآثر والنهى ، أنا لي المشاعر والربى ، ولي من الآخرة الزلفى ، ولي شجرة طوبى وسدرة المنتهى ، ولي الوسيلة الكبرى .

 أنا باب مطالع الهدى ، أنا حجّة على جميع الورى ، أنا الغلّاب ، أنا الوهّاب ، أنا الوثّاب ، أنا على من أدبر وتولّى ، أنا العجب العجاب ، أنا المنزّل عليه الكتاب ، أنا العطوف ، أنا الرؤوف ، أنا الشفيق ، أنا الرفيق ، أنا المخصوص بالفضيلة ، أنا الموعود بالوسيلة ، أنا أبو النور والإشراق ، أنا المحمول على البراق ، أنا المبعوث بالحقّ على الآفاق ، أنا علم الأنبياء ، أنا منذر الأوصياء ، أنا منقذ الضعفاء .

 أنا أوّل شافع ، أنا صادق ناطق ، أنا ذوالجمل الأحمر ، أنا صاحب الدرع والمغفر ، أنا ذوالقضيب الأبتر ، أنا الفاضل ، أنا الكامل ، أنا المنازل ، أنا قائل الصدق ، أنا المبعوث بالحقّ ، أنا الحمام ، أنا الإمام ، أنا السمام ، أنا الخاتم ، أنا الضرغام على من خالف الأحكام .

 أنا داعية الساعة ، أنا اقتربت ، أنا الآزفة ، أنا كلام إسماعيل ، أنا صاحب التنزيل ، أنا واضح الهدى ، أنا الشاهد ، أنا العابد ، أنا ذوالمقاصد ، أنا بالخير واعد ، أنا الموعود بالسلامة لاُمّتي ، أنا المبشّر بالكرامة لعترتي ، أنا المنقذ بدعوتي ، أنا المفلج بحجّتي .

 أنا الإمام الأئمّة ، أنا عصمة الأئمّة ، أنا دافع النقمة ، أنا المبشّر بالنعمة ، أنا بحر الرضى وطود النهى وكهف العفاف ، وجّهت لي الزلفى وحفّت لي الجنّة ، أنا طلة السكينة ، أنا ابن الذبيحين المفتدين بالتحف من بحبوحة الشرف ، أنا جادّة الإيمان وطريق الأمان وواضح البرهان ، أنا ابن معد بن عدنان ، أنا حسرة الشيطان ولدنى تسعة من المرسلين ، فسمّيت في قومي الأمين ، أنا اُمّ القرآن المبين ، أنا طه ويس ، والتين والزيتون .

 أنا أحمد في الأوّلين وفي صحف الماضين وفي الاُمم المتقدّمين وفي القرون السالفين ، أنا محمّد في السماوات والأرضين ، أنا صاحب الكوثر في المجمع والمصدر ، أنا المجاب في المحشر ، أنا الحبيب النجيب ، أنا المصيب ، أنا المزّمّل أنا المدَّثّر ، أنا المذكّر ، أنا الّذي ساهمني في ظهر آدم الورى وفضلتهم النبيّون ففضّلتهم أنا أجمعين .

 أنا الّذي بشّرهم اللَّه بشفاعتي ، وأمرهم بطاعتي ، وأخذ عليهم العهد بتصديق رسالتي ، أنا قائد الغرّ المحجّلين إلى جنّات النعيم .

 أنا أفضل النبيّين قدراً وأعمّهم خطراً وأوضحهم خبراً وأعلاهم مستقرّاً وأكرمهم اُمّة وأجزلهم رحمة وأحفظهم ذمّة وأزكاهم ملّة ، وما فيكم أحد إلّا وقد قرن بقرينه ووصل بخدينه لتحقيق علم اللَّه تعالى فيكم ، ومواهبه لديكم ، لم يعدل بكم عن جد جناب أخوانكم وعن أعمال أشكالكم ، وقد حاز اللَّه لكم ولهم وقد أحسن اللَّه ولطف بي إذ أخّرني كي اُذكّركم شيئاً .

 ألا وإنّ عليّاً حقيق لمعرفته مخصوص به ، حسبه من حسبي ونسبه من نسبي وسننه متعلّقة بسنني ، فعليّ أخي وابن عمّي ، اُوتيت الرسالة والحكمة ، واُوتي عليّ العلم والعصمة ، واُوتيت الدعوة والقرآن ، واُوتي عليّ الوصيّة والبرهان ، واُوتيت القضيب والناقة ، واُوتي عليّ الحوض واللواء .

 واُوعدت بالسجدة والشفاعة العظمى ، وجعل عليّ قسيم الجنّة واللظى ، واُعطيت الهيبة والوقار ، واُعطي عليّ الشرف والفخار ، ووهب لي السماحة والبهاء ، ووهب لعليّ البراعة والحجى ، بشّرت بالرسالة والكوثر ، وبشّر عليّ بالصراط المستقيم ، خصصت بخديجة الكبرى ، وخصّ عليّ بزوجته فاطمة خيرة النساء .

 حملت على الرفرف في الهواء ، وسمعت كلام عليّ في السماء ، توخّيت عند سدرة المنتهى ، سئلت عن عليّ في الرفيع الأعلى ، اُرسلت بالنذار والخوف واُعطى عليّ البدارة والسيف ، بشّرت بأعلى الجنان ، طلبت أن لا يفارقني عليّ حيث كنت وكان ، وعدت المقام المحمود في اليوم المشهود ووعد عليّ بلواء الحمد في اليوم المشهود ، وبعثت بالآيات على إحدى المعجزات ، وفضّلت بالنصر فضّل عليّ بالقهر ، حبيت بالرضوان حبي عليّ بالغفران ، وهب لي حدّة النظر ، وهب لعليّ البأس والظفر .

