حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
امیر المؤمنین حضرت على علیه السلام سے اہل نجران کا عہد نامہ

**********************************************

10جمادی الثانی: امیرالمؤمنین حضرت على علیه السلام کا اہل نجران سے عہد نامہ (سنہ ۳۷ ہجری)

****************************************************************

امیر المؤمنین حضرت على علیه السلام سے اہل نجران کا عہد نامہ

  كتاب «مناقب ديلمى» میں لکھتے ہیں:

    ایک دن مأمون نے امام رضا عليه السلام سے کہا: میرے سامنے قرآن سے امير المؤمنین علی علیہ السلام کی کوئی عظیم ترین فضیلت بیان کریں:

 امام رضا عليه السلام نے فرمایا:

 فضيلته في المباهلة وأنّ رسول اللَّه صلى الله عليه وآله وسلم باهل بعليّ وفاطمة زوجته والحسن والحسين عليهم السلام وجعله منها كنفسه وجعل لعنة اللَّه على الكاذبين وقد ثبت أنّه ليس أحد من خلق اللَّه يشبه رسول اللَّه صلى الله عليه وآله وسلم فوجب له من الفضل ما وجب له إلّا النبوّة ، فأيَّ فضل وشرف وفضيلة أعلى من هذا ؟

 آنحضرت کی بلند ترین فضیلت مباہلہ میں ہے ، بیشک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کے ذریعہ (نصاریٰ نجران) سے مباہلہ کیا، اور آپ (امیر المؤمنین علی علیہ السلام) کو اپنی جان قرار دیا اور جھوٹون پر خدا کی لعنت کو قرار دیا۔

 البتہ یہ ثابت ہے کہ کہ خدا کی مخلوق میں سے کوئی بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مانند نہیں تھا اور اس بناء پر نبوت اور پیغمبر کے علاوہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لئے وہ تمام فضائل ثابت ہیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے لازم اور ضروری تھے، پس وہ کون سا فضل و شرف ہے جو اس سے افضل و اشرف ہے؟

    مأمون نے کہا: شايد رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم (آیت قرآن میں) «النفس» سے اپنی جان کی طرف اشارہ کیا ہو!

    امام رضا عليه السلام نے فرمایا:

 ایسا اشاره‏ جائز نہیں ہے کیونکہ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم ان تمام ہستیوں کے ساتھ نصاریٰ نجران کی طرف نکلے تھے اور آپ نے ان تمام کو ساتھ لے کر ان سے مباہلہ کیا تھا اور اگر (اس آیت میں النفس سے) اپنی جان کا ارادہ کیا ہوتا تو پھر یہ چاہئے تھا کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو مباہلہ سے خارج  کر دیتے حالانکہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام ان کا حصہ تھے۔

    مأمون نے کہا: جب جواب مل جائے تو بات ختم ہو جاتی ہے.(59)

    پھر ہم اسی کتاب میں پڑھتے ہیں کہ بعض شعراء نے اس واقعہ کو نظم میں بیان کیا ہے اور ہم نے اصلاح کی غرض سے بعض مصرعوں میں تصرف کیا ہے کہ جنہیں ہم یہاں نقل کرتے ہیں:

