حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(3) منبر رسول خدا صلى الله عليه وآله کو اٹھانے کا حکم اور سليمان بن عبدالملک کا رد عمل

(3)

منبر رسول خداصلى الله عليه وآله کو اٹھانے

کا حکم اور سليمان بن عبدالملک کا رد عمل

   معاويہ نے حکم دیا کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے منبر کو شام منتقل کر دیا جائے اور اس نے کہا: رسول خداصلى الله عليه وآله وسلم کے منبر اور عصاء کو مدینہ میں نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ عثمان کے قاتل ہیں۔ اس نے عصاء کا مطالبہ کیا کہ جو قُرَظ کے پاس تھی اور جیسے انہوں نے منبر کو اٹھانا چاہا تو سورج گرہن ہو گیا اور اس طرح سے تاریکی چھا گئی کہ آسمان سے ستارے نمودار ہو گئے، لوگوں نے اسے بہت بڑی مصیبت سمجھا جس کی وجہ سے معاویہ نے منبر کو چھوڑ دیا۔

   اور یہ کہا گیا ہے کہ: معاویہ کے پاس جابر بن عبداللَّه انصارى اور ابوہريره آئے اور کہا: اے امیر المؤمنین!! جہاں رسول خداصلى الله عليه وآله وسلم نے خود منبر رکھا تھا اسے اس جگہ سے اٹھانا مناسب نہیں ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عصاء کو شام لے جانا بھی مناسب نہیں ہے۔

   معاويہ اپنے اس ارادہ سے منصرف ہو گیا اور اس نے صرف منبر پر چھ سیڑھیوں کا اضافہ کیا اور اپنے اس ارادہ پر معذرت کی۔

   کہتے ہیں: جب عبدالملك بن مروان کو حکومت ملی تو اسے پھر اس چیز کا خیال آیا تو قبيصة بن ذؤيب نے اس سے کہا: میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ ایسا کام مت کرنا۔ معاویہ نے منبر کو روانہ کیا تھا تو سورج گرہن ہوا تھا اور بیشک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے: «جو میرے منبر پر جھوٹی قسم کھائے اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنایا ہے»  اور گویا یہ حقوق کو معین کرنے اور اور یہ ثابت کرنے کا ذریعہ ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے۔ پس عبدالملك بھی اپنی اس فکر سے دستبردار ہو گیا۔

   اور جس اس کا بیٹا وليد بن عبدالملك تخت نشین ہوا اور اس نے حج ادا کیا تو اسے بھی یہ فکر لاحق ہو گئی، سعيد بن مسيّب نے عمر بن عبدالعزيز کو پيغام دیا کہ اپنے دوست کے بیٹے سے کہو: مسجد سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ ہو اور یوں اپنے لئے غضب الٰہی کو دعوت نہ دو۔ لہذا جب عمر بن عبدالعزيز نے اس سے یہ بات کی تو اس نے اسے قبول کیا۔

   اور جب سليمان بن عبدالملك نے حج ادا کیا تو عمر نے اس سے کہا کہ وليد کا ایسا ارادہ تھا۔

   سليمان نے کہا: مجھے یہ بالکل پسند نہیں ہے کہ عبدالملك اور وليد کے ایسے افکار ہوں، ہمیں ان سے کیا سروکار؟ ہم نے دنيا کو حاصل کر لیا اور اب وہ ہمارے ہاتھ میں ہے اور اب ہم اسلام کی ان مقدس علامتوں کا ارادہ کریں کہ لوگ جن کی زیارت کے لئے آتے ہیں اور انہیں ان کی جگہ سے ہٹائیں یا انہیں اپنے ساتھ لے جائیں، نہيں اس کام میں کوئی صلاح نہیں ہے۔(1)


1) نهاية الأرب: 92/7، تاريخ طبرى: 2802/7.

 

منبع : معاويه : ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 733
آج کے وزٹر : 5407
کل کے وزٹر : 32446
تمام وزٹر کی تعداد : 128544683
تمام وزٹر کی تعداد : 89362293