 أنا سابق المرسلين ، عليّ صالح المؤمنين ، سطوت في المشاهد سطى عليّ في‏المراصد ، أنا خاتم النبيّين ، عليّ خاتم الوصيّين ، أنا نبيّ اُمّتي ، عليّ مبلّغ دعوتي ، بعث أخي موسى بالعصا تتلقّف ما يأفكون ، وبعثت بالسيف في كفّ عليّ يقسم ما يمكرون .

 أنا باب الهدى ، عليّ باب التقى ، حزب اللَّه حزبي ، وحزبي حزب عليّ ، عليّ صفوة إسماعيل بعدي سبقت له دعوة الخليل وجنّب عبادة الأصنام والتماثيل ، ثبت على عهد ربّ العالمين ، وكسر أصنام المشركين ، وأخرج بذلك الظالمين ، إبراهيم صفوةاللَّه والمرسلين ، وأنا صفوة إبراهيم وإسماعيل ، خصّنا اللَّه بالتفضيل ، وطهّرنا بالتنزيه عن فعل الحظاين ، عجنت أنا وعليّ من طين ، سكنت أنا وعليّ في ظهور المؤمنين .

 أنا حجّة اللَّه ، عليّ حجّتي ينطق على جناني ويخاطب على لساني ، لايشتبه عليه ظلمة من الظلمات ، ولايبلى في دينه بآفة من الآفات ، وهب لي علم المشكلات ، ووهب لعليّ علم المعضلات ، ربّيت في حجر أبي عليّ ، وربّي عليّ في حضني ، وربّي في مهدي وحجري ، ونشأ في صدري .

 وسبق الناس كلّهم إلى أمري ، فرح بالرضوان وحبي بالغفران ، وأوعد بالجنان من قبل أن يؤمن إنسان ، يضرب بحدّي ويفخر بجدّي ويسطو بسعدي ، صلدم وصنوي عالم حاكم صابر صائم ، لايشغله الدنيا عن الذكر ، ولاينقطع عند المصائب دائم الفكر ، حديد النظر ، عظيم الخطر ، على الخبر صبور وقور ذكور شجاع إذا قلّت الأبطال ، وهب نفسه في يوم النزال في سورة القتال ما انحدل قطّ عنّي ، ولا وقف بمحال عنّي ، تقيّ نقيّ رضيّ سخيّ وليّ سنيّ زكيّ مضيّ .

 عليّ أشبه الناس إذا قضى بنوح حكماً ، وبهود حلماً ، وبصالح عزماً ، وبإبراهيم علماً ، وبإسماعيل صبراً ، وبإسحاق إزراً ، وبيعقوب مصائباً ، وبيوسف تكذيباً ، محسود على مواهب اللَّه ، معاند في دين اللَّه .

 أشبه شي‏ء بالكليم زهداً ، وبعيسى بن مريم رشداً ، وبي خلقاً وخلقاً ، جميل من الطوارق ، لطيف من البوائق ، جدام البوائق ، عدوّ المنافق ، لكلّ خير موافق ولكلّ شرّ مفارق ، ملكوتيّ القلب ، سماويّ(349) اللبّ ، قدسيّ الصحبة ، يحبّ الربّ .

 مناجز مبارز غير فشل ولاعاجز، نبت في أعراقي وغذى بأخلاقي، وبارز بأسيافي ، عدوّه عدوّي ، ووليّه وليّي ، وصفيّه صفيّي ، سرادق الاُمّة ، وباب الحكمة ، وميزان العصمة ، لايحبّه إلّا مؤمن نقيّ ، ولا يبغضه إلّا منافق شقيّ .

 حبيب نجيب وجيه عنداللَّه ، معظم في ملكوت اللَّه ، لم يزل عنداللَّه صادقاً وبسبيل الحقّ ناطقاً ، الحقّ معه وفيه لايزايله(350) يستبشر بذكره المؤمنين ، ويسي‏ء بذكره المنافقون ، ويمقته القاسطون ، ويبغضه الفاسقون ، ويشنأه المارقون ، منّي مبدأه وإليّ منتهاه ، وفي الفردوس مثواه ، وفي علّيّين مأواه ، كريم في طرفه ، مهول في عطفه ، سراج(351) في خلقه ، معصوم الجناب طاهر الأثواب ، تقيّ الحركات كثير البركات ، زائد الحسنات ، عال على الدرجات في يوم الهبات .

 مهذّب نجيب مجلبب مطيب أديب مؤدّب مستأسد مجرّب حيدرة قسورة ضرّاب غلّاب وهّاب وثّاب .

 أوّلكم سبقاً ، وأوّلكم خلقاً ، صاحب سرّي المكتوم وجهري المعلوم ، وأمري المبروم ، طويل الباع عبل الذراع ، كشّاف القناع ، في يوم القناع أديب لبيب حسيب نسيب ، من ربّه في المنزلة قريب ، غضنفر ضرغام ماجد هوام مبارز قمقام عذافر هشام ليث همهام .

 به أسكن اللَّه الرعب في قلوب الظالمين ، وأوحى إليّ أنّ الرعب لايسكن لعليّ قلباً ، ولايمازج له لبّاً ، خلقه اللَّه من طينتي ، وزوّجه ابنتي وحرمتي ، وأقام معي بسنّتي ، وأوضح به حجّتي ، وأنار به ملكي ، وهو المحنة على اُمّتي ، واساني بنفسه ليلة الرقد على فراشي ، وحمل ابنتي زينباً جهراً ، وردّ ما أخذه عدوّي منّي قهراً .

 أربيت في بيت اُمّه فاطمة بنت أسد وحجرها وحضنها ، وربّي عليّ بيتي وحجري وحضني ، تولّيت تربيته وتولّت خديجة كفالته من غير رضاع أرضعته ، تتابعت منه الحكم ، وتقارنت أنا وهو في العدم محبّة أسعد الاُمم ، وهو صاحب لواي والعلم ، ما رُأي قطّ ساجد الصنم ، ما ثبت لي في مكان قدم إلّا ولعليّ يد وقدم ، آمن من غير دعوة برسالتي .

