امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کے کلام میں صبر کی اہمیت
اميرالمؤمنين حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
الْزَمُوا الْأَرْضَ وَاصْبِرُوا عَلَى الْبَلَاءِ وَلَاتُحَرِّكُوا بِأَيْدِيكُمْ وَ سُيُوفِكُمْ وَ هَوَى أَلْسِنَتِكُمْ وَ لَا تَسْتَعْجِلُوا بِمَا لَمْ يُعَجِّلْهُ اللَّهُلَكُمْ فَإِنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْكُمْ عَلَى فِرَاشِهِ وَ هُوَ عَلَى مَعْرِفَةِ رَبِّهِ وَ حَقِّ رَسُولِهِ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ مَاتَ شَهِيداً أُوْقِعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَ اسْتَوْجَبَ ثَوَابَ مَا نَوَي مِنْ صَالِحِ عَمَلِهِ وَ قَامَتِ النِّيَّةُ مَقَامَإصلائه (إِصْلَاتِهِ) بِسَيْفِهِ فَإِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ مُدَّةً وَأَجَلاً. [1]
اپنی جگہ پر ٹھہرو اور مصیبتوں پر صبر کرو ، اور اپنے ہاتھ، تلوار یا زبان سے کوئی حرکت نہ کرو، اور کسی ایسی چیز میں جلدی نہ کرو جس میں خدا نے تمہارے لئے جلدی نہیں کی ہے۔کیونکہ تم میں سے جو شخص اپنے بستر پر اس حال میں مرے کہ اس نے خدا، پیغمبر اور ان کی اہل بیت کو پہچان لیا تو گویا وہ شہید کی موت مرا اور اس کا اجر و ثواب خدا کے ذمہ ہے جو اس کی نیت اور نیک اعمال کی جزا دے گا،اور (حکومت الٰہی کے لئے) اس کی نیت یہ تھی کہ اس نے اپنی تلوار کو (حضرت کی نصرت کے لئے ) تیار رکھا ہے ، کیونکہ ہر چیز کی ایک مدت اور وقت ہوتا ہے ۔
حضرت امام علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق جو لوگ صبر کرنے والے ہیں اگر وہ خدا ، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی معرفت رکھتے ہوں تو خدا انہیں ان کی نیت کی وجہ سے اس شخص کا اجر دے گا جس نے راہِ خدا میں تلوار چلائی ہو اور شہید ہو گیا ہو۔ اس اعلیٰ درجہ میں معرفت کا یہ کردار ان لوگوں کے لئے ہے جو معرفت کے ساتھ صبر بھی کرتے ہوں ۔
بازديد امروز : 8881
بازديد ديروز : 65588
بازديد کل : 179710544
|