اختتامیہ
امام زمانہ ارواحنا فداہ کا شکستہ قلب
امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کا سب سے بڑا غم سید الشہداءحضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہے ، جس کی وجہ سے آپ ہمیشہ محزون اور غمزدہ ہیں اور اس غم میں خون کے آنسو بہاتے ہیں اور کئی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کا انتقام نہیں لیا گیا اور اب بھی آپ کا خون تازہ ہے، جس کی وجہ سے قلب عالم امکان حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کا دل رنجیدہ ہے ۔
آپ یہ سوچیں کہ جب قلب عالم میں نہ ختم ہونے والا غم ہو ، جس سے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا دل غمزدہ اور زنجیدہ ہو تو پوری دنیا پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور تمام مخلوقات پر اس کا کیا اثر ہوتا ہو گا ۔
اس بات کی وضاحت کے لئے اس نکتہ پر توجہ فرمائیں:
ظہور کے زمانے کے متعلق ہمارے پاس بہت سی روایات موجود ہیں جن میں دنیا اور اہل دنیا کی حالت بیان کی گئی ہے۔ ان میں سے بعض روایات میں پرندوں اور مچھلیوں وغیرہ کے بارے میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ظہور کے وقت کی آمد کی وجہ سے اپنے ادراک کی حد کے مطابق مقام ولایت سے ارتباط کی وجہ سےخوشی کا ظہار کریں گے ۔ نیز وہ عصر ظہور میں دنیا میں عدل و انصاف کے پھیلاؤ، تمام جنگوں اور ظلم و ستم کے خاتمے کے کی وجہ سے بھی خوش و خرم ہوں گے۔
ظاہر ہے کہ ظہور کے پرشکوہ زمانے کو درک کرنے والی مخلوقات اس کی وجہ سے خوشی اور مسرت کا اظہار کریں گے، البتہ ان میں امام حسین علیہ السلام کا خون بھی بے اثر نہیں ہو گا اور یہ حالت اسی طرح باقی رہے گی کہ جب تک امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ظہور نہ ہو جائے ۔
امام حسین علیہ السلام سے وارد ہونے والی ایک روایت میں آپ نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ آپ کے خون کو تب تک چین نہیں ملے گا ، جب تک امام زمانہ عجل الله تعالٰى فرجه الشریف کا ظہور نہ ہو جائے ۔
امام سجاد علیہ السلام نے یہ روایت اپنے والد گرامی حضرت امام حسین علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :
قال علي بن الحسين علیھما السلام: قال أبي:...يا ولدي يا علي واللَّه لايسكن دمي حتّى يبعث اللَّهالمهدي فيقتل على دمي من المنافقين الكفرة الفسقةسبعين ألفاً. [1]
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے بابا نے فرمایا: اے میرے بیٹے!اے علی !خدا کی قسم! میرے خون کو تب تک چین نہیں ملے گا جب تک خدا (امام) مہدی (علیہ السلام) کو نہ بھیج دے ۔ پس وہ میرے خون کا نتقام لینے کے لئے ستّر ہزار (یعنی کثیر تعداد میں)منافق فاسقوں کو قتل کریں گے۔
اس روایت کے مفہوم پر غور کرنے سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت سے لے کر اب تک اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے قیام سے لے کر امام حسین علیہ السلام کے دشمنوں سے آپ کے خون کا انتقام لینے تک آپ کے خون کو سکون نہیں ملے گا ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے انتقام کے درمیان ایک لازمہ پایا جاتا ہے ۔
امام حسین علیہ السلام کا کھولتے ہوئے خون اور کئی صدیوں سے آپ کے خون کو سکون نہ ملنے سے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے دل پر کیا گزرتی ہو گی اور آپ کا دل کس قدر رنجیدہ ہو گا ، اسی وجہ سے آپ امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:
فلأندبنّك صباحاً ومساءً ولأبكينّ لك بدل الدموع دماً. [2]
صبح و شام آپ پر گریہ و زاری کروں اور آپ پر آنسوں کی بجائے خون کے آنسو بہاؤں۔
جب تک امام حسین علیہ السلام کے خون کو چین نہ مل جائے تو کیا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے دل کو آرام و سکون مل سکتا ہے ؟
جب امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا دل امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی وجہ سے رنجیدہ ہو تو کیا ظہور کے علاوہ کسی چیز سے آپ کے دل کو سکون مل سکتا ہے ؟
ہم امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کےبے چین اور رنجیدہ دل کو کیوں یاد نہیں کرتے؟
امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے لئے دعا کیوں نہیں کرتے ؟
ہم آپ کے ظہور سے کیوں غافل ہیں؟
ہم دعاؤں اور زیارتوں میں امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کرنے کے سلسلہ میں وارد ہونے والی ان تمام تاکیدات کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں؟
ہم امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے اس پیغام کو کیوں بھول جاتے ہیں جس میں آپ نے خود حکم دیا ہے کہ میرے ظہور میں تعجیل کے لئے کثرت سے دعا کرو؟
ابتدائے اسلام میں جن لوگوں نے امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا تھا ، آج ہم نے انہی لوگوں کی طرح اپنے زمانے کے امام کو کیوں تنہا چھوڑ دیا ہے اور ہم ان کے لئے کوئی کام کیوں نہیں کرتے ؟
جب امام صادق علیہ السلام یہ فرماتے ہیں کہ اگر میں حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے زمانے میں زندہ ہوتا تو میں پوری زندگی ان کی خدمت کرتا تو پھر ہم امام مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی امامت کے زمانے میں ہونے کے باوجود آپ کی خدمت کیوں نہیں کر رہے ؟!
اگر امام صادق علیہ السلام کے اس فرمان پر غور کیا جائے تو یہ روایت انسان کو یکسر بدل دیتی ہے ، آپ اس روایت میں فرماتے ہیں :
...لو أدركته لخدمته أيّام حياتي . [3]
اگر میں ان کے زمانے کو درک کر لوں تو میں پوری زندگی ان کی خدمت کروں۔
امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خدمت کرنے کے لئے ہمارے اعمال اور رفتار و کردار پر رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس فرمان کا بہت زیادہ اثر ہونا چاہئے اور ہمیں اپنے اندر ایک مؤثر تبدیلی اور مضبوط جذبہ پیدا امام عصر ارواحنا فداہ کی خدمت کرنے کے لئے کمر کس لینی چاہئے ۔
بازديد امروز : 9017
بازديد ديروز : 65588
بازديد کل : 179710681
|