 بعثت يوم الإثنين ضحوه ، وصلّى عليّ في يومه معي صلاة الزوال ، واستكمل من نوري ما كمل به الأنوار ، قدره أعظم الأقدار ، آنسني في ظهور الآباء الزاكيات وقارنني في الأوعية الطاهرات ، وكتب إسمه وإسمي على السرادقات وفي السماوات ، فعليّ شقيقي من ظهر عبدالمطّلب إلى الممات ، ومحدّثي في جوار اللَّه والغرفات .

 اللهمّ وال من والاه ، وعاد من عاداه ، خصّه اللَّه بالعلم والتقى ، وحبّبه إلى أهل الأرض والسماء، وجعل فيه الورع والحياء، وجنّبه الخوف والردى ، وفرض ولايته على كلّ من في الأرض والسماء.

 فمن أحبّه فقد أحبّني ، ومن أبغضه فقد أبغضني ، ومن أبغضني فقد أبغض اللَّه .

 عليّ خزانة علمي ، ووعاء حلمي ، ومنتهى همّي ، وكاشف غمّي في حياتي ومغسّلي بعد مماتي، ومونسي في أوقاتي، عليّ غاسلي إذا قبضت ، ومدرجي في أكفاني إذا تواريت ، عليّ أوّل من يصلّي عليَّ من البشر ، وممهدّي في لحدي إذا حضر ، عليّ يكفيني في الشدائد ، ويحمل عنّي الأوابد ، ويدافع عنّي بروحه المكائد ، لايؤذيني في عليّ إلّا حاسد ، ولايردّ فضله إلّا شقيٌّ جاحد .

۴۰۳۔ ۳ اے لوگو ! میں خدا کا عبد، پيغمبر خدا ، حجّت خدا ، رسول خدا ، خدا کا برگزيده، صفىّ خدا اور حبيب خدا ہوں.

 میں خدا کی طرف سے حجت الٰہی ہوں، جس کسی نے بھی میرے ساتھ خیانت کی گویا اس نے خدا کے ساتھ خیانت کی ۔ خدا وند تعالیٰ نے مجھے افتخارات و کرامات میں مقدم رکھا ہے اور افتخارات کے لئے مجھے منتخب کیا ہے اور تمام لوگوں کے درمیان مجھے ممتاز  قرار دیا ہے کوئی بھی نہیں ہت مگر یہ کہ میں اس کے لئے امانت الٰہی تھا۔

 خدا کی امانت میں ہوں، خدا کا خزانہ میں ہوں، شفاعت کا مالک میں ہوں، صاحب کوثر اور لواء الٰہی (یعنی خدا کا پرچم) میں ہوں،بھرا ہوا ظرف میں ہوں، دلائل و فضائل اور آیات و معجزات کا ملاک میں ہوں۔

 میں وہ ہوں جس کے بارے میں روز قیامت سوال کیا جائے گا۔ مقام محمود اور حوض کہ جس پر لوگ آئیں گے اور اور لپٹا ہوا پرچم میں ہوں۔

متقین کا آقا و پیشواء میں ہوں،،اور خاتم المرسلین، صاحب قول متین و محکم میں ہوں، روز قیامت (نور) کے منبر پر بیٹھنے والا میں ہوں، ( روز قیامت سب سے پہلے خوش ہونے والا میں ہوں، سب سے پہلے منشور اور سب سے پہلے محشور ہونے والا اور سب سے پہلا نیک و کار میں ہوں، اور وہ ہی وہ پہلا شخص ہوں کہ جب اسرافیل صور پھونکے گا تو قبر سے بلایا جاؤں گا۔

 میں وہ ہوں جس نے تاج حشمت و جلالت پہنا ہوا ہو گا، میں وہ پیغمبر ہوں کہ جس کا ذکر تورات و زبور ، انجیل اور ہر اس کتاب میں موجود ہے جو لکھی گئی ہے۔ میں ہی مشاہد ومحامد، مزاہد و مقاصد اور علم خدا رکھنے والا ہوں۔

 میں خدا کی طرف سے ڈرانے والا اور پیغام لانے والا ہوں، میں اللہ کے حکم سے اس کا حکم پہنچانے والا اور صادق الوعد ( وعدہ کا سچا) ہوں، میں سفیروں کا ہمراز اور نیک و کاروں کا پیشواء ، کافروں کو نابود کرنے والا اور فاجروں سے انتقام لینے والا ہوں، میں وہ ہوں جس میں پیغمبری کی علامت ہے، میں وہ ہوں جسے شب معراج عزت بخشی گئی،

 میں بلند مرتبہ ہوں، میں وہ ہوں جس نے سدرۃ المنتہی میں خدا کے ساتھ مناجات کیں، میں وہ ہوں جو فصیح و بلیغ گفتگو کی توانائی رکھتا ہوں، نفع پہنچانے والا میں ہوں، بخشنے والا میں ہوں، گرہ کشائی کرنے والا میں ہوں، جنت کے دروازے کھولنے والا میں ہوں اور میں وہی ہوں جس کا رضوان الٰہی احاطہ کئے ہوئے ہیں۔

 میں وہ سب سے پہلا شخص ہوں جو جنت کا دروازہ کھٹکھٹاو۷ں گا ، میں وہ ہوں جو اس کے پھل کھاؤں گا، میں وہ ہوں جو اس کے انوار سے استفادہ کروں گا، میں وہ ہوں جس کی گفتگو بلیغ و توانا ہے ، میں وہ ہوں جو اسرار سے پردہ کشائی کروں گا۔

 میں قریش کی کریم فواطم کا بیٹا ہوں، سلامتی کا سب سے پہلا فائدہ میں ہوں، میں دودھ پلانے والی ماؤں کا بیٹا ہوں میں قاسم اور ابو القاسم ہوں، دانشمند میں ہوں، حکیم و حاکم میں ہوں، میں صاحب عظمت اور کرامتوں کا سرچشمہ ہوں۔