إنّ النبيّ محمّداً ووصيّه           وابنيه والبتول الطاهرة

 أهل العباء فإنّني بولائهم         أرجوا السلامة والنجاة في الآخرة

 فهم الّذين الرجس عنهم ذاهب       تطهيرهم كالشمس إذ هي ظاهرة

 فنفوسهم وجسادهم وثيابهم           أنقى وأطهر من بحار زاخرة

 ما في القرابة والصحابة مثلهم       أبنائنا وأنفسنا هي عامرة

 تنبئك عن هذا المباهلة الّتي          في آل عمران الّتي هي قاهرة

 ذلّت نصارى أهل نجران وقد      جاءَت لتطغى إذ هي كافرة

 فثبت بآل محمّد توحيده            واعطوا الجزاء صاغرين وصاغرة

 هذا دليل أنّهم أحبابه               الطاهرين الطيّبين عناصرة

 بعصمتهم من لم يقرّ فكافر         وابن لفاجر ، واُمّه هي فاجرة

 وهم الحجج من بعد سيّد خلقه      فبهم قوام الدين لا بكوافرة

 وعلى النبيّ وآله صلواته         فهم الشموس هم النجوم الزاهرة

 بیشک پیغمبر خدا حضرت محمّد مصطفى‏ٰ صلى الله عليه وآله وسلم اور ان کے جانشین علی مرتضیٰ علیہ السلام اور ان کے دونوں بیٹے امام حسن مجتبى عليه السلام اور سید الشہداء امام حسين عليه السلام اور ان کی بتول و پاکیزہ دختر ‏حضرت زہراء عليہا السلام اہل عباء میں سے ہیں اور کسی شک و شبہ کے بغیر ان کی ولایت کے ذریعہ آخرت میں سلامتی اور نجات پانے کی امید رکھتا ہوں۔ اور وہ ایسی ہستیاں ہیں کہ جن سے ہر قسم کے رجس کو دور کیا گیا ہے اور ان کی طہارت و پاکیزگی سورج کی مانند ظاہر و آشکار ہے۔ ان کے جسم و جاں اور لباس بحر بیکراں سے زیادہ پاکیزہ ہیں۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرابتداروں اور صحابیوں میں ان کی مثل کوئی بھی نہیں ہے اور اب خدا نے قرآن میں انہیں «أبنائنا و أنفسنا» کے ذریعہ یاد کیا ہے میں تمہیں اس مباہلہ سے آگاہ کرتا ہوں اور یہ وہ مباہلہ ہے کہ جس کا ذکر سورۂ آل عمران میں ہوا ہے اور وہ کامیاب و کامران ہوئے۔ اس وقت جب نصاریٰ نجران سرکشی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تو وہ ذلیل و خوار ہو گئے کیونکہ ان لوگوں نے انکار کیا تھا۔ آل محمد علیہم السلام کے مقدس وجود کے ذریعہ ان پر خدا کی توحید ثابت ہو چکی ہے اور ان لوگوں کو جزیہ ادا کرنے جیسی ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور یہ اس کی بہترین دلیل ہے کہ وہ خدا کے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ پاکیزہ عناصر ہیں، اور جو ان کی عصمت لا معتقد نہ ہو وہ کافر ہے یا حرام زادہ اور زنا کار ماں کا بیٹا ہے۔رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے بعد وہ خدا کی حجتیں ہیں، دین کی پاسداری ، مضبوطی انہی کے ذریعہ سے ہے نہ کہ کافروں کے وسیلہ سے ہے۔

 

ایک دوسرے شاعر نے کہا ہے:

 لمن باهل اللَّه وكان الرسول بهم أبهلا

 فهذا الكتاب وإعجازه على من وفى بيت من أنزلا

خدا نے کن کے ساتھ مباہلہ کیا حالانکہ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کے ساتھ مباہلہ کیا۔یہ قرآن اور اس کا یہ اعجاز اس کے لئے ہے جو اس کے گھر میں نازل ہوا.

نیز ایک اور شاعر نے کہا:

 يا من يقيس به سواه جهالة         دع عنك هذا فالقياس مضيّع

 لو لم يكن في النصّ إلّا أنّه         نفس النبيّ كفاه هذا الموضع

 اے وہ شخص! جو اپنی جہالت کی بناء پر دوسروں پر ان کا قیاس کرتا ہے، اس باطل قیاس کو ترک کر دو۔ نص اور صریح آیت مباہلہ میں علی علیہ السلام کو نفس پیغمبر صلى الله عليه وآله وسلم شمار کیا گیا ہے اور یہ ان کی فضیلت اور برتری کے لئے کافی ہے۔

    اور ابن حمّاد رحمه الله کہتے ہیں:

 وسمّاه ربّ العرش في الذكر نفسه      فحسبك هذا القول إن كنت ذا خبر

 وقال لهم : هذا وصييّ ووارثي         ومن شدّ ربّ العالمين به أزري

 عليّ كزرّي من قميصي إشارة         بأن ليس يستغني القميص عن الزرّ

 اور اگر تم اہل خبر ہو تو تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ صاحب عرش پروردگار نے قرآن مجید میں انہیں نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہا ہے۔ اور پیغمبر اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کا فرمان ہے کہ وہ میرے جانشین اور میرے وارث ہیں کہ جنہیں رب العالمین نے میرا پشت پناه قرار دیا ہے۔ على ‏عليه السلام کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو قمیض کو کپڑے کے ساتھ، کیونکہ قمیں ہرگز کپڑے سے بے نیزا نہیں ہو سکتی۔


59) علّامه مجلسى رحمه الله نے کتاب بحار الأنوار : 257/35 میں شيخ مفيد رحمه الله کی کتاب «الفصول المختارة» سے اس کی مانند روایت کو نقل کیا ہے۔

 

منبع: فضائل اہلبیت علیہم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ: ج 2 ص243 ح 847

 

 

ملاحظہ کریں : 797
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 19304
تمام وزٹر کی تعداد : 128855897
تمام وزٹر کی تعداد : 89517926