حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
بدن جناب زيد کا جسم قبر سے نکالنا

بدن جناب زيد کا جسم قبر سے نکالنا

********************************************

4 صفر؛ جناب زيد بن علي بن الحسين عليهم السلام  کا جسم مطہر قبر سے نکالنا اور امویوں کا اسے دار پر لٹکانا(سنہ ۱۲۱ ہجری)

********************************************

ہشام کے زمانے میں زید بن علی بن حسین بن علی شہید ہوئے، ایک قول کے مطابق یہ سنہ ۱۲۱ ہجری اور دوسرے قول کے مطابق یہ ۱۲۲ ہجری میں واقع ہوا۔ زید بن علی نے اپنے بھائی ابو جعفر بن علی بن حسین(علیہم السلام) سے مشورہ کیا، اور ان کی رائے یہ تھی کہ اہل کوفہ پر اعتماد نہ کیا جائے کیونکہ وہ لوگ مکار اور دھوکہ باز ہیں،انہوں نے ان سے فرمایا:

تمہارے جد (حضرت) علی علیہ السلام کوفہ میں قتل ہوئے، تمہارے چچا (امام ) حسن علیہ السلام وہاں قتل ہوئے، تمہارے بابا (امام) حسین علیہ السلام وہاں قتل ہوئے،  کوفہ اور اس کے ماتحت علاقوں میں ہمارے خاندان کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔

وہ بنی مروان کی مدت حکومت کے بارے میں جانتے تھے اور یہ کہ ان کے بعد عباسی حکومت آئے گی ، ان سے کہا کہ وہ اپنے حق کے مطالبہ سے دستبردار نہ ہوں۔ ابو جعفر نے ان سے کہا: بھائی میں ڈرتا ہوں کہ کہیں کل کوفہ میں لٹکا نہ دیئے جاؤ۔ اس کے بعد ابو جعفر سے رخصت ہوئے اور کہا کہ پھر ایک دوسرے کو نہیں دیکھ پائیں گے۔

زید رصافہ میں ہشام کے پاس گئے اور جب اس کے سامنے پہنچے تو انہیں بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی تو وہ مجلس کے آخر میں بیٹھ گئے اور کہا: اے امیر المؤمنین! کوئی بھی تقویٰ سے بزرگتر نہیں ہے  اور کوئی بھی تقویٰ کی وجہ سے سے چھوٹا نہیں ہو سکتا۔

ہشام نے کہا: اے بے‏ مادر! خاموش ہو جاؤ؛ تمہاری ماں تو کنیز تھی اور تم خلافت کے دعویٰ کر رہے ہو؟

کہا: اے امير المؤمنین! اس کا بہت سخت جواب ہے اگر کہو تو میں بھی اس کا جواب دوں اور اگر کہو تو خاموش ہو جاؤں۔ اس نے کہا: تم کہو( یعنی جواب دو)

کہا: مائیں بلند ہدف کی راہ میں مانع نہیں ہو سکتیں، اسماعیل کی ماں مادر اسحاق صلّی اللہ علیہما کی کنیز تھی اور اس چیز کے لئے مانع نہ بنی کہ خداوند اسے نبوت کے لئے منتخب کرے اور اسے قوم عرب کا باپ قرار دے اور ان کےسلب سے خیر البشر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا میں  آئیں۔ تم مجھ سے یہ سب کہہ رہے ہو جب کہ میں فاطمہ و علی علیہما السلام کا فرزند ہوں۔

پھر آپ نے کھڑے ہو کر شعر پڑھے کہ جن کا مضمون کچھ یوں ہے:  « خوف نے اسے زبوں حال و آوارہ کر دیا ہے اور جو کوئی بھی جنگ کی گرمی سے ڈرے تو ایسا ہی ہو گا،لرزتے ہوئے ہاتھ اور اسلحہ بھی اسے خاک پر پٹخ دے گا، اس کے لئے موت آسائش ہے اور بندوں کو موت سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اگر خدا انہیں کوئی حکومت دے تو وہ دشمنی کی نشانیوں کو خاکستر کی طرح رکھیں گے».

پھر زید کوفہ کی طرف چلے گئے اور وہیں قیام کیا جب کہ شہر کےاشراف اور قاری آپ کے ساتھ تھے۔ یوسف بن عمر ثقفی نے ان سے جنگ کی اور جب جنگ عروج پر پہنچ گئی تو زید کے ساتھی بھاگ گئے اور انہیں ایک چھوٹے سے گروہ  کا ساتھ حاصل رہا جس کے ساتھ مل کر انہوں نے سخت جنگ کی اور وہ تمثیل سے شعر پڑھ رہے تھے کہ جس کا مضمون یہ تھا: «کيا حیات و زندگی کی ذلّت کو قبول کروں یاموت کی عزّت کو کہ میں دونوں کو ناپسند خوراک دیکھ رہا ہوں۔ اور اگر میں ان دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوا تو بہتر موت کا انتخاب کروں گا ».

پھر دو گروہ کے درمیان رات کی تاریکی حائل ہو گئی، جب کہ زید کو بہت زیادہ زخم لگے تھے اور ان کی پیشانی میں تیر لگا تھا، وہ کسی کو پکار رہے تھے تا کہ ان کی پیشانی سے تیر نکال دے، کسی دیہات سے ایک حجامت کرنے والے کو بلایا گیا اور اسے کہا گیا یہ کام مخفیانہ طور پر کرے، اس نے تیر نکال دیا  تو زید اسی وقت اس دنیا سے چلے گئے اور انہیں پانی کی ایک نہر کے ساتھ دفن کر دیا گیا اور ان پر خاک اور خشک گھاس ڈال دی گئی  اور اس پر پانی جاری کر دیا۔ یوسف نے زید کو قبر سے نکالا اور ان کا سر ہشام کے پاس بھیج دیا۔ ہشام نے اسے لکھا: اسے برہنہ لے کر آؤ۔

یوسف نے بھی انہیں اسے طرح لٹکا دیا اور ان کے تخت دار کے نیچے ایک ستون بنایا۔ بنی امیہ کے ایک شاعر نے اس بارے میں خاندان ابوطالب اور ان کے شیعوں سے خطاب کرتے ہوئے کچھ اشعار کہے کہ جن کا مضمون کچھ یوں ہے: «ہم نے تمہارے زيد کو نخل کے تنے سے لٹکا دیا اور میں نے نہیں دیکھا کہ مہدی کو نخل کے تنے سے لٹکا دیں ».

اس کے بعد ہشام نے يوسف کو لکھا کہ زيد کے جسم کو جلا کر اس کی راکھ ہوا میں اڑا دو.(1956)


1956) مروج الذهب: 208/2.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

 

ملاحظہ کریں : 870
آج کے وزٹر : 7071
کل کے وزٹر : 19024
تمام وزٹر کی تعداد : 127562886
تمام وزٹر کی تعداد : 88853461