ہاشم کا بیٹا میں ہوں، شیبۂ لواء، فخر، مجد اور سینا کا بیٹا میں ہوں، میرے جد وہ ہیں جنہوں نے حمد خدا کی کوشش کی ، ان کے لئے آسمان سے ابابیل جیسے پرندے آئے ، خداوند متعال نے ان کے ذریعہ لشکر فیل کو نابود کر دیا۔

آب زمزم اور کوہ صفا میرے لئے ہیں، عصابہ( یعنی یمنی چادر) اور لواء ( پرچم)، مآثر ( عمدہ یادگاریں) اور نہی ( عقل و خرد)، مشاعر (حاجیوں کی عبادت کی جگہ) اور ربى ( نعمت کا احساس)، آخرت زلفى (قریب) ، شجره طوبى ، سدرة المنتهى اور وسيلۂ كبرى تمام کے تمام میرے لئے ہیں۔

درخشندہ ہدایت کا آغاز میں ہوں، تمام مخلوقات پر حجت خدا میں ہوں، ہمیشہ میں کامیاب ہوں، بخشنے والا میں ہوں، پاداش دینے والا میں ہوں، سرکش کو (زیر) کرنے والا میں ہوں، میں ہر حیرت سے حیرت انگیر تر ہوں، میں وہ ہوں جس پر قرآن نازل ہوا، مہربان و رؤوف میں ہوں، شفیق اور دل سوز میں ہوں کہ جس کو فضیلت کے ساتھ کاص کیا گیا، جس کے ذریعہ وعدہ دیا گیا وہ میں ہوں۔صاحب نور و اشراق میں ہوں، میں وہ ہوں جو براق پر سوار ہوا، میں وہ ہوں جو آفاق برحق کے ساتھ مبعوث ہوا۔ پیغمبروں کا علم میں ہوں، اوصیاء کو ڈرانے والا میں ہوں اور کمزوروں کو نجات دینے والا میں ہوں۔ سب سے پہلا شفاعت کرنے والا، سچ بولنے والا میں ہوں، سرخ شتر کا صاحب میں ہوں۔

فاضل میں ہوں، کامل میں ہوں، منازل میں ہوں، راست گو اور حق پر مبعوث ہونے والا میں ہوں، پیغام پہنچانے والا میں ہوں، امام میں ہوں، خفیف و لطیف سرعف کا مالک میں ہوں، خاتم میں ہوں اور احکام الٰہی کے مخالفین کے لئے شمشیر برندہ میں ہوں۔

 روز قیامت دعوت دینے والا میں ہوں، اس کے نزدیک ہونے کا وقت میں ہوں، وہ نزدیک ہونے والا میں ہوں، کلام اسماعیل میں ہوں، صاحب تنزیل میں ہوں، واضع ہدایت میں ہوں، شاہد میں ہوں، عابد میں ہوں، صاحب مقاصد میں ہوں، جسے کیر کا وعدہ دیا گیا وہ میں ہوں، میں وہ ہوں جسے امت ی سلامتی کا وعدہ دیا گیا، امت کو کرامت و بشارت دینے والا میں ہوں، دلیل و برہان کے ذریعہ میں کامیاب ہوں۔

 پیشواؤں کا پیشوا میں ہوں، ائمہ کی عصمت میں ہوں، نقمت و بدبختی کو دور کرنے والا میں ہوں اور نعمتوں کی بشارت دینے والا میں ہوں، بحر رضا، کوہ عقل و خرد اور ضعفاء کی پناہگاہ میں ہوں، مقام و منزلت میرے لئے ہیں اور بہشت میری اطراف کو احاطہ کئے ہوئے ہیں۔

میں حیرت انگیز اور باوقار خوبصورتی کا مالک ہوں، میں وہ ذبیحوں کا بیٹا ہوں، میں ایمان کی شاہراہ اور اس ایمان کا راستہ ہوں جو آشکار و واضح برہان ہے۔

 میں معدی بن عدنان کا بیتا ہوں، میں شیطان کے لئے حسرت کا باعث قرار پایا ہوں، میں نو (۹) مرسل پیغمبروں سے متلود ہوا ہوں، میں اپنے قبیلہ میں امین کے نام سے مشہور ہوا ہوں، میں قرآن مبین کی ماں ہوں، میں طه و ياسين ہوں، میں والتين والزيتون ہوں۔

اوّلین کے درمیان، گذشتہ کتابوں اور امتوں میں اور پہلی صدیوں میں میرا نام «احمد»  اور آسمانوں اور زمین میں میرا نام «محمّد»  ہے۔

 مجمع و مصدر میں صاحب کوثر میں ہوں، روز محشر قبول شدہ میں ہوں، منتخب شدہ حبیب خدا میں ہوں، مصیب میں ہوں، مزمل و مدثر میں ہوں، تذکر دینے والا میں ہوں، صلب

آدم میں میرے ساتھ شامل ہوئے تو میں نے تمام انبیاء پر برتری حاصل کی، پس میں تمام پیغمبروں سے افضل و برتر ہوں

 میں وہ ہوں کہ خداوند متعال نے جس کی شفاعت کی خوشخبری دی ، اور میرے فرامین کی اطاعت کا حکم صادر فرمایا، میری رسالت کی تصدیق کے لئے لوگوں سے عہد و پیمان لیا، میں ان سفید چہرے والوں کا رہبر ہوں جن کے لئے بہشت کی نعمتیں ہیں۔

 عزت و بزرگی کے اعتبار سے تمام پیغمبروں سے بلند ترین ہوں، عظمت کے لحاظ سے تمام پر حاوی ہوں، خیر و حدیث کے اعتبار سے آشکارا تریں ہوں، مقام و منزلت کے لحاظ سے ان سے بلند تریں ہوں، امت کے اعتبار سے سب سے باعزت ہوں، رحمت کے اعتبار سے ان میں سب سے زیادہ ہوں، ذمہ و ضمانت کے لحاظ سے ان سے زیادہ محافظ ہوں اور ملت و قوم کے اعتبار سے ان سے پاکیزہ ترین ہوں۔

