حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
یہودیوں کی قوم پرستی

یہودیوں کی قوم پرستی

 

کتاب’’اسرائیلیات و تاٴثیر آن بر داستان ھای انبیاء در تفاسیر‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’بریٹانیکا انسائیکلوپیڈیا‘‘ میں ذکر ہوا ہے:خود کو برگزیدہ امت سمجھنے کے لئے یہودی اپنے  عقائد کے اصل عامل کوکتاب تلمودسے نسبت دیتے ہیں اور اس پر شدت سے زور دیتے ہیں ، اور خود کو ہی محترم اور زندہ قوم سمجھتے ہیں۔[1]،[2]

جاہل عربوں میں یہودیت کے نہ پھیلنے کے بارے میں محمد جواد مغنیہ لکھتے ہیں:

یہودی اس بات پر تیار نہیں تھے کہ ان کے آئین دوسری اقوام و ملل میں پھیلیں کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ایسا کرنے سے وہ دوسرے تمام انسانوں کی سطح پر آ جائیں گے اس لئے وہ ایسا کرنے پر تیار نہ ہوئے۔کیونکہ وہ معتقد تھے کہ خدا نے انہیں پوری کائنات پر برتری دی ہے اور انہیں برگزیدہ قوم اور دوسری تمام اقوام کو ان کا غلام قراردیا ہے۔اسی وجہ سے یہودی اپنے علاوہ دوسرے  افراد کو’’جوییم‘‘یعنی انسان کی شکل میں حیوان کہتے ہیں۔[3]،[4]

یہودی قوم پرستی اور بنی اسرائیل کو دنیا کی تمام اقوام سے افضل سمجھنے میں مشہور ہیں۔

انہوں  نے اپنے عقیدہ پر اس قدر اصرار کیا کہ ان کا کہنا ہے:بنی اسرائیل کے علاوہ کسی میں یہودی ہونے کی صلاحیت نہیں ہے! اور صرف بنی اسرائیل ہی دین یہود کے معتقد ہو سکتے ہیں۔

اسی بناء پر دوسرے ادیان و مذاہب کے پیروکاروں میں سے کسی ایک نے بھی یہودی مذہب کا رخ نہ کیا لیکن کبھی یہودی دوسرے مذاہب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔یہودیوں کے اس عقیدے (یعنی بنی اسرائیل سب سے افضل قوم ہیں اوردین یہود صرف انہی سے مخصوص ہے)کی وجہ سے دنیا کے لوگ ان کی مذہبی تبلیغات کے شرّ اور دوسرے مذاہب سے وابستہ افراد  ان کے تحریف شدہ مذہب کی طرف مائل ہونے سے محفوظ رہے۔

یہودی یہ سوچتے ہیں کہ وہ پوری دنیا پر حاکم ہو کر اپنے مخالفین کو ختم کر دیں گے کیونکہ ساری زمین انہی کی ہے ،اورصرف اسی وقت اہل دنیا یا تو یہودی مذہب اختیار کر سکیں گے یا پھر تمام کے تمام مار دیئے جائیں گے۔

وہ کہتے ہیں:جب ہماری شہنشاہی حکومت کا آغاز ہو گا توہمارے دین کے علاوہ تمام ادیان ختم ہونے چاہئیں، اور ہمارا دین ہی خدائے واحد پر اعتقاد رکھتا ہے۔بیشک ہماری قوم کی تقدیر برگزیدہ قوم کے عنوان سے خدا کے وجود سے بندھی ہوئی ہے اور اسی نے دنیا والوں کے مقدر کو ہماری تقدیر سے وابستہ کر رکھا ہے۔لہذا ہر قسم کے عقیدے کی جڑیں اکھاڑ دی جائیں حتی اگر اس  کام کا انجام خدا کے وجود کا انکار ہی کیوں نہ ہو  کہ جس کے  آج ہم شاہد ہیں۔

