حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
حضرت امیرالمومنین علیه السلام و جنگ تبوک

حضرت امیرالمومنین علیه السلام و جنگ تبوک

**********************************************

یکم ماه مبارک رمضان؛ جنگ تبوک ، سنہ ۹ ہجری

**********************************************

سيّد ہاشم بحرانى قدس سره نے كتاب «مدينة المعاجز» میں كتاب «درر المطالب»(187) سے نقل فرمایا ہے:

جب رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم جنگ تبوك کے لئے مدينه سے روانہ ہوئے تو آپ نے على بن ابى طالب عليہما السلام کو اپنا خليفه و جانشين مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ آپ مدینہ میں رہیں۔ منافقين نے غلط باتوں کے ذریعہ یہ فتنہ پھیلانا شروع کر دیا اور کہا: پيغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم؛ على عليه السلام کو اپنے ساتھ نہیں لے کر گئے کیونکہ ان کی نظر میں علی علیہ السلام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

جب منافقوں کی یہ باتیں على عليه السلام تک پہنچیں تو آپ نے اپنا اسلحہ اٹھایا اور پيغمبر اكرم صلى الله عليه و آله و سلم‏ کے پیچھے روانہ ہو گئے۔ آپ نے راستہ میں ایک منزل پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچ گئے اور آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا:

یا رسول اللہ!  منافقوں کا یہ خیال ہے کہ آپ نے مجھے مدینہ میں رہنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ آپ کی نظروں میں میری کوئی اہمیت نہیں ہے، کیا یہ بات درست ہے؟

رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے فرمایا: منافق جھوٹ بول رہے ہیں بلکہ میں نے تو آپ کو اپنے تمام بقیہ امور اور معاملات میں اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔

واپس چلے جاؤ اور میرے اور اپنے اہلخانہ کے درمیان میرے جانشین رہو۔

ألا ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أ نّه لا نبيّ بعدي؟

کیا آپ خوش نہیں ہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھے، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا؟

اس سن کر على عليه السلام واپس چلے گئے اور پيغمبر اكرم صلى الله عليه و آله و سلم نے اپنا سفر جاری رکھا۔

اتّفاقاً اس جنگ میں آنحضرت کے لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور لشکر تتر بتر ہو گیا۔ رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم پر جبرئیل نازل ہوئے اور عرض كیا:

خدا نے آپ کو سلام کہا ہے اور فتح کی خوشخبری اور بشارت دی ہے اور آپ کو اختیار دیا ہے کہ اپنی مدد کے لئے فرشتوں کو بلائیں اور اگر چاہئیں تو علی علیہ السلام کو بلائیں تا کہ وہ آئیں۔

پيغمبر اكرم صلى الله عليه و آله و سلم نے دوسری بات کو اختیار کیا اور جبرئيل نے عرض كیا: آپ مدینہ کی طرف اپنا منہ کرکے بلند آواز میں کہیں:

يا أبا الغيث، أدركنى يا علي، أدركنى يا علي.

يعنى اے على میری مدد کو آئیں، اے علی! میری مدد کو پہنچیں۔

سلمان کہتے ہیں: میں بھی پيغمبر اكرم صلى الله عليه و آله و سلم کے حکم پر مدینہ میں رہ گیا تھا۔ ایک دن میں شہر سے باہر ایک باغ میں گیا کہ جہاں میری ملاقات علی علیہ السلام سے ہوئی اور آپ وہاں کھجور کے درخت کی شاخوں کو کاٹ رہے تھے اور میں انہیں جمع کر رہا تھا۔ اچانک میں نے سنا کہ على عليه السلام نے فرمایا:«لبيّك»، میں آیا، میں ابھی آیا۔ آپ درخت سے نیچے اترے جب کہ آپ کا چہر غمگین تھا اور آنکھوں سے اشک رواں تھے۔

میں نے عرض کیا: یا اباالحسن! کیا ہوا ہے؟ کیا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے؟

فرمایا: رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم کے لشکر کو شکست ہو گئی ہے اور اب مجھے بلایا گیا ہے اور مدد طلب کی گئی ہے۔

پھر آپ حضرت فاطمه عليہا السلام کے گھر گئے اور جب واپس لوٹے تو مجھ سے فرمایا:اپنے قدم میرے قدموں کے نشان پر رکھتے آؤ۔

سلمان کہتے ہیں: میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ جب سترہ قدم چلے تو ہم نے اپنے سامنے دو لشکروں کو دیکھا اور جب امیر المؤمین حضرت امام علی علیہ السلام وہاں پہنچے تو آپ نے ایک آواز بلند کی کہ جس سے دونوں لشکر کے درمیان فاصلہ پیدا ہو گیا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔

اس وقت جبرئيل نازل ہوئے اور رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم کو سلام کیا اور آنحضرت نے خوشی کی حالت میں ان کے سلام کا جواب دیا۔

اميرالمؤمنين حضرت علی عليه السلام نے دشمن کے لشکر کے بہادروں پر حملہ کیا کہ جس سے سب منتشر ہو کر بھاگ نکلے اور خداوند متعال نے کافروں کو غم اور پریشانی کی حالت میں کسی فائدہ کے بغیر واپس لوٹا دیا۔«وَكَفَى اللَّه المُؤْمِنينَ القِتال»(188) خدا نے اميرالمؤمنين علی عليه السلام اور آپ کی قدرت و توانائى اور اعلی ہمّت کے ذریعہ مؤمنین سے جنگ کو ٹال دیا اور ایسا معجزہ دکھایا کہ جس سے تمام امت عاجز تھی اور خدا نے ان کی حیرت انگیز فضیلت سے پردہ اٹھا دیا اور مدینہ سے سترہ قدم چلنے کے بعد انہیں میدان جنگ میں پہنچا دیا اور پيغمبر اكرم صلى الله عليه و آله و سلم کی آواز کو اتنی دور سے سنا اور اس کا جواب دیا۔ یہ ایک بہترین معجزہ اور دلیل ہے کہ آپ اس  امت میں بے نظیر ہیں۔(189)


187) اس کے مؤلّف سيّد ولىّ اللَّه بن سيّد نعمة اللَّه حسينى رضوى حائرى ہیں جو شيخ بہائى رحمه الله کے والد گرامی کے ہم عصر ہیں۔

188) سوره احزاب، آيه 25۔

189) مدينة المعاجز: 9/2 ح 354۔

 

منبع: فضائل اہلبیت علیہم السلام کے بحر بیکران سے ایک ناچیز قطرہ: ج 1 ص 289

 

 

ملاحظہ کریں : 1150
آج کے وزٹر : 965
کل کے وزٹر : 19532
تمام وزٹر کی تعداد : 128819240
تمام وزٹر کی تعداد : 89499587