 آپ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں مگر یہ کہ ان کے قریب ہوا اور انہیں اپنا دوست پایا، کیونکہ خداوند متعال کا علم آپ میں متحقق ہوا ہے، اس کی تمام نعمتیں آپ کے ہاں ہیں، اس نے آپ کے بھائیوں کے آستانہ اور آپ کے مذہبی اعمال سے عدول نہیں کیا، بیشک خداوند متعال نے انہیں آپ اور ان کے لئے اکٹھا کیا ہے اور خداوند متعال نے احسان کیا اور ہمارے حق میں لطف فرمایا ہے کیونکہ خداوند متعال نے مجھے سب سے آخر میں بھیجا ہے کہ میں آپ لوگوں کو کسی چیز کی نصیحت کروں۔

 آگاه ہو جاؤ ! على عليه السلام اس شناخت کے زیادہ مستحق ہیں، جو ان کے لئے مخصوص ہے، ان کا حسب میرا حسب، ان کا نسب میرا نسب اور ان کی راہ و روش میری راہ و روش ہے۔

پس علی میرے بھائی اور میرے چچا زاد ہیں، مجھے رسالت و حکمت عطا کی گئی اور علی کو علم و عصمت ، مجھے دعوت و قرآن عطا کیا اور علی علیہ السلام کو وصیت و برہان، مجھے شمشیر و شتر اور علی علیہ السلام کو حوض کوثر اور پرچم عطا کیا گیا،

مجھے سجدہ اور شفاعت عظمیٰ عطا کی گئی اور علی علیہ السلام کو جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والا قرار دیا گیا، مجھے ہیبت و افتخار عطا ہوا اور علی علیہ السلام کو شرف و افتخار نصیب ہوا، مجھے سرداری اور شکوہ و جلال عطا ہوا جب کہ علی علیہ السلام کو کمال و عقل اور لیاقت و شائستگی میسر ہوئی۔

 مجھے رسالت اور کوثر کی نوید دی گئی جب کہ علی علیہ السلام کو صراط مستقیم کی خوشخبری نصیب ہوئی، خدیجۂ کبریٰ کو میرے لئے چنا گیا اور خواتین کی سردار فاطمۂ علیہا السلام کو علی علیہ السلام کی زوجیت کے لئے منتخب کیا گیا

میں رفرف « گسترده فرش» پر ہوا میں سوار ہوا، اور آسمان پر علی علیہ السلام کا کلام سنا، سدرة المنتهى پر میں مورد سوال قرار پایا اور مقام اعلٰ پر مجھ سے علی علیہ السلام کے بارے میں پوچھا گیا، میں لوگوں کے لئے نذیر (ڈرانے والا) بنا کر بھیجا گیا جب کہ علی علیہ السلام کو شجاعت و شمشیر عطا ہوئی۔

 مجھے بہشت کے بلند ترین مقام کی خوشخبری دی گئی ہے ، میں نے خدا سے درخواست کی ہے کہ میں جس جگہ رہوں اور علی علیہ السلام جہاں پر بھی ہوں وہ مجھ سے جدا نہ ہوں ، اور روز قیامت مجھے پسندیدہ مقام کا وعدہ دیا گیا ہے اور علی علیہ السلام کو پرچم حمد (لواء حمد) کا وعدہ دیا گیا ہے.

 مجھے نبوت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یعنی معجزات کے ساتھ بھیجا گیا، مجھے نصرت کے ذریعہ برتری دی گئی اور علی علیہ السلام کو بہادری و کامیابی کے ذریعہ، مجھے رضوان عطا ہوئے اور علی علیہ السلام کو غفران، مجھے تیز بینی عطا ہوئی اور علی علیہ السلام کو دلیری و کامیابی نصٰب ہوئی۔

 میں سابق المرسلین ہوں، اور علی علیہ السلام صالح المؤمنین ہیں، میرا رعب ودبدبہ میدانوں میں ہے اور علی علیہ السلام کا کمین گاہوں میں ، میں خاتم النبیین ہوں اور علی خاتم الأوصیا۴ ہیں، میں اپنی امت کا پیغمبرہوں اور علی علیہ السلام میری دعوت کو پہنچانے والے یں، میرا بھائی موسیٰ اس عصاء کے ساتھ مبعوث ہوا ہے جس نے ان کو نگل لیا اور جنہیں بطور حقیقت پیش کیا گیا ، میں ایسی شمشیر کے ہمراہ مبعوث ہوا جو علی علیہ السلام کے طاقتور ہاتھوں کی گرفت میں ہے کہ وہ جس سے مکاروں اور حیلہ گروں کو دو حصوں میں بانٹ دیتے ہیں۔

 میں ہدایت کا دروازہ ہوں اور علی علیہ السلام تقویٰ کا در ہیں، خدا کا گروہ میرا گروہ اور میرا گروہ علی علیہ السلام کا گروہ ہے ، میرے بعد علی اولاد اسماعیل سے چنے گئے کہ جنہوں نے حضرت ابراہیم خلیل کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہا اور بتوں کی پرستش سے دوری اختیار کی۔

وہ رب العالمین سے کئے ہوئے عہد و پیمان پر ثابت رہے اور مشرکین کے بتوں کو توڑا، اس طرح سے انہوں نے ستم کاروں کو خانہ خدا سے باہر پھینک دیا، حضرت ابراہیم  خدا اور پیغمبروں کے منتخب شدہ ہیں اور میں حضرت ابراہیم اور اسماعیل کا منتخب شدہ ہوں۔

خداوند متعال نے مجھے فضیلت دے کر امتیاز بخشا ہے اور غلط کاموں سے دوری اختیار کرنے کی وجہ سے مجھے پاکیزہ کیا ہے۔ میں اور علی علیہ السلام ایک ہی طینت سے بنائے گئے ہیں، میں نے اور علی علیہ السلام نے مؤمنین کے صلبوں میں سکونت اختیار کی ہے۔