یہ کام نہ صرف حکومت کے انتقال کے زمانہ میں مفید ہے بلکہ ایسے جوانوں کے لئے بھی مفید ہے جو آئندہ مذہب موسیٰ کی تبلیغات کو سنیں گے ۔ایسا دین جس کے احکامات پائیدار اور ترقی یافتہ ہیں  اور جو تمام دنیا والوں کو ہماری اطاعت پر مجبور کرتے ہیں ۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی تبلیغات ،تعلیم ، دین کے اسرار آمیز اور اعجاز آمیز پہلوؤں پر زور دیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر مضامین و مقالات بھی شائع کرتے ہیں،ہم اپنی خدائی حکومت کا گذشتہ حکومتوں سے تقابل کرتے ہیں اور غیریہود ی حکومتوں کی غلطیوں کو بہت واضح طور پر بیان کرتے ہیں اور کچھ حکّام کی سفّاکانہ و ظالمانہ حرکات بھی ذکر کرتے ہیں، جنہوں نے انسانوں پر تشدد کیا اور انسانیت کو پامال کیااور اس سے انسانوں کی نفرت کو بھڑکاتے ہیں جس سے انسان غلامی کے دور کی آسائش و سہولت کو غلامی کے بعد کے زمانے کی سہولیات پر ترجیح دیتا ہے۔

ہمارے ذریعے غیریہودی حکومتوں میں رونما ہونے والی بے فائدہ تبدیلیوں سے ان کی حکومتوں کا اعتبار کم ہو جاتا ہے اور لوگ اپنی حکومتوں کی غیر یقینی صورت حال سے تھک کر ہمارے دورحکومت میں ہر طرح کی خفّت و ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور ہمارے تسلط سے نکل کر ماضی کی مصیبتوں کو پھر سے برداشت کرنے کے لئے رضامند نہیں ہوتے۔

اسی دوران ہم غیر یہودی حکمرانوں کی لاعلمی اور مسائل کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے سرزد ہونے والی تاریخی غلطیوں پر بھی بہت زور دیتے ہیں  اوران حکمرانوں کے ہاتھوں انسان کو پیش آنے والی مشکلات اور مصیبتیں یاد دلاتے ہیں۔

ہمارا بریقۂ کار اور ہمارے اصول اس حقیقت پر مبنی ہیں کہ ہم جو کچھ پیش کریں اورجو تفسیر کریں؛ وہ سب بہترین اور عیب و نقص سے پاک ہے لیکن جو کچھ ماضی میں موجود تھا وہ سب بیہودہ اور بیکار تھا۔

ہمارے فلاسفہ دوسرے عقائد و مذاہب کے بارے میں بحث کرتے ہیں اور ان کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں لیکن کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ  ہمارے مذہب کے حقیقی عقائد کا تجزیہ و تحلیل کرے۔کیونکہ ہمارے علاوہ کسی اور کو ہمارے دین کے امور  نہیں سمجھنے چاہئیں ،اور تو اور ہماری اپنی قوم کے افراد کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ ہمارے دین کے اسرار کوبرملا کریں۔

ترقی و پیشرفت اور روشن فکری کے نام سے مشہور صدیوں میں ہم نے پست ،بیہودہ اور ذلت آمیز ادبیات کو رواج دیا اور ہمیں قدرت و طاقت مل جانے کے بعد بھی ہم یہی چاہیں گے کہ ہماری زندگی میں ادبیات کا یہ طریقۂ کار اسی طرح چلتا رہے۔[5]

 


۲ ۔ نقدو نگرشی بر تلمود سے اقتباس:١٣٣ .

[2]۔ تلمود کی تصریح کے مطابق:خدا کے نزدیک اسرائیلیوں کا ملائکہ سے زیادہ مقام ہے اور ان کے خلاف جنگ شوکت الٰہی کے خلاف جنگ ہو گی کیونکہ ہر یہودی خدا کا ایک مادی جزء ہے جس طرح بیٹا باپ کا جزء ہوتا ہے۔یہودی اور غیر یہودی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا انسان اور حیوان میں فرق ہے۔(تلمود،سنہدرین:٥٨٢،الکنز المرصود فی قواعد التلموذ سے اقتباس:٦٠،نیز ملاحظہ کریں:الأسفار المقدسة قبل الاسلام:١٦٥ اور ١٦٦،الکتاب المقدّس فی المیزان:٢٣،مقارنة الادیان(الیہود): ٢٧٢ تا ٢٧٤،العرب و الیہود فی التاریخ:١٧٤)

۲ ۔ اسرائیلیات القرآن:١٦ اور ١٧.

۲ ۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:٣٧ .

۱۔ پروتکل ھای رہبران یہود برای تسخیر جھان:٩٧ .

    ملاحظہ کریں : 2132
    آج کے وزٹر : 7193
    کل کے وزٹر : 84782
    تمام وزٹر کی تعداد : 134427875
    تمام وزٹر کی تعداد : 92969726