صبر کے حصول میں معرفت اور عصر ظہور کا کردار
ظہور کے پرشکوہ دور اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی عظیم آفاقی حکومت کےقیام کی معرفت اور اس پر توجہ کرنےکے بہت ہی اہم آثار ہیں، جن میں سے ایک اثر ان لوگوں کے لئے ہے جو انتظار کر رہے ہیں اور جنہوں نے اپنے انتظار کو کمال تک پہنچایا ہے ۔
امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے زمانے پر توجہ کرنے اور اس کی معرفت کے اہم اثرات یہ ہیں کہ اس سے انسان میں روحانی اعتدال پیدا ہوتا ہے اور وہ زندگی کو جاری رکھنے کی طاقت حاصل کر لیتا ہے۔
وہ لوگ جو پوری دنیا میں الٰہی حکومت کے ظہور کے منتظر ہیں، جو انسانیت کی نجات کے خواہاں ہیں اور پوری دنیا میں خدا کی عادلانہ حکومت کے قیام کے منتظر ہیں؛ وہ امن و امان اور ضروری اطمینان کے حامل ہوں گے۔ وہ اپنے معمولات زندگی میں خلل سے نجات پائیں گے اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی تبلیغ اور عادلانہ عالمی حکومت کی آمد کی راہ میں اپنا فرض ادا کریں گے اور اس راہ میں کوشش کرنے سے دستبردار نہیں ہوں گے ۔
اگر ایسے لوگ ظہور کے زمانے اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی عالمی حکومت کے قیام کی جانب توجہ نہ کریں تو عین ممکن ہے کہ پوری دنیا میں موجود معاشرتی فتنوں اور تباہ کن لغزشوں سے ان کا شعور اور فکری توازن متأثر ہو جائے۔ اس لئے امام زمانہ ارواحنا فداہ کی آفاقی حکومت(جو خدا کا یقینی وعدہ ہے) کی طرف توجہ کرنے سے وہ ایسے حالات سے محفوظ رہیں گے جو اس طرح کے واقعات کا سبب بنتے ہیں۔
***
یہاں یہ کہنا چاہئے کہ ہم نے جن منتظر افراد کا تذکرہ کیا ہے، ان سے بہتر لوگ بھی ہو سکتے ہیں۔ایسے لوگ نہ صرف عوامی معلومات کے ذریعہ، بلکہ دل کی آگہی پر مبنی بہت سی ایسی چیزوں سے واقف ہیں کہ جن سے عام لوگ واقف نہیں ہوتے۔ یہ لوگ نہ صرف علوم اور معارف کے لحاظ سے دوسروں سے برتر ہیں، بلکہ وہ باطنی علم کے ذریعہ معاشرتی بدعنوانی ، معاشرے میں ہونے والے جرائم اور سماجی برائیوں سے بھی دوسروں سے زیادہ باخبر ہیں۔
جب ایسے افراد امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کی خلافت کو غصب کرنے اور اہل بیت علیہم السلام سے حکومت چھیننے کے اثرات[1] پر غور کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لئے زندگی بسر کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ اگر وہ ظہور کے زمانے میں خدا کے لطف و کرم اور حضرت بقیۃ اللهالأعظم ارواحنا فداه کی عنایات کو مدنظر نہ رکھیں تو ان کی روح پرواز کر جائے ۔ان کے دل میں غم و اندوہ اور حسرتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر ان کا زالہ نہ کیا جائے تو وہ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں ۔
امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کی خلافت کو غصب کرنے اور ابتدائے اسلام سے اہل بیت علیہم السلام پر ہونے والے ظلم و جبر سے اولیاء الٰہی (منجملہ دعبل خزاعی) کے دل پارہ پارہ ہیں ،ان کے دل حسرت اور غم و اندوہ سے لبریز ہیں اور ان کی آنکھوں میں ہر لمحہ موت جلوہ گر ہوتی ہے ، ان کے لئے زندگی دشوار ہو گئی ہے اور ممکن ہے کہ وہ غم کی شدت کی وجہ سے اس دنیا سے ہی رخصت ہو جائیں ؛ لیکن جب وہ عصر ظہور کو مدنظر رکھتے ہیں تو انہیں امید کی کرن دکھائی دیتی ہے اور ان کے دل کو تسکین ملتی ہے کہ اس زمانے میں اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام پر ہونے والے ظلم کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس طرح وہ موت سے نجات پاتے ہیں ۔
عظیم شاعر ِاہل بیت علیہم السلام’’دعبل‘‘ نے بھی اپنے اشعار میں یہ نکتہ بیان کیا ہے۔ انہوں نے ظہور کے دور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنے درد دل کا اظہار کیا ہے کہ جو ان کے لئے موت کا سبب بن سکتا ہے۔
بازديد امروز : 8779
بازديد ديروز : 65588
بازديد کل : 179710442
|