 میں حجّت خدا ہوں اور علیہ السلام میری حجت ہیں، وہ میرے دل کی باتیں کرتے ہیں اور میری زبان سے بالتے ہیں، تاریکیاں ان کے لئے اشتباہ کا باعث نہیں ہیں اور اس کا دین آفتوں سے بوسیدہ نہیں ہوتاْ

اور مشکلات کا علم مجھے عطا ہوا ہے اور علی علیہ السلام کو پیچیدہ امور کا علم عطا ہوا ہے، میں علی علیہ السلام کے والد گرامی کے دامن محبت میں پروان چڑھا ہوں اور علی علیہ السلام نے میرے دامن محبت میں پرورش پائی ہے، وہ میرے گہوارۂ محبت میں پلے ہیں اور وہ میرے سینے پر رشد پائے ہیں۔

اس ( علی علیہ السلام) نے میری نبوت کو قبول کرنے میں سب پر سبقت حاصل کی ہے،رضوان الٰہی کے ہمراہ خوش ہوئے، اسے غفران عطا ہوئے، اور جنت کا ان سے وعدہ کیا گیا قبل اس کے کہ کوئی شخص ایمان لے آئے۔

وہ تلوار چلاتے ہیں، میرے جد پر فخر کرتے ہیں اور میری آرزو اور خواہش کے مطابق حملہ آور ہوتے ہیں۔

وہ غضبناک شیر، مہربان بھائی ، دانشورم منصف، صابر اور ایسے روزہ دار ہیں کہ جنہیں دنیا یاد خدا سے غافل نہیں کرتی ، مشکلات کے وقت یاد خدا سے بے خبر نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ غور و فکر میں رہتے ہیں۔وہ تیز بین اور دقیق النظر ہیں اور بلند مقام پر فائز ہیں، وہ خبر میں صابر ہیں، وہ باوقار اور زیادہ ذکر کرنے والے ہیں۔

 وہ پہلوانوں کی کمی کے باوجود ایسے دلیر ہیں کہ جنہوں نے جنگ و جدال کے روز شدت کے باوجود اپنی جان کی بازی لگائی اور مجھ سے ہرگز دستبردار نہ ہوئے، وہ ایک جگہ کھڑے نہیں ہوئے ( بلکہ میرے ارد گرد پروانے کی طرح گھومتے رہے) ۔

وہ پاک دامن، پاکیزہ، خوشنود و مسرور ، سخاوت میں دوست ، بلند تر ، صاحب لیاقت اور صاحب عزم و ارادہ ہیں۔

علی علیہ السلام لوگوں کے درمیان قضاوت کرنے میں حضرت نوح علیہ السلام کی مانند، حلم میں حضرت ہود علیہ السلام کی مانند، عزم و ارادہ میں حضرت صالح علیہ السلام کی طرح ہیں۔

 علم و دانش میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح، صر و استقامت میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مانند، تعاون میں حضرت اسحاق علیہ السلام کے مشابہ ، مصائب (برداشت کرنے میں) حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرح اور جھٹلائے جانے میں حضرت یوسف کی مانند ہوں گے۔

خدا کی طرف سے عطا کی گئی نعمتوں کی وجہ سے علی علیہ السلام سے بغض و حسد رکھا گیا ہے اور دین خدا میں ان سے دشمنی برتی گئی ہے۔

وہ زہد و تقویٰ میں حضرت موسیٰ کی طرح رشد و ہدایت میں عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی مانند اور خلق و خو کے اعتبار سے میرے مشابہ ہیں۔

وہ ناگہانی حوادث و آفات میں بھی اچھی طرح پیش آتے ہیں اور مشکلات میں مہربان ہیں، وہ مشکلات کو ختم کرنے والے ہیں، وہ ہر منافق کے دشمن ہیں، وہ ہر اچھائی کے موافق ہیں اور ہر برائی سے علیحدہ ہیں۔

 وہ قلب الٰہی و ملکوتی اور آسمانی عقل و خرد کے مالک ہیں، وہ ہمنشین قدسی  اور پروردگار کو دوست رکھنے والے ہیں۔

وہ ایسے مبارز اور جنگجو ہیں کہ جو ہر گز جنگ میں سستی اور عاجزی کے شکار نہیں ہوتے، ان کی پرورش میری رگوں میں ہوئی ہے اور میرا  اخلاق  ان کی غذا  ہے، انہوں نے میری تلوار سے جنگ لڑی ہے۔

ان کا دشمن میرا دشمن ہے اور ان کا دوست میرا دوست ہے اور ان کا منتخب شدہ میرا منتخب شدہ  ہے، وہ امت کے سائبان ، حکمت کا دروازہ اور میزان عصمت ہیں ۔

ان سے پاک و پاکیزہ مؤمن کے سوا کوئی محبت نہیں رکھتا اور بدبخت منافق کے سوا کوئی  ان سے دشمنی نہیں رکھتا۔

 وہ بارگاہ خدا میں منتخب شدہ اور آبرو مند ہیں، ملکوت الٰہی میں صاحب عظمت ہیں، خدا کے نزدیک ہمیشہ راست گو ہیں، حق ہمیشہ ان کے ساتھ ہے اور ان میں ہے اور ہرگز اس سے تجاوز نہیں کرے گا۔

مؤمنین ان کی یاد سے خوش و خرم اور منافقین غمگین اور اندوہ ناک ہوتے ہیں۔ حق سے دور رہنے والے ستم گار ان سے دشمنی کرتے ہیں ، گناہگار فاسقین ان سے حسد اور کینہ رکھتے ہیں۔ مرتد اور گمراہ لوگ ان سے برا سلوک کرتے ہیں۔

