امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
امویوں کی قوم پرستی

امویوں کی قوم پرستی

یہودیوںکی طرح بنی امیہ بھی خود کو دنیا کی سب سے افضل قوم سمجھتے تھے؛حلانکہ ان کی کچھ عورتوں کے گھروں کی چھتوں پر آزادی کے پرچم نصب تھے اور بہت سے مرد ان کی عورتوں کے ساتھ مباشرت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ خود کو دنیا کی سب سے افضل قوم سمجھتے تھے!! وہ خود کو تمام قریش حتی کہ بنی ہاشم سے بھی افضل سمجھتے تھے اور عربوں کے علاوہ دوسری تمام اقوام کو حیوان سمجھتے تھے ؛چاہئے وہ ایرانی ہوں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہو یا اسلام قبول نہ کیا ہو۔

بنی امیہ عربوں کو عجمیوں سے برتر سمجھتے تھے اور عرب ،غیر عرب کو علوج (یعنی موٹی گائے یا موٹا انسان اور سرخ و سفید)کہتے تھے،بلکہ جریر کہتا ہے:

قالوا نَبیعکہ بیعاً فقلت لھم                        بیعوا الموالی واستغنوا عن العرب

انہوں نے کہا ہے:تمہیں ان کے پاس فروخت کردیتے ہیں،میں نے کہا:غیر عربوں کو فروخت کرو اور عربوں کو فروخت کرنے سے بے نیاز ہو جاؤ۔

مبرّد کہتا ہے:غیر عربوں کو جس چیز نے زیادہ پریشان کیا ہے وہ یہی شعرہے کیونکہ اس میں انہیں خوار اور پست قرار دیا گیا ہے۔

ایک غیر عرب نےعربوں میں سے قبیلۂ بنی سلیم کی عورت سے شادی کی۔ایک محتسب نے  عبدالملک مروان کے داماداورمدینہ کے حاکم ابراہیم بن ہشام سے شکایت کر دی۔حاکم نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا اور شوہر کو سزا دی کیونکہ اس سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوا تھا!اس کی سزا یہ تھی کہ اسے دوسو کوڑے مارے گئے اور اس کی ڈاڑھی مونچھ منڈوا دی گئی۔

اس حاکم کے بارے میں کہا گیا ہے:

قضیت بسنّة وحکمت عدلاً                        و لم ترث الحکومة من بعید

تم نے سنت کے مطابق فیصلہ کیا اور عادلانہ حکم جاری کیا اور تم نے حکومت کسی بیگانے سے ارث میں نہیں لی۔

اب اس بہترین اور پڑھنے کے قابل واقعہ کی طرف توجہ کریں:

دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہشام نے اپنے ایک درباری سے ملک کے مختلف شہروں کے فقہاء کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ مدینہ کا فقیہ کون ہے؟

اس نے کہا:عمر کا آزاد کردہ غلام مدینہ کا فقیہ ہے ۔

پوچھا:مکہ کا فقیہ کون ہے؟ کہا:عطاء بن ابی ریاح۔

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:یمن کا فقیہ کون ہے؟کہا:طاووس بن کیسان۔

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:یمامہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:یحیی  بن کثیر۔

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:شام کا فقیہ کون ہے؟کہا:مکحول۔

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:جزیرہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:میمون بن مہران۔

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:جزیرہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:ضحأک بن مزاحم۔

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:بصرہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:حسن اور ابن سیرین۔

پوچھا:کیا وہ عرب ہیں یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:کوفہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:ابراہیم نخعی۔

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا: عرب۔

ہشام نے کہا:میری جان  پہ بنی ہوئی تھی ،تم نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ عرب ہے۔[1]

اس واقعہ کی بناء پر عرب، غیر عربوں کو ’’علوج‘‘کے نام سے پکارتے تھے  اور یہودی بھی غیر یہود کو ’’جویم‘‘یعنی انسان کی شکل میں حیوان کہتے تھے۔

کتاب’’حکومت امویان‘‘میں لکھتے ہیں:اموی حاکموں کی محفلوں میں عرب پرستی واضح طور پر نظر آتی تھی ۔اموی عربوں کی طرف مائل تھے اور انہیں برتری دیتے تھے جس کے اثرات سیاسی، اقتصای اور سماجی تینوں لحاظ سے رونما ہوتے تھے۔لیکن سیاسی صورت کے بارے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ بہت سے عجم مذہبی ،سماجی یا مادّی وجوہات کی وجہ سے اسلام  کی طرف مائل ہوئے لیکن  ان کے ساتھ اسلامی اصولوں (جیسے عرب اور عجم کا برابر ہونا) کے مطابق سلوک  نہ کیا گیا جس کی وجہ سے وہ اہم حکومتی[2]عہدوں  اور دوسری سہولیات  سے  محروم رہے کہ جس کے وہ اہل تھے جیسے فوج میں آنا،اور وہ لوگ مسلمان ہونے کے باوجود وہ لوگ جزیہ دینے پر مجبور تھے۔

یہ واضح سی بات ہے کہ اس سیاسی تفرقہ کی وجہ اموی عربی نسل پرستی میں دلچسپی رکھتے تھے اور ان کے اس رویے نے ان میں  تشدد اور جنگ طلبی کا مزاج پیدا کر دیا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ کوئی چیز بھی امویوں کی اس دلچسپی کو نہیں روک سکتی تھی کیونکہ حقیقت میں وہ قریشی اور اس سے بھی وسیع طور پر دیکھیں تو وہ قیسی تھے۔ اسلام کی فتوحات اور بہت سے غیر عربوں کی اسلام کی طرف آنے سے پیدا ہونے والی نئی تبدیلی سے انہوں نے اپنی غیر استعمال شدہ مقامی اور قبائلی نوعیت کو محفوظ رکھا۔

انہوں نے اسلام کے عقائد اور اسلامی علاقوں کی تاریخ میں بنیادی فتوحات سے وجود میں آنے والی تبدیلیوں کودرک نہیں کیا تھا۔ اموی حکومت کے دور میں اس طریقۂ کار سے موالی تحریک کے دلوں میں عربی حکام کے خلاف نفرت و  کینہ پایا جاتا تھا جس کے نتیجہ میں جدید تفرقہ وجود میں آیاجن کی بنیادقومی مسائل تھے۔

انہوں نے ایک سیاسی دباؤ کے لئے ایک لشکر بنایا جس کا اموی خلافت کے زوال میں بھی ہاتھ تھا کیونکہ یہ گروہ ایسا تھا جوکام تو بہت زیادہ کرتا تھا لیکن اجرت بہت کم پاتے تھے اوروہ حکومت اور  معاشرے میں سخت ذمہ داری  کی وجہ سے خود کو عربوں سے برابری کی بنا ء پر خود کو ان کا ہم نوالہ ہونے کے لائق  سمجھتے تھے۔

اموی  دور کے آغاز میں(جب مشرق اور بالخصوص ایران میں اسلامی تحریک اپنے قدم آگے بڑھا رہی تھی)سنہ۴۳ہجری (سنہ٦٦۳ء)میں کوفہ میں  سب سے پہلی اسلامی تحریک  کا آغاز کیا۔معاویہ نے اس تحریک کا مقابلہ کیا اور ان میں سے کچھ کو کوچ کروا کر شام میں بھیج دیا۔

دور یزید کے بعد یہ موالی تحریک  واضح و شفاف ہو گئی کیونکہ فتح کی گئی سر زمینوں میں مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا اور نئے مسلمانوں نے دیکھا کہ عربوںاور خاص کر ان کے حکمرانوں کے امتیازات میں اضافہ ہو رہا ہے۔لہذا انہوں نے ایک لشکر بنایا جس کا اس دور کے اسلامی معاشرے میں مقام تھا۔

موالیوں نے اموی حکومت کے خلاف اس تحریک سے الگ پالیسی اپنائی اور یہ اپنے جن حقوق سے محروم تھے ،ان کی دستیابی کے لئے انہوں نے اموی حکومت میں ابن زبیر کی تحریک کی حمایت کی۔ان کی فوج مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کی تحریک کی بدولت  آشکار ہوئی اورتحریک شیعوں اور ایرانی عوام میں اتحادکے آغاز کا باعث بنی۔ان تحریکوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ  حقوق میں مساوات پر مبنی قانون چاہتے تھے  اگرچہ وہ اپنے تمام اہداف حاصل نہ کر سکے۔

موالیوں کے مقابلہ میں عمر بن عبد العزید کے ددور خلافت میں امویوں کی سیاست بدل گئی ۔ اسے قطب اسلامی! اور بنی امیہ کے درمیان مصالحتی سیاست کہا جا سکتا ہے جس سے وہ افراتفری اور بے سکونی کی کیفیت  کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔یہ سیاست عمر  بن عبد العزیز کی موت کے بعد پھر  سے تبدیل ہو گئی اور امویوں نے ایک بار پھر عربوں اور موالیوں میں فرق کرنا شروع کر دیا۔

ایسا معلوم ہوتاہے کہ موالیوں کے ذریعہ وجود میں آنے والا سیاسی گروہ عباسیوں کا آلہ کار بن گیا ۔ کیونکہ انہیں اس تحریک سے عربوں کے ساتھ برابری اور مساوات کی امید تھی ،اسی لئے عباسی ایرانی عوام اور سرزمین کے مرہون منت تھے، کیونکہ ان  کے لئے امویوں کے سامنے خراسان ہی  مقابلہ کاپہلا میدان قرار پایا۔لیکن اقتصادی لحاظ سے یہ کہنا ضروری ہے کہ امویوں نے مشخص اقتصادی سیاست نافذ کی جو موالیوں کو اقتصادی امتیازات سے محروم رکھنے پر مبنی تھی۔جس نے ان کے لئے بہت سے مسائل پیدا کئے  اور آخر کار اس سے بد امنی پیدا ہوئی ، جو ان کی حکومت کی نابودی کا باعث بنی۔

موالی ہر جگہ اقتصادی حالات کی شکایت کرتے ۔وہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے ہر شخص کے ساتھ ملحق ہو جاتے تھے ۔خراسان کے موالی دوسروں کی بنسبت زیادہ شکایت کرتے  تھے، وہ دوسرے اسلامی شہروں سے پہلے اسلام کی طرف آئے اور انہوں نے عربوں کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف سرزمین ماوراء النہر میں اور ہندیوں سے سندھ کے علاقہ  میں جہاد میں شرکت کی ۔ان خدمات کے باوجود حکومت نے انہیں اقتصادی امتیازات سے محروم رکھا۔[3]

 

۱ ۔ پیشوای علم و معرفت:٤٣٠ .

۲۔ حکومت کو ملازمین کی ضرورت تھی لیکن حکمران  اپنے کسی بھی من پسند شخص کو کوئی سا بھی عوامی عہدہ بالخصوص خزانہ کے امور کی ذمہ داری سونپ دیتا تھا۔

۱۔ دولت امویان:٢٤٠ .

    بازدید : 2307
    بازديد امروز : 14845
    بازديد ديروز : 153472
    بازديد کل : 139978292
    بازديد کل : 96525720