ان کی ابتداء مجھ سے اور ان کی انتہاء بھی مجھ پر ہے، ان کا مقام بہشت ہے اور ان کا تھکانہ اعلی علیین پر ہے، ان کی نگاہ کریمانہ اور ان سے روگردان ہونا خوفناک ہے، وہ خلق و خو میں چراغ کی مانند ہیں۔

ان کا آستانہ اور درگاہ لغزش ناپذیر ہے، اس کے کپڑے طاہر اور حرکات پاکیزہ ہیں۔

وہ بہت زیادہ برکتوں اور فراوان نیکیوں کا مالک ہے۔ جس دن تمام لوگ پستی کی طرف جائیں گے وہ بلند درجات کی طرف پرواز کریں گے۔

وہ عیبوں سے پاک و پاکیزہ ، بزرگوار، چھپا پوا، خوش خو اور بامروت، تربیت شدہ، شیر کی مانند، کار آموزہ، محرب، چیرنے پھاڑنے والا شیر، بہت زیادہ بخشنے والا اور بہت خیر و محبت کرنے والا ہے۔

وہ آپ میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا، آپ میں سب سے پہلے خلق کیا گیا، ان کے پاس میرے چھپے ہوئے راز، میرے آشکار علوم اور میرے حتمی و یقینی امور ہیں۔

وہ طاقتور شخص، مضبوط بازؤوں کے مالک، اور میدان کارزار میں زرع کو اتار پھینکنے والے ہیں، وہ نکتہ دان، ہوشیار اور صحاب حسب و نسب ہیں، وہ مقام و مرتبہ میں اپنے پروردگار کے نزدیک ہیں۔ وہ وہ چیرنے پھاڑنے والے اور تمام شیروں پر غالب آنے والے، بہت بڑے مبارز، جوان مرد شیر اور بہادر دلیر ہیں۔

خدا نے ان کے وسیلہ سے ظالموں اور ستمگروں کے دلوں پر رعب ڈالا ہے، خداوند متعال نے انہیں میری طینت سے خلق کیا اور میری بیٹی کو ان کی زوجہ قرار دیا ہے، انہوں نے میرے ساتھ مل کر میری سنت کو قائم اور ان کے وسیلہ سے میری حجت اور میری بادشاہر کو اشکار کیا ہے۔

وہ میری امت کی آزمائش کا وسیلہ ہیں، میرے بستر پر سو کر انہوں نے میری جان کی پرواہ کئے بگیر میری مدد کی، انہوں نے دشمنوں سے میری وہ تمام چیزیں واپس لیں جو انہوں نے بزور مجھ سے چھینی ہوئی تھیں، میری تربیت ان کی ماں فاطمہ بنت اسد کے گھر میں ہوئی ہے اور علی علیہ السلام کی تربیت میرے دامن میں میرے گھر میں ہوئی ہے۔

ان کی تربیت کا کام مجھے سونپا گیا۔ خدیجہ نے دودھ پلائے بغیر ان کی سرپرستی کی۔ ہمیشہ ان سے حکم و فمان صادر ہوا، میں جہانِ عدم میں ان کے ساتھ مقرون ہوا، ان کے محب تمام امتوں میں سے سعادتمند ترین لوگ ہیں، میرے پرچم اور علم کے مالک وہ ہیں۔

ہرگز یہ نہیں ریکھا گیا کہ انہوں نے کسی بت کے سامنے سر جھکایا ہو، میرے پاؤں کسی بھی ایسی جگہ پر نہیں آئے مگر یہ کہ وہاں علی علیہ السلام نے ہاتھ اور پاو۷ں نہ رکھا ہو۔

 وہ میرے دعوت کے بغیر میری رسالت پر ایمان لائے۔ وہ بروز سوموار ظہر کے وقت رسالت پر مبعوث ہوئے ، علی علیہ السلام نے اسی روز میری اقتداء میں نماز ہر بجا لائی، انہوں نے جس طرح سے چاہا میرے نور سے انوار کو مکمل کیا، اور اس کی قدر و منزلت عظیم ترین قدر و منزلت ہے۔

وہ مؤمن پاک سرشت صلبوں اور پاک دامن ماؤں کے رحموں میں میرے نزدیک تھا، ان کا اور میرا نام آسمان میں خدائی پردوں پر لکھا ہوا ہے۔

 اس بناء پر علی علیہ السلام صلب عبد المطلب سے لے کر وفات تک میرے بھائی ہیں اور وہ پناہ الٰہی اور بہشتی حجروں میں مجھ سے ہم کلام ہوئے ہیں۔

 خداوندا ! جو انہیں دوست رکھتا ہے تو اسے دوست رکھ اور جو انہیں دشمن رکھتا ہے تو بھی ان سے دشمنی رکھ، خداوند متعال نے علم و دانش اور پاک دامنی کی وجہ سے اسے امتیاز بخشا ہے۔

زمین و آسمان پر رپنے والوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈالی ہے، حیاء و پرہیزگاری کو ان میں رکھا ہے اور خوف و ذلت سے انہیں دور کیا ہے، زمین و آسمان کے باسیوں پر ان کی ولایت کو قبول کرنا لازم قرار دیا ہے۔

پس جو کوئی بھی انہیں دوست رکھتا ہے میں بھی انہیں دوست رکھتا ہوں اور جس کسی نے بھی ان کے ساتھ دشمنی کی اس نے میرے ساتھ دشمنی کی اور جس نے میرے ساتھ دشمنی کی اس نے خدا سے دشمنی کی ہے۔

 على عليه السلام میرے علم کا خزانہ، میعے حلم کا ٹھکانہ اور میرے قصد و ارادہ کی انتہاء  ہیں، وہ دوران زندگی میرا غم خوار اور وفات کے بعد مجھے غسل دینے والا ہے۔

وہ زندگی میں میرے مونس ہیں اور موت کے بعد مجھے غسل و کفن دینے والے ہیں، انسانوں میں سے علی علیہ السلام سب سے پہلے مجھ پر نماز ادا کریں گے اور مجھے لحد میں تاریں گے۔

وہ مشکلات میں میری حمایت کرتے ہیں اور بدخواہوں کے مکر و فریب کو مجھ سے دور کرتے ہیں، وہ جان پر کھیل کر دشمنوں کے حیلوں کو مجھ سے دور کرتے ہیں۔

علی علیہ السلام کی وجہ سے حاسد کے علاوہ کوئی بھی مجھے اذیت و آزار نہیں پہنچاتا اور قشی و بدبخت کے علاوہ کوئی بھی ان کے فضائل کا انکار نہیں کرتا۔

    اس کے بعد رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے آسمان کی طرف نگااہ بلند کی اور فرمایا:

 اللهمّ إنّك قرنتني بأحبّ الخلق إليك وأعزمهم عندي وأوفاهم بذمّتي وأقربهم قرابة إليّ وأكرمهم في الدنيا والآخرة عليّ .

 خداوندا ! تو نے مجھے ایسی شخص کے ساتھ ملایا ہے جو مخلوق مں تیرے نزدیک محبوب اور میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ ارادہ کرنے والا ہے، وہ میرے ساتھ ان میں سے زیادہ وعدہ وفا کرنے والا ہے، رشتہ داری میں ان میں سب سے زیادہ قریب ہے اور دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ میرے نزدیک گرامی تر اور باعزت ہے۔

    پھر آپ نے على عليه السلام کی طرف نگاہ کی اور فرمایا:

 اُدن منّي يا أبا الحسن ! حبى الناس بالأشكال والقرناء وحباني ربّي بك لأ نّك صفوة الأصفياء ، بك يسعد من سعد ، وبك يشقى من شقي ، أنت خليفتي في أهلي ، وأنت المشتمل بفضلي ، والمقتدى به بعدي ، اُدن منّي يا أخي .

 اے ابو الحسن! میرے نزدیک آؤ! لوگ اپنے جیسوں کے ہی نزدیک ہوتے ہیں اور خداوند متعال نے مجھے تمہارے نزدیک یا ہے، کیونکہ برگذیدہ لوگوں میں سے تمہیں منتخب کیا گیا ہے، نیک بخت تمہارے وسیلہ سے ہی نیک بخت ہو گا، اور بدبخت تمہارے سبب ہی بدبخت ہو گا، میرے خاندان میں سے تو میرا جانشین ہے، میری تمام فضیلتیں تمہارے شامل حال ہیں اور تم میرے بعد لوگوں کے مقتدیٰ ہو اور اے مییرے بھائی میرے قریب آو!

    اس دوران على مرتضى عليه السلام ؛ محمّد مصطفى صلى الله عليه وآله وسلم کے قریب ہو گئے اور اپنے آپ کو آنحضرت کے اوپر گرایا، رسول خدا صلی الله عليه وآله وسلم نے اپنے بھائی  على عليه السلام کو اپنے سینہ سے لگایا اور فرمایا:

 يا أبا الحسن ! إنّ اللَّه خلقكم من أنواري كذاك وافق سرّك أسراري وضميرك أضماري تطالع روحي لروحك ، شهد اللَّه لذلك والفائزون والصابرون وحملة العرش أجمعون ، يشهدون بامتزاج أرواحنا إذ كنّا من نور واحد ، قال اللَّه تعالى : «وَهُوَ الَّذي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً وَكانَ رَبُّكَ قَديراً »(352) .

 كفاك يا عليّ ، من نفسك علم اللَّه فيك ، وكفاني منك علمي فيك ، وكلّ قرين ينصرف بقرينه وانصرف النبيّ صلى الله عليه وآله وسلم بعليّ عليه السلام .

 اے ابو الحسن ! خداوند متعال نے تمہیں میرے انوار سے خلق کیا ہے ، تیرے اسرار اور ضمیر کو میرے اسرار اور رازوں کے مطابق قرار دیا ہے کہ میری روح تمہاری روح سے واقف  ہے اور خداوند متعال نے اس بات پر گواہی دی ہے۔ اسی طرح تمام کے تمام کامیاب ہونے والوں، صبر کرنے والوں اور عرش کو اٹھانے والوں نے ہماری روحوں کے امتزاج کی گواہی دی ہے کیونکہ ہم ایک ہی نور سے تھے۔

اور وہ وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو خاندان اور سسرال والا بنایا دیا اور آپ کا پروردگار بہت قدرت والا ہے۔

 اے على! آپ کے لئے یہی کافی ہے کہ خداوند متعال آپ کے نفس سے آگاہ ہے اور میرے لئے صرف یہی کافی ہے خدا نے آپ سے آگاہ فرمایا ہے اور میرے لئے صرف یہی کافی ہ ے کہ میں تیرے مقام و مرتبہ سے آگاہ ہوں اور ہر کوئی اپنے ہمنشین کی طرف پلٹے گا اور علی علیہ السلام ؛ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف جائیں گے۔ (353)

 


346) سوره حجر ، آيه 48 - 45 .  

347) سوره آل عمران ، آيه 179 .

348) السفاك ، خ .

349) اصل نسخہ کے حوالہ میں ذکر ہوا ہے: ديلمى قدس سره صاحب الإرشاد نے اپنی كتاب مناقب میں اس خطبہ کا ایک حصہ ذکر کیا ہے۔ نیز اس منبع میں بیان ہوا ہے: سماويّ الصدر قدسيّ الجسد .

350) ولا يعتديه ، جیسا کہ مناقب ديلمى میں بیان ہوا ہے (اصل نسخہ کا حوالہ) .

351) سريع ، خ .

352) سوره فرقان ، آيه 54 .

353) نهج الإيمان : 413 .

 

منبع: فضائل اہلبیت علیہم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ: ج 2 ص 340 ح 885

 

ملاحظہ کریں : 1104
آج کے وزٹر : 2180
کل کے وزٹر : 23196
تمام وزٹر کی تعداد : 127599494
تمام وزٹر کی تعداد : 88871766